Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 56

سینہ بہ سینہ(آف دا ریکارڈ) پارٹ 56
دوستو۔۔ آپ کا موسٹ فیوریٹ سلسلہ سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط حاضر ہے۔۔ خبریں تو اتنی ہوتی ہیں کہ اگر روز بھی یہ بلاگ لکھا جائے تو خبریں ختم نہ ہوں۔۔ لیکن ساتھ ہی یہ ڈر بھی لگا رہتا ہے کہ کہیں آپ کا یہ مقبول سلسلہ یکسانیت کا شکار نہ ہوجائے اور ۔۔ اس کے بعد بوریت ہی بوریت ہوگی۔۔چنانچہ جب خاص خبریں ہوں تو پھر دل خودبخود چاہتا ہے کہ آپ تک وہ خبر پہنچے۔۔
اکثر دوست پوچھتے ہیں سینہ بہ سینہ لکھنے سے کتنے نفل کا ثواب ملتا ہے۔۔ ان کی خدمت میں بارہا عرض کرچکا ہوں کہ نیت اصلاح کی ہوتی ہے، جب سے اس سلسلے کو لکھنے کا آغاز کیا تو شروع دن سے ہی یہ سوچ تھی کہ ہماری فیلڈ میں کچھ بہتری آجائے۔۔ جب یہ سلسلہ ہٹ ہوگیا تو پھر جہاں ایک جانب دھمکیوں،وارننگ کے فون آنے لگے وہیں لالچ بھی دیا جانے لگا، کئی طرح کی آفرز بھی ملیں، نوکریوں، پیسہ، گاڑی کے ساتھ ساتھ وہ سب چیزیں جو میرے جیسے غریب صحافی اور قلم کے مزدور کیلئے صرف خواب ہی ہو۔۔ لیکن کبھی ضمیر نہیں بیچا، کل بکے تھے نہ آج بکنا ہے۔۔ جب تک زندگی ہے ، کوشش سچ لکھنے کی رہے گی۔۔
جب کسی کے خلاف لکھو تو وہ اگر “بااثر” ہوتا ہے تو کوشش کرتا ہے کسی طریقے سے مجھے “دبایا” جائے، جب وہ اس کوشش میں ناکام ہوجاتا ہے، تو پھر کیس کرنے کی دھمکی ملتی ہے، اس میں چونکہ اس کی اپنی پکڑ ہونے اور معاملہ مارکیٹ میں افشا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اس لئے پھر وہ منتوں ، ترلوں پر آجاتا ہے، پھر کسی بہت قریبی دوست کی سفارش ڈھونڈی جاتی ہے کہ کسی طرح میں اس کے خلاف لکھنا بند کردوں۔۔ ایسی کئی درجن مثالیں ہیں،کس کس کا ذکر کروں، نام لینا مناسب نہیں، لیکن ان کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ وہ دیوار سے ٹکریں مار رہے ہیں۔۔ایک صاحب کے حوالے سے کچھ تحریر کیا تو وہ بہت گرجے برسے، یہاں تک مجھے ” نیو” سے نکلوانے کی دھمکی بھی دے ڈالی، سب باتیں میرے علم میں آچکی ہیں، ان ” صاحب” کی خدمت میں عرض ہے کہ پکچر ابھی باقی ہے دوست، بڑے بڑے دعوے کرنا بند کردو، انسان کے بچے بنو، تمہاری حرکتیں بتاتی ہیں کہ بس تمہاری جانب سے خدائی کا دعویٰ کرنا (نعوذ باللہ ) باقی رہ گیا ہے،باقی تمہارے انداز سے لگتا یہی ہے کہ دنیا میں رزق بھی تم ہی بانٹ رہے ہو۔۔ ایک مچھر کی وجہ سے نمرود کی موت ہوگئی تھی، تم نمرود سے زیادہ صاحب اختیار نہیں۔۔جس دن میرا دماغ گھوما تو موجودہ نوکری پر لات مار کر کھل کر تمہارے سامنے آجاؤنگا۔۔ پھر دیکھتے ہیں کس میں کتنا “تپڑ” ہے۔۔ بزدل تو اتنے ہو کہ سیکورٹی کے بغیر چارقدم چل نہیں سکتے ، ڈرامے بازیاں بندکردو۔۔اس بار غلط جگہ”پنگا” لے لیا ہے تم نے۔۔ امید ہے جس طرح شوق سے تم اور تمہارے حواری اس بلاگ کو پڑھتے ہیں، میری ان باتوں کو اپنے دماغ میں بٹھا لوگے۔۔ اب دھمکی آئی یا کوئی ڈرامہ کیا تو پھر میدان حاضر ہے، جو تم سے ہوسکتا ہے کرلینا، اور میں جو کرونگا وہ دنیا دیکھے گی۔۔لیکن یہ بات یاد رکھنا میرا کچھ “اسٹیک” پہ نہیں ہوگا، تمہارا سب کچھ داؤ پر لگ جائے گا۔۔۔
اب بول سے متعلق ایک بڑی بریکنگ سن لیں۔۔پپو نے دعوی کیا ہے کہ دنیا نیوز کے کامران خان کی بول پر جلد واپسی ہورہی ہے۔۔ جس کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔۔پپو نے جب یہ خبر دی تو میں ہنس پڑا۔۔ کہا یار۔۔پہلے بھی تم نے یہ دعوی کیا تھا اب پھر وہی دعوی کررہے ہو، جس پر پپو نے چیلنج کیا کہ ۔۔ بول انتظامیہ اگر میرے دعوے کو غلط کہہ دے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔۔ پپو نے کامران خان کی واپسی کے حوالے سے تیاریوں کی تفصیل بھی بتائی ہے۔۔ جسے کم سے کم میں شیئر کرنے سے قاصر ہوں۔۔۔
اب کچھ باتیں چند اینکرز کی، یہ نامی گرامی اینکرز ہیں،اس لئے پپو کی جانب سے ملنے والی صاف اور کھلی کھلی مخبریوں کو میں اشاروں میں بتانے کی کوشش کرونگا۔۔ میڈیا والے دوست تو شاید پپو کی ان مخبریوں کو آسانی سے سمجھ جائیں لیکن جس کی سمجھ میں نہ آئے وہ ان سے سمجھ لے جن کی سمجھ میں آگیا ہے۔۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ ایک وڈے اینکر کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہے، موصوف کے بارے میں جب فائلیں کھلیں تو بہت کچھ سامنے آیا، موصوف چونکہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری رکھتے ہیں اس لئے انہوں نے میڈیا میں آنے سے پہلے بزنس پر توجہ دینے کی کوشش کی اس دوران وہ خنانی اینڈ کالیہ کے ہاتھوں بلیک منی کے چکر میں پڑ گئے، جس کا کچھ ریکارڈ خفیہ اداروں کے ہاتھ لگا ہے، پپو کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈ امریکی حکومت نے ہماری حکومت کو فراہم کیا۔۔ جس میں اس اینکر کے ساتھ ساتھ بہت سی بڑی مچھلیوں کے نام بھی ہیں۔۔مذکورہ اینکر کی پشت پر چونکہ کچھ بااثرترین لوگ ہیں اس لئے اب تک معاملہ ان تک پہنچا نہیں،لیکن کوئی بعید نہیں مستقبل قریب میں وہ رگڑے میں آجائیں۔۔۔
ایک اینکر سائیڈ بزنس کے طور پر “پرندوں” کی خریدوفروخت کا بزنس بہت کامیابی سے کررہے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ ایک ایک پرندہ شوقین افراد ایک لاکھ سے ستر،اسی لاکھ روپے تک میں خریدتے ہیں، اینکر موصوف بیرون ممالک سے نایاب نسل کے پرندے منگوا کر شوقین افراد کو بیچتے ہیں اور کافی عرصے سے یہ کاروبار کررہے ہیں۔۔۔
پپو کا کہنا ہے ۔۔ایک مرد اینکر کو لاہور میں اینکروں کی پھوپھی کہاجاتا ہے۔۔۔
پپو مزید کہتا ہے۔۔ ایک خاتون اینکر کا نام کوئی ساتھی اینکر (ان کے چینل اور باہر کے چینل کا) نہیں لیتا، سب انہیں “بھابھی” کے نام سے پکارتے ہیں، اس کی بڑی دلچسپ وجہ بھی پپو نے بتائی ہے، کہتے ہیں موصوفہ نے کسی بااثر شخصیت سے خفیہ طور پر سات پھیرے لے لئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ “جگت بھابھی” ہوگئی ہیں۔۔۔
اینکرز پرمزید باتیں اگلی بار کرینگے۔۔ اب ذکر کچھ ایک ایسی داستان کا، جسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا گیا لیکن جب پپو نے تفتیش کی تو حقائق کچھ اور ہی نکلے۔۔آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصے پہلے سکھر میں سما کے رپورٹر”امداد پھلپھوٹو” کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا اور کچھ گھنٹے بعد جب سما نے شور مچایا تو رہا کردیا گیا۔۔چینل نے اس واقعہ کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔۔ اس چینل کے کچھ دوستوں نے بھی یہی بتایا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے، اگر حکومت کے خلاف خبردینے پر رپورٹر کو اس طرح اٹھایا جانے لگے تو پھر صحافت کیسے چلے گی؟۔۔ بالکل درست مجھے اپنے دوستوں سے کوئی اختلاف نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔۔ لیکن ذرا رپورٹر موصوف کے بیک گراؤنڈ پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔۔ موصوف نے سندھی چینل”دھرتی” پر ایک عرصہ مفت نوکری کی، ساتھ ہی وہ ماہانہ پانچ ہزار روپے چینل انتظامیہ کو بھی ادا کرتا تھا، سکھر میں کون سا صحافی ہے جو رپورٹر موصوف کا بیک گراؤنڈ نہیں جانتا، کچھ مصلحتا” خاموش ہیں تو کچھ نظرانداز کردیتے ہیں لیکن سچ بولنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔۔موصوف کے کئی واقعات پپو نے بتائے ہیں۔۔ ایک واقعہ آپ کا ایمان تازہ کرنے کیلئے سنارہا ہوں۔۔ کچھ عرصہ پہلے خورشید شاہ کی ایک فوٹیج تمام میڈیا نے چلائی تھی ، جس میں وہ ایک زیرتعمیر سڑک پر کھڑے ہیں اور ایک انجیئنر کو ڈانٹ رہے ہیں خورشید شاہ صاحب غصے میں زیرتعمیر سڑک سے روڑے اٹھا اٹھا کر پٹخ بھی رہے ہیں۔۔۔ یادآگیا۔۔ جی ہاں۔۔ اس بیچارے انجینئر سے توڑجوڑ کرکے پچاس ہزار روپے لئے گئے،اب آگے سنیں۔۔ موصوف کے خلاف جو ایس پی حرکت میں آیا اس کی ایمانداری پر کسی کو شائبہ نہیں، پولیس ذرائع کہتے ہیں کہ کچھ اشتہاری جو رپورٹرموصوف کے رشتے دار بھی ہیں، چھاپے کے دوران موصوف کے گھر سے ہی گرفتار ہوئے، پتھارے داری (ڈاکوؤں سے رابطے کا نام اندرون سندھ میں پتھارے داری کہلاتا ہے)کے الزام میں پولیس نے اسے اٹھا لیاجس کے بعد آزادی صحافت پر حملے کا ” ورد ” شروع کردیا گیا۔۔ اب مزید سنیں۔۔ پپو کہتا ہے سندھ میں سما کے جتنے بھی نمائندے ہیں ان میں صرف سکھر اور حیدرآباد کے نمائندے ہی مستقل ہیں، باقی سب کنٹریکٹ پر ہوتے ہیں جو ہر چھ ماہ بعدتجدید ہوتے ہیں۔۔ صرف یہی دو مستقل رپورٹرز اس وقت سما انتظامیہ کے لاڈلے اور چہیتے بنے ہوئے ہیں، ان میں سے حیدرآباد والے نمائندے کو تھر سے بلاکر حیدرآباد میں سیٹ کرایاگیا وہ بیچارہ کم تنخواہ کی وجہ سے ” بول” گیا تو اسے بول کے برابر پیکیج کرکے سما میں ہی روک لیا گیا۔۔ حیدرآباد کا یہ نمائندہ میرا بھی اچھا دوست ہے لیکن پپو نے جب یہ سارا واقعہ سنایا تو میں خود بھی حیران ہوگیا۔۔ کیونکہ اس نمائندے نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ وہ بول جوائن کرچکا ہے یا بول چھوڑ کر دوبارہ سما چلا گیا ہے۔۔یہ سب پپو نے مجھے بتایا۔۔خیر بات ہورہی تھی سکھر والے نمائندے کی۔۔ سکھر والے نمائندے کو سما میں باقاعدہ “ایڈجسٹ” کرایا گیا، اس سے پہلے جو نمائندہ تھا وہ بیچارہ تنخواہ اور سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے 92 سوئچ کرنے پر مجبور ہوگیا۔۔ سما کے نمائندہ سکھر کے مزید قصے اگلی بار کیلئے ۔۔
سما کو اس بات کی داد دینا ہوگی کہ انہوں نے میڈیا کی تاریخ میں پہلی ایک خاتون بیوروچیف مقرر کی ہے۔۔ فریال عارف کو کراچی بیورو کا چیف بنایاگیا ہے۔۔ فریال ایک ٹیلنڈ صحافی ہے۔۔ سخت مزاج کی ہے، رپورٹرز سے کام لینا جانتی ہے۔۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ وہ اپنی نئی زمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھالے گی۔۔ فریال سے ایک درخواست ہے کہ وہ زیادہ غصہ نہ کیا کرے۔۔ دماغ ٹھنڈا رہے گا تو ہر مسئلے کا حل نکالنا زیادہ آسان رہے گا۔۔غصے میں کام بگڑتے ہی ہیں سنورتے کبھی نہیں۔۔
میٹروون کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔۔ پپو کراچی کے حوالے سے خاص شہرت رکھنے والے میٹرو ون چینل کے متعلق بھی کئی مخبریاں دیتا رہتا ہے۔۔جہاں میرے بہت سے پرانے دوست بھی کام کرتے ہیں ، جو صحافت کے سفر میں میرے ساتھ شریک سفر رہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ پرائم ٹائم کے دوران اس چینل میں ورکرز کی جو قلت ہے وہ افسوسناک ہے۔۔مارننگ شفٹ والوں کو رات گئے تک کام کرنے پر مجبورکیاجاتا ہے۔۔پپو کے مطابق نیوزڈیسک پر جو تھوڑا بہت رش دکھائی دیتا ہے ان میں زیادہ تر انٹرنیز کی تعداد ہے۔۔ جن سے پروفیشنل صحافیوں کی طرح کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایک پیسہ معاوضہ نہیں دیا جاتا۔۔پرائم ٹائم میں ورکرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔۔ایک ہی ورکر سے نیوز،ٹکرز، رن ڈاؤن اور پی سی آر میں پروڈکشن بھی کرائی جاتی ہے۔۔ورکرز اوورٹائم لگاتے ہیں مگر انہیں تنخواہوں تک کے لالے پڑ جاتے ہیں۔۔تنخواہوں میں مسلسل کٹوتیوں کے باعث بہت سے پرانے ورکرز دلبرداشتہ ہوگئے اور چینل چھوڑ چھوڑ کر دیگر چینلز پر چلے گئے۔۔جس کے بعد سے کچھ لوگوں کو دوسے تین گھنتے مزید روکا جاتا ہے اور کچھ بیچارے ڈبل شفٹ کرنے پر مجبور ہیں۔۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو چھوڑ کر جارہے ہیں ان خالی اسامیوں پر کسی کو بھی نہیں رکھا جارہا۔۔ پپو نے اور بھی کئی حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں جو پھر کسی وقت سنائیں گے آپ کو۔۔ پپو کی تازہ اطلاع یہ ہے کہ چینل کے سی ای او آج پانچویں دن بھی آفس نہیں آئے جس کی وجہ سے دفتر کے اسٹاف میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔۔پپو نے پکی مخبری دی ہے کہ چینل پربہت بڑی تبدیلی ہونے جارہی ہے یہ چینل کی اب تک کی سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔۔ اس تبدیلی کے پیچھے کیا گیم کھیلا گیا، کس نے کھیلا، کون فائدے میں رہا اور کسے خسارہ رہا۔۔ چینل کی اوپر کی کمائی کہاں سے آتی ہے کہاں جاتی ہے اور اب باقاعدگی سے کہاں جارہی ہے؟۔۔ پپو نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا۔۔ جسے وقت آنے پر بے نقاب کیا جائے گا۔۔۔
پپو کا کہنا ہے کہ سچ نیوز اسلام آباد کے ملازمین دو ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔۔ جناح اخبار کے ملازمین کو بھی تنخواہوں کی شکل دیکھے عرصہ بیت گیا۔۔ اس سلسلے میں نیشنل پریس کلب نے بھی نوٹس لیا ہے اور نومنتخب صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم نے متعلقہ اداروں سے کارکنوں کی فوری تنخواہیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔۔
نیوزون میں صورتحال کافی دگرگوں ہوچکی ہے۔۔ ایک کنٹرولر خواجہ حسنین صاحب نے سما میں جانے کی کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔۔ ایک اور ایگزیکٹیو پرڈیوسر جو صبح کی شفٹ کے تمام معاملات دیکھتے ہیں سما سوئچ کرگئے۔۔ یکم تاریخ سے جوائننگ دیں گے۔۔ پپو نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیوزون کی تاریخ میں کبھی اتنی تنخواہیں لیٹ نہیں ہوئیں۔۔ آج کی تاریخ تک آدھے لوگوں کو تنخواہ مل گئی جب کہ آدھے اب بھی محروم ہیں۔۔ سنا ہے کہ بینک کی تبدیلی کی وجہ سے کارکنوں کو تنخواہوں میں تاخیر ہوئی ہے۔۔
اے آر وائی نےوڈے چینل کے خلاف تین ملین پونڈ کا کیس ہارنے کے بعد لندن میں اپنے دفاتر بند کردیئے۔۔اے آر وائی کے یوکے چیف آپریٹنگ آفیسر فیاض غفور نے عدالت میں خود کو دیوالیہ ظاہر کردیا۔۔جس پر اے آر وائی کے ملازمین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ دفاتر بند کرنے کے معاملے میں انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔۔ان کا کہنا ہے کہ فیاض غفور نے انہیں کہا ہے کہ کہ وہ دیوالیہ ہونے کے بعد برطانیہ چھوڑ کر جارہا ہے۔۔۔
اے آر وائی کے حوالے سے ہی ایک اندر کی خبر یہ ہے کہ نیوزروم میں واضح طور پر دو گروپ بن گئے ہیں۔۔ایک گروپ فرحان رضا اور دوسرا عماد یوسف کا ہے۔۔کسی بھی نیوز چینل میں اس طرح کی گروپنگ بہت نقصان دہ ہے جس کا خمیازہ گروپنگ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ چینل کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔۔
اے آروائی سے متعلق ہی ایک خبر یہ ہے کہ پی ایس ایل میں اے آر وائی کی ٹیم کراچی کنگز سے معاہدہ کرنے پر پی ٹی وی کے ڈائریکٹر اسپورٹس ڈاکٹر نعمان نیاز کو فارغ کردیا گیا۔۔ پی ٹی وی ہیڈکوارٹر نے ڈاکٹر نعمان کو اوایس ڈی بنانے کا نوٹیفیکشن بھی جاری کردیا۔۔ جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اجازت لئے بغیر کراچی کنگز سے معاہدہ کیا۔۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پی ٹی وی نے اس معاہدے کو بھی تکنیکی بنیاد پر منسوخ کردیا ہے، لیکن منسوخی کی وجہ اب تک باضابطہ طور پر کراچی کنگز کو نہیں دی گئی ہے۔۔لیکن دوسری جانب لاہور قلندر اور اسلام آباد یونائیٹڈ سے پی ٹی وی نے اپنے معاہدے برقرار رکھے ہیں۔۔
پچھلی بار آپ کو صحافی برادری کی بے حسی کے دو واقعات بتائے تھے۔۔۔ ان میں سے ایک لاہور میں ایک صحافی کے بیٹے کی علاج نہ ہونے کے باعث المناک موت کا واقعہ بھی تھا۔۔ میں نے پچھلی بار کہا تھا کہ ایسے لاتعداد واقعات ہیں جنہیں لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ سن لیں۔۔۔
لاہور کا ایک صحافی ہمایوں سلیم ہے،جس نے اپنا صحافتی کیرئر 1992 ء میں شروع کیا تھا، کئی اہم اخبارات میں اہم عہدوں پر رہا۔۔ الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا تو مختلف چینلز پر اپنی زمہ داریاں نبھائیں، اس کی پرسکون زندگی رواں دواں تھی کہ اچانک انکشاف ہوا کہ اس کی سترہ سالہ بیٹی نبیہا ہمایوں جو لاہور کالج میں سکینڈ ائر کی طالبہ ہے کو بلڈ کینسر ہوگیا ہے۔۔وہ بیٹی کو لے کر شوکت خانم اسپتال پہنچا تو اسے یہ کہہ کر بھگادیاگیا کہ ہم اس حالت میں مریض کا علاج نہیں کرتے اور ساتھ ہی اسے شہر کے دو مہنگے ترین ڈاکٹرز کے پاس جانے کا مشورہ دیا گیا جن کی فیسیں اس غریب صحافی کی اوقات سے باہر تھیں۔۔۔یعنی چندے پر چلنے والا اسپتال ہی کینسر کے مریضوں کا علاج کرنے سے صاف انکاری تھا۔۔ ہمایوں سلیم کے مطابق وہ دن رات محنت کرکے اپنی بیٹی کا علاج کراتے رہے، مہنگے مہنگے ٹیسٹ کراتے رہے، پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے کئی بار سرکاری اسپتالوں سے بھی ٹیسٹ کرایا۔۔اب اس غریب صحافی کی بیٹی کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کرانا ہے۔۔ دو ہی بڑے ادارے ہیں ایک راولپنڈی آرمڈ فورسز اور دوسرا کراچی کا آغا خان اسپتال۔۔ پنڈی میں 28 لاکھ روپے ایڈوانس ڈپازٹ کے علاوہ بارہ سے پندرہ لاکھ روپے دیگر اخراجات یعنی ٹوٹل چالیس سے پینتالیس لاکھ روپے کا خرچ ہے اور وہ ٹھہرا ایک غریب صحافی ۔۔جسے ایک ماہ تنخواہ نہ ملے تو اگلے ماہ کھانے کے لالے پڑجاتے ہیں۔۔لاہور کے ہمایوں سلیم کا فون نمبر 0300-4325189 ہے، اگر آپ آخرت کمانا چاہتے ہیں تو اس سنہری موقع سے فوری فائدہ اٹھائیں۔۔ اللہ سبحانہ تعالی کے نزدیک کوئی ایک نیکی بھی بخشش کا ذریعہ بن سکتی ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کوئی صاحب اولاد اس جہاد سے منہ نہیں موڑے گا۔۔ کیونکہ ہمارے کلچر میں تو ویسے بھی بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔
نوٹ: اس تحریر کے لکھنے تک اطلاع ملی ہے کہ حکومت پنجاب نے ان کی بیٹی کے علاج کا تمام اخراجات اٹھانے کی یقین دہانی کرادی ہے۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں