سینہ بہ سینہ (آف دا ریکارڈ) پارٹ 44
دوستو، چیئرمین پیمرا کے اختیارات پر تمام صحافتی تنظیموں اور صحافی برادری کو بات کرنی چاہیئے۔۔۔ اختیارات کا معاملہ تو بعد میں آتا ہے اس وقت تو موجودہ چیئرمین پیمرا کی اہلیت پر ہی سوالات کھڑے ہیں، کیا کسی حکمران کے نزدیک ہونے پر کسی کو بھی پبلک آفس کا سربراہ بناجاسکتا ہے؟؟ ۔۔ سپریم کورٹ کے احکامات واضح ہیں، مریم نواز شریف کو جب ایک سرکاری عہدہ کیا گیا تو عدالت نے انہیں فوری ہٹانے کا حکم دیا، عدالت کے فیصلے میں صاف لکھا تھا کہ اہلیت کے بغیر تعیناتی برداشت نہیں کی جائے گی۔۔ چیئرمین پیمرا ابصار عالم کو ریاست کے چوتھے ستون میڈیا کوفتح کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا چیئرمین پیمرا اکیلا کسی چینل پر پابندی لگاسکتا ہے؟۔۔۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر پیمرا کی بارہ رکنی اتھارٹی کس کام کی سب کو فارغ کرکے اکیلے چیئرمین صاحب کو میدان میں کھلا چھوڑ دیں۔۔۔ اب کرتے ہیں کچھ اور باتیں۔۔
پاکستان میں اب ڈی ٹی ایچ کی ہوا چل پڑی ہے۔۔تین ڈی ٹی ایچ لائسنس جاری کردیئےگئے۔۔ قومی خزانے کو اچھی خاصی رقم ملنے کا امکان ہے۔۔ کہاجارہا ہے کہ لائسنس لینے والی ایک کمپنی میگ کے پیچھے وڈا چینل اور دوسری کمپنی شہزاد اسکائی کے پیچھے بول ہے۔۔تیسری کوئی چینی کمپنی ہے۔۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔ ڈی ٹی ایچ کے بارے میں عام لوگ تو ایک طرف میڈیا کے لوگوں کو بھی خاص علم نہیں ، اس لئے چند موٹی موٹی باتیں لکھ رہا ہوں۔۔۔ڈی ٹی ایچ کا مطلب ہے ڈائریکٹ ٹو ہوم(براہ راست گھر)۔۔یعنی اس میں کسی کیبل آپریٹر یا تار کے بغیر سیٹلائٹ سے نشریات صارف کے ٹی وی پر ملا کرینگی۔۔ کیبل کے ذریعے اگر آپ کو سو چینل دیکھنے کی چوائس ہے تو ڈی ٹی ایچ میں یہی چوائس ڈھائی سو سے سات سو تک جاپہنچے گی۔۔۔چونکہ ڈی ٹی ایچ کے ذریعے سیٹلائٹ سے ڈائریکٹ نشریات مل رہی ہیں تو اس میں وہ اشتہارات نہیں ہونگے جو کیبل آپریٹرز کی سروس میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔ ڈی ٹی ایچ کا صارف اپنا پیغام کمپنی کو بھیج سکتا ہے اس کے ذریعے خاص چینل، کسی فلم حتی کہ فون نمبر وغیرہ کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے۔۔ اگر آپ کوئی چینل پیچھے کرکے دیکھنا چاہتے ہیں یا ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تو یہ سہولت بھی مل سکتی ہے۔۔ڈی ٹی ایچ سروس کیبل کے بغیر کام کرتی ہے اس لئے آپ کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں، اگر آپ کراچی میں کورنگی کے علاقے میں رہتے ہیں اور ڈی ٹی ایچ لے لیاپھر نارتھ کراچی شفٹ ہوجاتے ہیں تو آپ کو اضافی کوئی فیس دینے کی ضرورت نہیں۔۔ بارشوں میں اکثر کیبل خراب ہوجاتا ہے اس میں تار ہی نہیں تو پھر خرابی کیسی، اسی طرح لائٹ جانے پر علاقے کا کیبل بھی بند ہوجاتا ہے لیکن اس پر نشریات چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں۔۔ڈی ٹی ایچ پر چینلز سنسر ہوتے ہیں جب کہ کیبل پر ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔ایک گھر میں ایک ٹی وی کیلئے ایک ڈی ٹی ایچ ہوگا، اگر اسی پر دوسرا ٹی وی بھی لگالیا تو پھر آپ کو دونوں ٹی وی پر ایک ہی چینل دیکھنے پڑیں گے۔۔کیونکہ ڈی ٹی ایچ باکس ایک وقت میں ایک چینل دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی گھر میں مختلف ٹی وی سیٹس کیلئے الگ الگ ڈی ٹی ایچ لینا ہونگے اور الگ الگ ہی ماہانہ فیس بھی دینی ہوگی۔۔۔کیبل آپریٹر ماہانہ تین سو روپے سے پانچ روپے فیس لیتا ہے لیکن ڈی ٹی ایچ کیلئے ایک ہزار سے پندرہ سو روپے ماہانہ ادا کرنے ہونگے۔۔ اور ڈیجیٹل باکس کیلئے چار سے پانچ ہزار روپے پیشگی ادا کرنا ہونگے۔۔۔ ڈی ٹی ایچ اگر لوگوں کے منہ لگ گیا تو پھر لوگ کیبل آپریٹرز سے جان چھڑالیں گے، یہی خدشہ ہے جس کی وجہ سے کیبل آپریٹرز نے ڈی ٹی ایچ کے خلاف سڑکوں پر آکر احتجاج کیا۔۔۔انہی کی ہڑتالوں اور احتجاج کی وجہ سے آج تک ملک میں ڈی ٹی ایچ کا اجرا نہیں ہوسکا۔۔ دوسری جانب پاکستان کے ایک میڈیا ہاؤس جو بھارت کے زی ٹی وی کمپنی کا خفیہ پارٹر بھی ہے پیمرا کو ڈی ٹی ایچ لائسنس کے اجرا میں رکاوٹیں ڈالتا رہا۔۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی ملک میں پچاس لاکھ غیرقانونی بھارتی ڈی ٹی ایچ صارفین ہیں اور ماہانہ تین ارب روپے سے زائد کا زرمبادلہ دشمن ملک بھارت منتقل ہورہا ہے۔۔ ( یہ سب منی لانڈرنگ کی ہی ایک قسم ہے)۔۔یعنی سال کے چھتیس ارب اور تیرہ سال میں چارسوارسٹھ ارب روپے بھارت منتقل کیا جاچکا ہے۔۔ اور یہ میڈیا ہاؤس بھی پچھلے تیرہ سال سے خوب مالی فائدے اٹھاتا رہا۔۔پاکستان میں سب سے زیادہ ریونیو زی ٹی وی کی کمپنی ڈش ٹی وی کے نام سے ڈی ٹی ایچ کو مل رہا ہے۔۔ اس کے بعد بھارت کی دیگر کمپنیوں ٹاٹااسکائی۔۔ائرٹیل، وڈیو کون ڈیٹا اور بگ ٹی وی کے ڈی ٹی ایچ کا نمبر آتا ہے۔۔۔یہ بھارتی کمپنیاں دھڑلے سے پاکستان سے قیمتی زرمبادلہ کماتی رہیں اور اسے اپنے ملک منتقل (منی لانڈرنگ) کرتی رہیں۔۔ اگر ہم صرف ڈش ٹی وی ( بھارتی زی ٹی وی کا ڈی ٹی ایچ ) کی بات کریں تو ڈش ٹی وی کے باکس کی کم سے کم قیمت چھ ہزار روپے اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار ہے۔۔ایس ڈی کنکشن ساڑھے آٹھ ہزار روپے جب کہ ایچ ڈی کنکشن کا پیکیج ساڑھے تیرہ ہزار روپے کا ملتا ہے۔۔ ساتھ میں ایک ماہ کا فری بیلنس اور فری ہوم ڈیلیوری بھی ہے۔۔
پاکستان سارک کا واحد ملک ہے جہاں ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی نہیں۔۔ تاثر عام ہے کہ ڈی ٹی ایچ کے بعد کیبل ختم ہوجائے گا ، کیبل آپریٹرز نے بڑی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جس کی ابھی وصولی بھی نہیں ہوسکی۔۔اگر ڈی ٹی ایچ آتا ہے تو عوام کے پاس آپشن بڑھ جائے گا۔۔ پیمرا کا دعوی ہے کہ ڈی ٹی ایچ سے کیبل والوں کا کاروبار ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ انہیں ٹیکنالوجی اور تقسیم کار نظام میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرے گا۔۔ ڈی ٹی ایچ کے آنے سے پندرہ ہزار ملازمتوں کے مواقع ملیں گے۔۔۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کیبل آپریٹرز کیلئے ایک شہر کیلئے بی ٹین کٹیگری لائسنس کی تجدیدی (رینی ول) فیس بہتر لاکھ روپے سالانہ ہوتی ہے جب کہ پورے ملک کیلئے لانچ کئے جانے والے ڈی تی ایچ کی تجدیدی فیس ایک کروڑ روپے سالانہ رکھی گئی ہے۔۔کیبل آپریٹرز سے لائسنس کے پیسے ایڈوانس لئے جاتے ہیں جب کہ ڈی تی ایچ لائسنس کیلئے پچاس فیصد رقم دس سال بعد لئے جارہے ہیں۔۔۔چیئرمین پیمرا اس سوال کا جواب بھی نہیں دے پائیں گے کہ دنیا میں کس ملک میں ایک سو اتھائیس چینلز پر ڈی تی ایچ آیا ہے۔۔ دنیا میں چار پانچ سو چینلز کے بعد ہی ڈی ٹی ایچ لانچ کیا جاتا ہے۔۔ ڈی ٹی ایچ لائسنس کی آڑ میں نو ایف ایم کو بھی لائسنس دیئے جارہے ہیں۔۔ ڈی تی ایچ کو بیس فیصد غیرملکی مواد نشر کرنے کی اجازت بھی دی جارہی ہے جب کہ کیبل آپریٹرز کو یہ اجازت ہی نہیں۔۔ ڈی ٹی ایچ کو دس ان ہاؤس چینلز دیئے جارہے ہیں جو پوری دنیا میں دیکھے جائیں گے اس طرح یہ ان ہاؤص چینلز نہیں بلکہ سیٹلائٹ چینلز ہوجائیں گے۔۔۔
ڈی ٹی ایچ پر بہت بات کرلی۔۔ اب کچھ دیگر معاملات کا ذکر کرلیتے ہیں۔۔ اے آر وائی کی ایک مختصر سی کہانی سن لیں۔۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی (صرف میڈیا کے دوست بہتر سمجھیں گے) کہ اے آر وائی میں رات نو بجے کا بلیٹن ایک الگ ٹیم کرتی ہے جس پر ڈائریکٹر نیوز اثرانداز نہیں ہوسکتا۔۔گزشتہ دنوں ڈائریکٹر نیوز نے جب نو بجے کے بلیٹن میں مداخلت کی کہ یہ نہیں یہ چلاؤ۔۔ جب ایسا بہت ہونے لگا تو ایک روز خصوصی ٹیم کا ہیڈ نو بجے کا بلیٹن چھوڑ چھاڑ درمیان میں ہی گھر چلاگیا۔۔لیکن اس سے پہلے کافی توتومیں میں ہوئی۔۔یہ تماشا پورے نیوز روم نے دیکھا۔۔ لیکن اب سب کچھ نارمل ہوگیا ہے، اور پہلے کی طرح ہی کام ہورہا ہے۔۔۔
سما والے ہمارے ایک محترم اینکر آج کل پراسرار قسم کی پوسٹیں فیس بک پر ڈال رہے ہیں، پپو بتارہا ہے کہ کہ وہ کہتا پھر رہا ہے کہ بول والوں نے بلایا تھاکہہ رہے تھے جوائن کرلو تو میں نے ان سے ڈھائی ملین(پچیس لاکھ روپے) کی ڈیمانڈ کی۔۔ جب میں نے پپو سے کہا کہ یار یہ سچ ہے، تو وہ مکروہ قہقہہ لگاکر بولا۔۔ صرف آدھا سچ۔۔۔ میں نے کہا پپو یار اس اینکر کے متعلق بھی کوئی خبر دے دو تاکہ تمہارا خوف اس پر طاری ہو۔۔ تو پپو ہنسا اور کہنے لگا۔۔ وہ تو پہلے ہی پپو فوبیا کا شکار ہے۔۔ ڈرے ہوئے کو مزید کیا ڈرانا، جب ضرورت محسوس کرونگا کہ وہ بہت “اوور” ہورہا ہے تو پھر ایک دو ” ڈوز ” دے دونگا، اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔پپو سے میں نے یہ بھی کہا کہ وہ تمہیں پہچاننے کا دعوی فیس بک پر کرچکا ہے تو وہ بہت زور سے ہنسا اور بولا۔۔ پپو کو پکڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔۔ ایسے بہت سے اینکرز، ڈائریکٹرز اور دیگر لوگ پپو کی کھوج میں ہیں لیکن پپو فل موج میں ہے۔۔ پھر لتاجی کے ایک گانے کی ٹانگ توڑتے ہوئے کہنے لگا۔۔ کسی کے ہاتھ نہ آئے گا یہ پپو۔۔۔پپو کی مخبریاں میڈیا کے لوگوں کو چونکا دیتی ہے۔۔اس کا مجھے کئی بار تجربہ ہوچکا ہے۔۔پپو نے بڑے لوگوں کو ہلا کے رکھ دیا۔۔مجھے پپو کی مخبریوں کے کیا کیا تجربے ہوئے یہ الگ قصے ہیں جنہیں لکھنے بیٹھوں تو تین سو اڑتالیس صفحات کی موٹی سی کتاب بن جائے اور بیسٹ سیلر کہلائے۔۔ لیکن فی الحال اتنا ٹائم نہیں کہ کتاب وغیرہ لکھی جائے۔۔پپو کی سما کے دو انمول رتن کے حوالے سے کچھ مخبریاں اور سن لیں۔۔ ڈائریکٹر نیوز فرحان ملک صاحب اب “کاروباری” ہوگئے ہیں۔۔ کہاجارہا ہے کہ وہ پرانے کمپیوٹرز ،لیپ ٹاپ وغیرہ پر بھاری سرمایہ کاری کرچکے ہیں اور اس کے لئے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں ایک جگہ بھی منتخب کرلی ہے۔۔ بیرون ملک سے کنٹینرز منگوائیں گے اور پاکستان میں سیل کرینگے۔۔سما میں ہی گزشتہ دنوں خرم باری صاحب کو اچانک “جوش” آیا اور سنت فرحان ملک پر عمل کرتے ہوئے زوردار غلیظ قسم کی گالیاں دیں، بھرے نیوز روم میں جہاں خواتین بھی موجود تھیں غلیظ گالیوں نے ورکرز کے دلوں میں ان کا احترام مزید کم کردیا۔۔کہا جارہا ہے کہ آج کل فرحان ملک صاحب کی جگہ خرم باری صاحب حد سے زیادہ “سرگرم ” ہیں ، شاید آنے والی زمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کیلئے وارم اپ ہورہے ہیں۔۔۔
اور اب آخر میں بول ۔۔ بول کےحوالے سے بریکنگ نیوز سن لیں۔۔ پپو نے دعوی کیا ہے کہ ڈاکٹر عامر لیاقت کے پروگرام ایسے نہیں چلے گا کا پیمرا کی شکایت کونسل نے نوٹس لے لیا ہے۔۔ اکیس نومبر کو چلنے والے پروگرام میں کئی سیاسی رہنماؤں کے لندن میں فلیٹس کے حوالے سے پروگرام کیا گیا۔۔پپو کا کہنا ہے کہ پیمرا حرکت میں آئی تو پروگرام کو بند کیا جاسکتا ہے ورنہ کم سے کم کوئی کارروائی تو ضرور ہوگی۔۔
پپو کا مزید کہنا ہے کہ بول کے ایک بڑے صاحب کے صاحبزادے اور صاحبزادی کی نوکری کے بعد تیسری صاحبزادی بھی اینکر بننے کیلئے پر تول رہی ہیں اور اس کیلئے تمام تر گراؤنڈ تیار ہے۔۔ جیسے ہی جوائننگ ہوئی پپو بتادے گا۔۔۔
اور اب وہ حیرت انگیز بات جس کا سب کو شدت سے انتظار ہوگا۔۔۔ جی ہاں۔۔ فیصل عزیز خان چاردسمبر کے بعد ایک اور چینل جوائن کرنے والے ہیں۔۔ پپو نے جب یہ خبر دی تو میں بھی دہل گیا۔۔لیکن جب انہوں نے تفصیل بتانا شروع کی تو سمجھ آگئی۔۔۔فیصل عزیز خان ان دنوں ترکی کے انگریزی چینل ٹی آر ٹی میں کام کررہے ہیں۔۔ اس سے پہلے رائٹرز، خلیج ٹائمز ،سما، جاگ اور دنیا نیوز میں کام کرچکے ہیں۔۔دنیا نیوزمیں وہ کامران خان کی ٹیم میں تھے ۔۔ اب وہ چار دسمبر کو کراچی واپس آرہے ہیں، پپو تو بتارہا ہے کہ دو ہفتے کی چھٹیاں لے کر آرہے ہیں لیکن اصل میں وہ ” بول” جوائن کرنے آرہے ہیں۔۔۔ٹی آر ٹی چینل چھوڑنے اور بول جوائن کرنے کی کہانی بھی پپو نے سنائی ہے جو پھر کبھی کیلئے رکھ لیتے ہیں۔۔ ساری باتیں آج ہی نہیں کرسکتے۔۔۔انڈرٹیکر پر بھی بات کرنی تھی لیکن تحریر پھر شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی جارہی ہے۔۔۔ اس لئے مزید مخبریاں اور مزیدار باتیں جمعہ کی رات کرینگے۔۔جب تک اپنا خیال رکھیں۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔۔