Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 55

سینہ بہ سینہ (آف دا ریکارڈ) پارٹ 55
دوستو، ایک ہفتے بعد پھر حاضر ہوں، کراچی سے لاہور آگیا، یہاں تو سردی اپنے جوبن پر ہے۔۔ہم کراچی والوں کو سخت سردی کی عادت نہیں رہی۔۔اس لئے سردی جیسے تیسے گزاررہے ہیں۔۔ خیر سردموسم میں کچھ گرماگرم باتیں بھی کرلیتے ہیں۔۔۔
ان دنوں لاہور میں “ایمپرا” ( الیکٹرانک میڈیا پرڈیوسرز ایسوسی ایشن ) کے انتخابات کے سلسلے میں گہماگہمی ہے، پندرہ جنوری بروزاتوار کو الحمرا میں صبح دس سے شام چھ بجے ووٹنگ ہوگی۔۔دو گروپ مدمقابل ہیں، پروگریسیو اور پرڈیوسرز نامی دو گروپس آمنے سامنے ہیں، دونوں میں بہت اچھے دوست ہیں، کراچی والوں کی اکثریت پرڈیوسرز گروپ میں ہے، یہ وہ کراچی والے ہیں جو لاہور میں بسلسلہ روزگار موجود ہیں، لیکن میں ایمپرا کا رکن ہوں نہ کسی گروپ میں شامل، لیکن ان کی الیکشن مہم پر نظر ہے،اہم پوسٹوں پر کھڑے لوگ اپنی جیب خاص سے مال لٹا رہے ہیں، پمفلٹس، پوسٹرز، اسٹیکرز، پینافیلکس کی بہاریں ہیں، کھابے بھی چل رہے ہیں، دعوتوں پر الگ خرچے ہورہے ہیں، پھر مختلف چینلز کے دفاتر کے دوروں کیلئے الگ خرچے۔۔ یہ ایمپرا کا دوسرا الیکشن ہے، پہلے سال میں دونوں گروپس کے مکس لوگ عہدیدار بنے، اس بار بھی ایسے ہی آثار لگ رہے ہیں۔۔ مجھے اب تک یہ سمجھ نہیں آسکا کہ۔۔ ایک ایسی تنظیم جس کا دعوی ہے کہ اس کے آٹھ سو سے زیادہ ممبرز ہیں، اس نے ایک سال گزرنے کے باوجود اب تک اپنا آئین کیوں نہیں بنایا؟ اس نے اب تک اکاونٹ کیوں نہیں کھولا؟۔۔ایک سال گزرنے کے باوجود یہ تنظیم اب تک اپنا دفتر کیوں نہ بناسکی۔۔؟؟۔۔ کیا صرف پریس کلب کی ممبرشپ نہ ملنے پر ایک تنظیم کی شکل میں پریشر گروپ کا قیام ایمپرا کا مقصد ہے؟ ۔۔
دونوں گروپس کے رہنماؤں سے ملاقات میں لگا کہ دونوں کا وژن ہی کلیئر نہیں، وہ لوگ چاہتے کیاہیں ان کے مقاصد کیا ہیں، اب تک یہ راز بھی ان کے اراکین پر نہیں کھل سکا۔۔ پچھلے سال کچھ تنازعات بھی سننے میں آئے، اس موقع پر ان کا ذکر مناسب نہیں۔۔ لیکن اگر اپنے اراکین کو صرف جوتے اور لیبارٹری سے رعایت دلانا ہی اس تنظیم کا مقصد ہے تو میرا سلام ہے اس تنظیم کے ذمہ داروں کو۔۔ امید ہے اس بار نومنتخب عہدیداران ایمپرا کو ٹریک پر لانے کی کوشش کرینگے۔۔اور اس کے کارکنوں کیلئے فخر کا باعث بنیں گے۔۔
اب اے آر وائی کی گرینڈ میٹنگ کی بات ہوجائے۔۔گزشتہ اتوار کو کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں اس کا اہتمام کیا گیا۔۔چیدہ چیدہ لوگ بلائے گئے تھے، باس نے سب سے ملاقات کی، خطاب بھی کرڈالا۔۔ ریٹنگ میں دوسری پوزیشن پر اطمینان کااظہار کیا۔۔ لب لباب یہ رہا کہ اے آر وائی میں اب کوئی صحافی ڈائریکٹر نیوز نہیں رکھا جائے گا۔۔ حماد یوسف صاحب بہت اچھا کام کررہے ہیں، ان پر مکمل اعتماد ہے۔۔اب کارپوریٹ کا بندہ صحافیوں پر حکم چلائے گا۔۔جو پہلے بھی چلاتا رہا ہے۔۔لیکن کیا کوئی پائلٹ کسی اسپتال کا ایم ایس یا انچارج بن سکتا ہے؟ یا کوئی ٹیچر جہاز اڑاسکتا ہے؟ ۔۔ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو بالکل یہی بات میں پھر کہوں گا۔۔ صحافیوں سے کام صرف صحافی ڈائریکٹر نیوز ہی لے سکتا ہے، کیونکہ وہ صحافیوں کے مسائل بہتر سمجھتا ہے، جب کہ کارپوریٹ والا صحافیوں کے مسائل کو سمجھنا تو دور کی بات ان کیلئے مسائل ہی کھڑے کرے گا۔۔یہی کچھ بول میں ہورہا ہے، جہاں تمام پروگرام منیجرز نان پروفیشنلز ہیں۔۔ بہرحال۔۔اس گرینڈ میٹنگ سے کچھ دیر پہلے کنٹرولر نیوز فرحان رضا نے اپنے اعتماد کے چند لوگوں کے ساتھ، جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی، ایک خفیہ میٹنگ کی کیونکہ وہ خوفزدہ تھا کہ گرینڈ میٹنگ میں معلوم نہیں کیا فیصلہ ہوجائے، اس لئے اس نے اپنے اعتماد کے بندوں کو ایک “ٹریک” پر لانے کیلئے کچھ چیزیں فیڈکیں،تاکہ گرینڈ میٹنگ میں جب اس کی کارکردگی پر سوال اٹھے تو سب کا موقف ایک ہی ہو۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میٹنگ کا حماد یوسف کو علم نہیں تھا لیکن بعد میں انہیں پتہ لگ گیا، فرحان رضا کو شک ہے کہ جو ایک شخص اس خفیہ میٹنگ میں نہیں آیا شاید وہی ہے جس نے مخبری کا فریضہ انجام دیا ہو۔۔پپو نے اس میٹنگ کی جگہ، شرکا کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا ہے جسے طوالت کے خوف سے نہیں لکھ رہا۔۔
اے آر وائی کا ذکر نکلا ہے تو شاہزیب خانزادہ کی ٹیم کا اہم رکن یہاں آگیا ہے، یہ شاہزیب کا بہت پرانا ٹیم میٹ تھا، اور وڈے چینل پر بھی شاہ زیب کے ساتھ ہی آیا تھا۔۔
اب بات کرینگے۔۔ کراچی میں ہونے والی اس جنگ کی جو لاہور کے چینل مالکان لڑرہے ہیں۔۔پپو کا کہنا ہے کہ اس جنگ سے فی الحال فائدہ صرف صحافیوں کو پہنچے گا۔۔ لیکن یہ فائدہ دیرپا رہنے کا امکان نہیں۔۔ کیونکہ دونوں ادارے ہی فائرنگ(برطرفی) کے معاملے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔۔ریحان ہاشمی صاحب نے اپنا مشن شروع کردیا ہے، 24 پہنچ کر دنیانیوز کے کراچی آفس سے بندے توڑنے کا عمل جاری ہے۔ پپو کا کہنا ہے کہ 24 آنے والوں کو ایڈوانس سیلری بھی دی جارہی ہے۔۔اس جنگ کے اثرات وڈے چینل اور سما پر بھی پڑرہے ہیں۔۔ ریحان ہاشمی کی جگہ فوری طور پر دنیانیوزنے اسلم خان کو بیوروچیف بنادیا۔۔ اسلم خان سما میں تھے۔۔ایک دن کے نوٹس پر کیسے دنیا نیوز آگئے۔۔ اس کے پیچھے بھی پپو نے دلچسپ کہانی سنائی ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اسلم خان کو سما میں دنیا نیوز کے ڈائریکٹر نیوز خرم کلیم صاحب نے لگوایا تھا، انہوں نے ہی فرعون ملک کو اسلم خان کی سفارش کی تھی، جہاں وہ ایک دن کے نوٹس پر جالگے۔۔ اب جب دنیانیوزکو ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے اسلم خان کو واپس بلالیا۔۔ لیکن اس سے پہلے سابق بیوروچیف افضل ندیم ڈوگر( ان دنوں وڈے چینل میں ہیں) اور طلحہ ہاشمی (وڈے چینل) سے بھی رابطہ کیا گیا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ دونوں سے بات نہ بن سکی اس لئے اسلم خان کو بحالت مجبوری سما سے بلالیاگیا۔۔دنیا نیوز نے اپنا بیوروآفس خالی ہونے پر ادھرادھر ہاتھ پیر مارنا شروع کردیئے ہیں، دنیا کا ایچ آر ہیڈ کراچی میں ڈیرے لگاکے بیٹھ گیا ہے، سما کے کچھ اہم لوگ توڑ لئے گئے، وڈے چینلز کے بھی کچھ لوگوں سے معاملات پائپ لائن میں ہیں۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے۔۔؟
سما کا ذکر نکلا ہے کہ تو سما کو ہیڈآفس میں تو جھٹکے لگ ہی رہے ہیں، اسلام آباد بیورو سے بھی زوردار جھٹکا لگا ہے ، ان کا ایک اہم رپورٹر استعفا دے گیا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہاں کا بیوروچیف اس استعفے پر اتنا خوش ہے کہ اس نے رپورٹر کو منانے کی کوشش بھی نہیں کی اور فوری طور پر اس کا استعفا ہیڈآفس بھجوادیا۔۔ اطلاعات ہیں کہ وہ رپورٹر کچھ دنوں میں اے آر وائی پر نظر آئے گا۔۔
اب ذرا میڈیا کی ایسی شخصیت کے بارے میں بات کرتے ہیں جو ہمیشہ اپنے کسی “کنٹروروسی” ۔۔ کی وجہ سے خبروں میں ہی رہتے ہیں، کراچی والے ڈاکٹر صاحب کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔۔ ان کے پرانے دوست اور “گرو” محسن درانی نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔۔ محسن درانی ہے کون اور اس کے جانے سے ڈاکٹر کو دھچکا کیسے لگ سکتا ہے؟ اس حوالے سے پپو نے بڑی انوکھی کہانی بتائی ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔محسن درانی نے ڈاکٹر کو میڈیاآئیکون بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔۔ وڈے چینل پر رمضان ٹرانسمیشن اور انعام گھر ایسے پروگرام تھے جس نے میڈیا انڈسٹری کو نیا ٹرینڈ دیا۔۔ اس کے پیچھے بھی محسن درانی کا ہاتھ تھا۔۔ محسن درانی کو مارکیٹنگ میں کمال مہارت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ انعام گھر ہو یا رمضان ٹرانسمیشن جس بے دردری سے اور بلاوجہ ہی لوگوں کو انعامات دیئے جاتے تھے اس سے ہر کسی کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ان پروگراموں میں شرکت کرے۔۔محسن درانی نے ڈاکٹر کو مختلف بڑی پراڈکٹس کے کمرشلز میں کام بھی دلایا، ان کو ٹی وی کا سپراسٹار بنایا، یعنی محسن درانی کو ایسا جوہری کہاجاسکتا ہے جس نے ڈاکٹر کو ہیرا بنانے کی بھرپور کوشش کی۔۔ محسن درانی پانچ سال سے ڈاکٹر کے ساتھ تھا اس دوران جو کامیابیاں اور شہرت ڈاکٹر کو ملی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اب ڈاکٹر صاحب بول میں ہیں تو محسن درانی وڈے چینل میں، کئی بار کی کوششوں کے باوجود انہوں نے ڈاکٹر کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔۔اور ڈاکٹرصاحب سے اپنی راہیں جدا کرلی ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کنگ میکر جسے چاہے بادشاہ بنادے، اس لئے اس بار رمضان ٹرانسمیشن میں ڈاکٹر کیلئے شدید خطرات لاحق ہونگے، ان کا ماسٹرمائنڈ اب ان کے ساتھ نہیں ہوگا، محسن درانی کیا حکمت عملی سامنے لائے گا، یہ شاید ڈاکٹر کیلئے بھی حیرت انگیز ہو، کیوں کہ ڈاکٹر کے پاس سے ان کے “برین” ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ اب صرف ڈاکٹر کے پاس “چھان بورا” رہ گیا ہے۔۔دیکھتے ہیں ایسا کب تک چلے گا، کیوں کہ جب دبنگ ٹیم ہی نہیں جس کے بل بوتے پر ڈاکٹر کامیابیاں اور شہرت سمیٹتے رہا تو ایسی ٹیم کےبغیرایسا کیسے چلے گا؟ ۔۔ پپو نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے مزید بہت کچھ بتایا ہے جسے اگلی بار کیلئے سنبھال کے رکھا ہے۔۔ اگلی بار ڈاکٹر صاحب کی این جی اوز اور امریکا و برطانیہ کے حوالے سے ان کی کچھ داستانوں پر بات کرینگے۔۔۔
اب ذرا ذکر ہوجائے سگریٹ فروش کے ٹی وی چینل کے ایسے اینکر کا جس کا “اقبال” ہمیشہ بلند ہی رہتا ہے۔۔ یہ لال چینل کی تاریخ کا مہنگا ترین شو ہے، لال چینل کی مارکیٹنگ ٹیم اس بات سے ناخوش ہے کہ اس کی فی شو لاگت بارہ سے پندرہ لاکھ روپے ہے، لیکن بزنس صرف بیس لاکھ روپے تک فی شو آرہا ہے۔۔اس کے مقابلے میں وڈے چینل کا پرانا شو جہاں سے اینکر موصوف نے ہجرت کی تھی اس کے فی شو کی لاگت چار سے چھ لاکھ روپے ہے لیکن اس کی آمدنی بھی لال چینل کے کامیڈی شو کے لگ بھگ ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔لال چینل کے اینکر کو گھمنڈ ہے کہ کامیابی صرف اسی کے “زورقلم” کا نتیجہ ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں کیونکہ یہ سب ٹیم ورک ہوتا ہے، کوئی بھی شو ٹیم ورک کے بغیر ہٹ نہیں ہوسکتا۔۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی نامی گرامی اینکر نہیں لیکن اس کے باوجود ریٹنگ میں لال چینل اور وڈے چینل کے کامیڈی شو آگے پیچھے ہی آتے ہیں۔۔ ہفتے میں چار شوز کے دوران ففٹی ففٹی پوزیشن ہوتی ہے،، کبھی لال چینل پہلے نمبر پرہوتا ہے تو کبھی وڈا چینل پہلے نمبر پر ہوتا ہے۔۔یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ لال چینل والے کامیڈی شو سے آغا ماجد نے وڈے چینل کے کامیڈی شو میں جو انٹری ماری ہے۔۔ اس کےبعد لال چینل کے شو کے مزید کچھ فنکاروں نے وڈے چینل سے رابطہ کیا ہے۔۔ لگتا یہی ہے کہ اینکرموصوف کے بدترین رویہ اور تضحیک آمیز سلوک کے باعث یہ فنکار بھی بہت جلد لال چینل کا شو چھوڑ دیں گے۔۔۔ اگلی بار کچھ معروف اینکرز کے حوالے سے سینہ بہ سینہ لکھنے کی کوشش کرونگا۔۔ جس میں مزید کچھ نئی باتیں اور انکشافات آپ کے علم میں یقینی طور پر اضافہ کرینگے۔۔
اب پپو کی کچھ مختصر مختصر خبریں بھی سن لیں۔۔۔
معروف اینکر جاوید اقبال نے سیون نیوز میں بطور پروگرام ڈائریکٹر جوائن کرلیا ہے۔۔ وہ اس سے پہلے مشرق ٹی وی (پشتو) میں تھے لیکن وہاں کی انتظامیہ سے اختلافات کے باعث سوئچ کرگئے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جاوید اقبال سیون نیوز پر ایک شو بھی ہوسٹ کریں گے۔۔
سب سکھی گھر ایک جیسے ہوتے ہیں، لیکن دکھی گھروں کی کہانیاں مختلف ہوتی ہیں۔۔۔پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی آفتاب خٹک کا بیٹا لاہور میں جگر کی تبدیلی کے انتظار میں دوران علاج چل بسا۔۔۔ چالیس لاکھ روپے کی ضرورت تھی۔۔ ایک غریب صحافی اتنی رقم کہاں سے لاتا۔۔۔؟؟
اسی طرح ملتان میں وڈے اخبار کا صحافی فاروق عدیل بھی کثیرالاشاعت کے دعویدار اخبار کے ہاتھوں “قتل” ہوگیا۔۔ جی ہاں۔۔ قتل ہوگیا ، وہ پندرہ سال سے وڈے اخبار کا ملازم تھا، دس جنوری کو جب اس کی موت کی اطلاع دفتر پہنچی تو ساتھیوں نے تجہیزوتکفین کیلئے چندہ جمع کیا۔۔ فاروق عدیل کئی سال سے ہیپاٹائٹس کا شکار تھا،بیماری میں بھی دفترجاتا رہا لیکن جب بسترعلالت پر پہنچ گیا اور دفتر جانے کی سکت نہ رہی تو اس کی تنخواہ بھی بند کردی گئی، اس کے ساتھیوں نے شور مچایاتو انتظامیہ نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے واجبات میں سے دو ماہ کی تنخواہ بھجوادی۔۔اس کی موت سے چند روز پہلے اس کی اہلیہ وڈے اخبار کے دفتر مسلسل فون کرتی رہی، منتیں اور التجائیں کرتی رہی کی اس کے علاج معالجے کیلئے مدد کی جائے،اسے کسی اسپتال میں داخل کرادیاجائے لیکن اس کا فون سننے کی فرصت کسے تھی؟
یہ دو واقعات طمانچہ ہے پوری صحافی برادری کے منہ پر۔۔ ایسے لاتعداد واقعات ہیں جنہیں لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے، خیر آج کیلئے اتنا ہی۔۔۔ لیکن جانے سے پہلے ایک بریکنگ نیوز بھی سن لیں۔۔صحافیوں کی صفوں میں چھپے ایک اور”درباری” کو نوازنے کی تیاری کرلی گئی۔۔کمپنی بن گئی، دفتر الاٹ ہوگیا۔۔ ماہانہ مراعات 75 لاکھ روپے ملیں گی۔۔ سی ای او کے عہدے کیلئے صرف بی اے پاس کی شرط اور درباری صحافی اس پر پورا اترتا ہے۔۔ ملتے ہیں بریک کے بعد۔۔(علی عمران جونیئر)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں