سینہ بہ سینہ(آف دا ریکارڈ) پارٹ 57
دوستو۔۔ آپ کا موسٹ فیوریٹ سلسلہ سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط حاضر ہے۔۔ خبریں آج بھی بہت زیادہ ہیں۔۔ کوشش کرونگا کہ تھوڑی تھوڑی سب آپ تک علم میں آجائے۔۔۔پپو کراچی میں بہت ایکٹیو چل رہا ہے، جس کی وجہ سے خبروں کی دھڑادھڑ لاہورآمد ہورہی ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ سینہ بہ سینہ بھی آپ کو جلدی جلدی پڑھنے کو مل رہا ہے۔۔اور اس میں زیادہ گیپ نہیں آرہا۔۔۔
ڈاکٹر انور سجاد کہا کرتے تھے کہ” جس دود میں لکھنے اور بولنے پر پابندیاں عائد ہوں وہاں علامتی طرزتحریر خوب پھلتاپھولتا ہے ظاہر ہے ہر لکھنے والے کی خواہش،ہر عام انسان کی طرح یہی ہوتی ہے کہ وہ شام کو اپنے گھر جائے۔۔ کون چاہتا ہے کہ اس ظالم سردی میں جب دنیا اپنے گھروں میں گرم لحافوں میں دبکی عافیت کے خواب دیکھتی ہو، وہ سرد فرش پہ ایک پرانا کمبل اوڑھے سوچ رکھنے کے جرم کی سزا پارہا ہو۔۔مگر ایک تکلیف جو اس تکلیف سے بھی بڑی ہے اور کوئی بھی لکھنے والا اس سے گزرنے سے بچنے کو بڑی سے بڑی تکلیف ہنس کر برداشت کرنے کو تیار ہوتا ہے،وہ ہے اپنی بات نہ کہہ سکنا۔۔لکھنے والے اپنی جانوں میں بہت اچھا کام کرتے ہیں لیکن افسوس وہ اپنی کہانی کے ہیرو نہیں ہوتے، انہیں اکثر سیکوئل میں بطور ہیرو یاد رکھا جاتا ہے۔۔”
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات ایسی دل کو لگی کہ آپ سے شیئر کرڈالی۔۔ حقیقت بہت کڑوی ہوتی ہے۔۔ لکھنے اور بولنے پر پابندی تو اپنی جگہ، اب ایسا کرنے والے کی ستائش اور اس کی تعریف کردینا بھی معتوب گردانا جاتا ہے،اپنی مرضی کا لکھوانے کیلئے باقاعدہ میڈیا سیل بنوائے جاتے ہیں، اپنے فیوریٹ کالم نویسوں سے کالم لکھوائے جاتے ہیں، اپنے فیوریٹ رپورٹرز سے خبریں گھڑوائی جاتی ہیں۔۔اپنے فیوریٹ اینکرز سے اپنی پسند کا سچ کہلوایا جاتا ہے۔۔ اور یہ چلن بہت عام ہوگیا ہے۔۔۔میڈیا کو قابو میں رکھنے کا ایک فن یہ بھی ہے کہ انہیں مسلسل “نوازا” جائے۔ ۔ وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے آج اخبارات کے سرکاری اشتہارات کے نرخوں میں پندرہ فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔۔اور کہا ہے کہ اشتہاری بجٹ کو الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کیلئے الگ الگ مختص کیاجارہا ہے اور اشتہاری بجٹ میں مزید بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا۔۔یہ اعلانات انہوں نے اخبارمالکان کی تنظیم اے پی این ایس کی مجلس عاملہ کے ارکان کے اعزاز میں ظہرانے کے دوران کئے۔۔۔
“نوازے” جانے کی ایک بڑی مثال میں دوبارہ یاددہانی کےلئے بتادوں کہ وڈے چینل کے وڈے رپورٹر کی زوجہ محترمہ کی مدت ملازمت میں تیسری بار توسیع دی گئی ہے۔۔۔یہ وہ صحافی ہیں جو پانامہ کیس کی سماعت کے دوران نون لیگ کے حق میں ایک عدالتی ریمارکس پر اتنے جذباتی ہوگئے کہ برابرمیں بیٹھے دانیال عزیز کے ہاتھ پر اتنی زور سے ہاتھ مارا کہ تالی کی گونج پورے کمرہ عدالت میں سنی گئی۔۔اب آپ خود ہی بتائیں کہ ایسے “صالح” صحافی ہماری صفوں میں ہونگے تو کیا کبھی بہتری آسکتی ہے؟؟
تین چینلز جن میں وڈا چینل، دنیانیوز اور ابتک شامل ہے، جس طرح مراعات یافتہ ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ان چینلز پر آپ کو کبھی حکومت کے خلاف کوئی خبر نظر نہیں آئے گی۔۔ان کے اخبارات بھی ان کی پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔ پانامہ لیکس پر جتنی جانبداری دنیانیوز اور وڈا اخبار کررہے ہیں، توبہ توبہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔۔۔ اب تو ان چینلز نے اپنےاینکرز کو بھی زبانی حکم نامہ جاری کیا ہے کہ حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر کچھ نہ لکھا جائے۔۔۔ یعنی چینلز اپنے ملازمین کے سوشل میڈیا پر لکھی تحریروں کی مانیٹرنگ بھی کرنے لگے ہیں۔۔ اور وہاں بھی اپنی مرضی چلانے لگے ہیں۔۔
ابتک چینل کا ذکر آیا ہے تو یہاں کی کچھ باتیں بھی پپو کی زبانی سن لیں۔۔بدھ کے روز (یعنی کل ) ابتک کے مالکان نے اپنی خواتین اینکرز کو اپنی بہن کے آؤٹ لیٹ بھیجا۔۔جس کا مقصد وارڈروب تھا، یعنی ایسے ملبوسات کا انتخاب کرلیں جو وہ دوران بلیٹن پہن سکیں۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آؤٹ لیٹ اسی چینل کے مالک کی بہن کا ہے،اس لئے وہ خواتین اینکرز کو بھی اپنا ہی ملازم سمجھتی ہے۔۔وہاں پر ایک خاتون اینکر علینہ فاروق کی کسی ڈریس پر بحث ہوئی تو مالک کی بہن نے اسے انگریزی میں گالی دے دی۔۔وہ خاتون اینکر انتہائی شریف اور خاندانی تھی اسی لئے اس نے جواب میں گالیاں نہیں دیں۔۔ وہ واپس دفتر آئی، اپنا استعفا دے دیا، جس میں صاف لکھا کہ اگر اس سے سوری نہ کیا گیا تو پھر اس کا چینل میں آخری دن ہوگا۔۔۔مالکان اور سوری کرلیں۔۔ ناممکن بات ہے، بس کل علینہ فاروق کا ابتک میں آخری دن تھا۔۔۔
پپو نے مزید بتایا ہے کہ آج ہی نیوزروم میں سینیئر اسائنمنٹ ایڈیٹر اقبال عظیم کو کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیا گیا۔۔ پپو نے اس کی تفصیل کچھ یوں بتائی ہے کہ کسی خبر میں کوئی غلطی ہوئی۔۔چیئرمین ایف بی آر سے متعلق ایک خبر تھی جس میں ایک چھوٹی سی غلطی ہوگئی تھی۔۔۔ آج تین بجے یچ آر والے نیوزروم میں آئے۔۔اسے کہا کہ آپ کی موبائل سم بلاک کردی گئی ہے، دفتر سے نکل جائیں، آپ کو فارغ کردیاگیا ہے۔۔یہ حال ہے میڈیا کا۔۔ جہاں ہر وقت اخلاق، انصاف، سچائی کا درس دیا جاتا ہے۔۔ جس کے اپنے کارکن ناانصافی اور حقوق کے لئے ترس رہے ہیں۔۔۔
پپو نے مزید بتایا ہے کہ علینہ کو وڈے چینل میں بطور اینکر ملازمت مل گئی ہے۔۔وہ بہت جلد وڈا چینل جوائن کرلے گی۔۔ جب کہ دنیانیوز کے ایک اینکر عبیداللہ بھی وڈے چینل کا حصہ بننے والے ہیں۔۔۔
وڈے چینل کے حوالے سے بھی پپو کی تازہ مخبریاں سن لیں۔۔۔ وڈا چینل جہاں نئی بھرتیاں کررہا ہے، مختلف شہروں سے اینکرز کو جہاز کے ریٹرن ٹکٹ بھجواکر شاندار ہوٹلوں میں ٹھہرا کر ان کے انٹرویو کررہا ہے وہیں اس کےملازم اب تک تنخواہوں کیلئے رو رہے ہیں۔۔ اس چینل کے خلاف ایک صاحب پورے پورے پروگرام کررہے ہیں، وڈے چینل کی انتظامیہ کو شک ہے کہ ان کے اندر کوئی میرجعفر یا میرصادق ہے جو اندر کی خبریں ان صاحب تک پہنچا رہا ہے۔۔۔ اب انتظامیہ کو یاد آیا ہے کہ ایک بار وہ “صاحب ” ایک شخص کو چھوٹے میر صاحب کے پاس لے گئے تھے اور ان سے سفارش کی تھی کہ انہیں انصار عباسی صاحب کی جگہ لگادیں۔۔یہ بہترین نعم البدل ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وڈے چینل کے اس کنٹرولر کے سر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔۔ اس پر شک کیا جارہا ہے کہ وہ مخبریاں کررہا ہے، پپو نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس کنٹرولر کو کسی بھی وقت فارغ کیا جاسکتا ہے۔۔ لیکن اگر آپ نے سینہ بہ سینہ میں اس کا ذکر کردیا تو شاید پھر اس فیصلے پر فوری عمل درآمد ممکن نہ ہوسکے۔۔ یہی وجہ ہے کہ اس کنٹرولر سے ایک قلبی تعلق کی وجہ سے میں یہ سب کچھ لکھنے پر مجبور ہوا ہوں۔۔۔ورنہ میری کوشش ہوتی ہے کہ انتہائی قریبی دوستوں کے حوالے سے کچھ لکھنے سے گریز کروں۔۔ کیونکہ میں نے اپنے انتہائی قریبی دوستوں کیلئے پہلے ہی دل میں ایک قبرستان بنالیا ہے۔۔جہاں ان کی ساری خامیاں اور برائیاں دفن کردیتا ہوں۔۔۔
پچھلی بار آپ کو پی ٹی وی کے ڈائریکٹر اسپورٹس ڈاکٹر نعمان نیاز کے متعلق خبر دی تھیی۔۔۔انہیں صرف اس لئے او ایس ڈی بنادیا
گیا کہ انہوں نے اے آر وائی کی ٹیم کراچی کنگز کے ساتھ پی ٹی وی کا معاہدہ کیا۔۔ لیکن پی ٹی وی ملازمین کچھ اور ہی کہانیاں سنا رہے ہیں۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی وی کا ایک ملازم حیدراظہر ان کی نوکری لے ڈوبا۔۔ ان دونوں کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔۔۔
پی ٹی وی کا ذکر آیا ہے تو سرکاری چینل سے کیمرے کے پیچھے ہونے والے واقعات کی خبریں بھی منظرعام پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔۔ خواتین اسٹاف کو ہراساں کئے جانے کی شکایات کے بعد تحقیقاتی کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے۔۔ لیکن حسب معمول کمیٹی نے بھی انصاف کی فراہمی میں اپنا حصہ ڈالنےکےبجائے متاثرین کو رسوا کرنا شروع کردیا ہے۔۔جس کے بعد مجبور ہوکر خواتین اینکرز ” ت” اور ” ی ” کھل کر سامنے آگئی ہیں۔۔ اور اپنی آواز بلند کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لےلیا۔۔ خاتون اینکر” ت” نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی نے ان سے سوال کیا کہ اگر آپ کو ہراساں کیا گیا تو آپ نوکری چھوڑ کر گئی کیوں نہیں؟؟۔۔” ت ” کی جانب سے کمیٹی کے شرمناک سوال اور نوکری چھوڑ کرچلے جانے کے اشارے کے ٹوئیٹ کے بعد ” ی” بھی اپنا دکھ نہ چھپاسکیں۔۔ کہتی ہیں۔۔ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوچکا ہے، میں ایک شکایت کنندہ ہوں اور مجھ سے پوچھا گیا کہ شریف گھروں کی لڑکیاں گھر جاتی ہیں آپ کیوں نہیں گئیں؟؟۔۔ یعنی دراصل یہ بتانے کی کوشش کی گئی شریف گھروں کی لڑکیاں شکایت نہیں کرتیں بلکہ ہراساں کئے جانے کے بعد چپ چاپ گھر چلی جاتی ہیں۔۔یا پھر اس “مافیا” کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں۔۔۔
سرکاری ٹی وی کے بعد اب سندھ کے صحافی نواز سیکرٹری کی بھی کچھ بات ہوجائیں۔۔ جنہوں نے صحافیوں کو نوازنے میں اگلے پچھلے تمام بیوروکریٹس کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔۔ سیکرٹری موصوف کی وجہ سے بائیک والے صحافی اب نئے ماڈلز کی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔۔پپو کی تازہ ترین اطلاع کے مطابق وڈے رئیس کے برادرنسبتی کا رشتہ رکھنے والے سیکرٹری نے بیس کے لگ بھگ صحافیوں کو نئی گاڑیاں یا ان کی قیمت، محکمے کے مال غنیمت میں سے ادا کی ہے۔۔
کراچی میں چینل مالکان کی جاری جنگ اب کچھ ٹھنڈی پڑتی جارہی ہے۔۔ جو آفٹرشاکس آنے تھے آچکے۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا نیوز سے 24 جانے والے ڈائریکٹر مارکیٹنگ و اپنی اوقات کا اچھی طرح سے اندازہ ہوگیا، واپسی کیلئے منتیں ترلیں شروع کردیں۔۔ لیکن ہری جھنڈی دکھا دی گئی۔۔۔پپو کا کہنا ہے کہ دنیا نیوز میں یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ جانے والے نے کروڑوں کے گھپلے کئے تھے۔۔ اور سارا پیسہ لگژری گاڑیوں کے کاروبار پر لگادیا۔۔ دو شاندار بنگلوز بھی اسی کمائی سے بنائے۔۔ چنانچہ اب انہیں واپس لئے جانے کا کوئی امکان نہیں۔۔
سما نے ایک خاتون کو بیوروچیف کراچی بنایا، پچھلی بار میں نے اس کی تعریف بھی کی تھی اور اسے اچھا اقدام قرار دیا تھا۔۔ لیکن پپو کا کچھ ہی کہنا ہے ۔۔ اس نے بتایا ہے کہ بیوروچیف کیلئے دوتین سینیئر لوگوں سے رابطہ کیا گیا، انہیں اچھی آفرز بھی کی گئیں۔۔ لیکن انہوں نے صرف اس لئے آنے سے منع کردیا کہ وہ فرحان ملک کے ماتحت کام کرکے اپنی عزت نفس مجروح نہیں کرسکتے۔۔ جس کے بعد اس کا متبادل سوچا گیا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ پہلے انتظامیہ نے سوچا کہ کسی سینیئر رپورٹر کو بیوروچیف بنایاجائے مگر جب حالات کا تجزیہ کیا گیا تو انہیں احساس ہوا کہ رہے سہے لوگ بھی چھوڑ کر جاسکتے ہیں۔۔اس لئے مجبوری میں خاتون کو بیوروچیف بنایا گیا۔۔۔یہ تو تھی پپو کی مخبری۔۔ اس سے آگے میں اپنی بات کرونگا۔۔ چلیں بنادیا بہت اچھا کیا۔۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ فریال عارف اپنے کام سے چینل انتظامیہ کو مایوس نہیں کریں گی۔۔اور بھرپور طریقے سے نئی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔۔۔
میٹروون میں اوپرکی کمائی کہاں سے آرہی ہے کہاں جارہی ہے؟ یہ بھی آج آپ کو بتانا تھا لیکن بلاگ کی طوالت کی وجہ سے اسے اگلی بار کیلئے رکھتے ہیں۔۔ ملتے ہیں ایک مختصر سے بریک کے بعد۔۔ جب تک اپنا خیال رکھئے گا۔۔ اور گیزرشریف اور رضائی شریف سے بنا کے رکھئے گا۔۔ (علی عمران جونیئر)۔۔۔
سینہ بہ سینہ قسط نمبر 57
Facebook Comments