Seena Ba Seena

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 41

سینہ بہ سینہ ( آف دا ریکارڈ) پارٹ 41

دوستو۔۔۔منافقین کو بے نقاب کرنےکا ٹیزر چلایا تو کئی فون آئے، کچھ نے حوصلہ افزائی کی کہ بالکل منافقین بے نقاب ہونا ضروری ہیں تو کچھ نے مشورہ دیا کہ گندے پوتڑوں کو چوراہے پر دھونے سے سب کی بدنامی ہے۔۔منگل کی دوپہر کا وعدہ آپ لوگوں سے تھاگیارہ بارہ بجے تک سوکراٹھ جاتا ہوں۔۔لکھنےبیٹھا تو پتہ لگا نیٹ نہیں چل رہا گھر کا۔۔چنانچہ دفتر میں لکھنے کا ارادہ کیا، دفتر میں روٹین کے کاموں میں لگ گیااور داستان منافقین بھی مکمل کی،پھر فیس بک آن کرکے بس پوسٹ کرنے ہی لگاتھاایک قابل احترام دوست کا فون آیا،اس نے منع کیا اور میں رک گیا۔۔اب مسئلہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کی شکایت بھی دور کرنی تھی اس لئے کل ہی آپ سے یہ وعدہ بھی کرلیا کہ سینہ بہ سینہ لکھوں گا۔۔

سینہ بہ سینہ شاید میری پہچان بن گیا ہے، اس کی مقبولیت و شہرت کا مجھے آئے روز پتہ لگتا رہتا ہے۔۔گزشتہ قسط میں اے آر وائی کی ایک عجیب کہانی بیان کی تھی، جس میں خاتون اینکرکو ایک بڑے صاحب کی مبینہ آفر کا تذکرہ تھا، اس حوالے سے کئی دوستو نے رابطہ کیا،نام اور تفصیلات پوچھیں، قطعی انکار کردیا، کیونکہ مجھے خود یہ سب لکھتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا تھا، اس لئے بہت محتاط ہوکر لکھا، یہ بھی کلیئر کردوں کہ ان بڑے صاحب کا نیوز سے کوئی تعلق نہیں۔۔کچھ لوگوں نے نیوز ہیڈ فرحان رضا صاحب کا نام لے لے کر مجھ سے اگلوانا چاہا انہیں تو میں نے کہہ دیا کہ وہ نہیں ہیں لیکن مجھے ایسا کہ فرحان بھائی پر بات آرہی ہے، اس لئے وضاحت کردی۔۔ اب اے آر وائی کا ایک اور دلچسپ واقعہ سن لیں، یہ بھی اے آر وائی کی ہی ہے۔۔ ایک محترمہ جنہیں فیلڈ میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن دن بھی نہیں ہوئے،محترمہ اینکر ہیں، اپنے پچھلے چینل پر ایک حوالے سے اچانک بہت مشہور ہوئیں۔۔پھر ایک دم سے یہ پتہ لگا کہ وہ اے آر وائی میں ہیں۔۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ محترمہ نے کسی “طریقے” سے سلمان اقبال صاھب کو اپروچ کیا، پھر انہی کی پرچی پر انٹری ماردی۔۔ایک رازدار دوست کا کہنا ہے کہ وہ محترمہ بہت “مائنڈ بلوئنگ” ہیں اور اسی “خصوصیت” کی وجہ سے صف اول کے چینل میں باآسانی نوکری حاصل کرنے میں “راتوں رات” کامیاب بھی رہیں۔۔

مجھے صحافت کی دنیا میں پچیس واں سال ہے۔۔الیکٹرانکس سے زیادہ پرنٹ میڈیا کا تجربہ رہا۔۔پرنٹ میڈیا زوال پذیر ہوا یعنی وہاں تنخواہیں قلیل ہی رہیں توپھر الیکٹرانکس میڈیا کی جانب ہجرت کی۔۔اپنے اس سفر میں ایک بات نوٹ کی کہ اکثریت نصیب کا کھا رہی ہے۔۔سوری پھر فلسفہ شروع کردیا۔۔آج کل میڈیا پر الوداعی ملاقاتوں کا چرچا ہے۔۔اور میڈیا میں بھی الوداعی ملاقاتوں کے سلسلے شروع ہونے والے ہیں۔۔غور کیجئے گا۔۔ “میڈیا پر اور میڈیا میں”۔۔ میڈیا پر تو چیف صاحب کی الوداعی ملاقاتیں ہیں۔۔ جب کہ سما اور اے آر وائی میں بہت جلد الوداعی ملاقاتیں ہونے والی ہیں۔۔ کارکنوں کی بڑی تعداد ہجرت کرنے والی ہے۔۔ سیٹھوں کو خبر ہو کہ موسم سرما میں پرندے لازمی ہجرت کرتے ہیں۔۔جب مالکان تنخواہوں کے حوالے سرد رویئے کرلیں تو پھر ہجرت تو کارکن کا حق ہے۔۔سمااور اے آروائی سے این ایل ای، کاپی، رن ڈاؤن اور اسائنمنٹ کے لوگوں کے ساتھ کچھ رپورٹرز بھی بول جوائن کرنے والے ہیں۔۔کچھ کے اپنے موجودہ اداروں میں آخری دن چل رہے ہیں، کچھ تنخواہوں کے منتظر ہیں۔۔( کافی لوگوں کے نام ہیں، بوجہ فساد اور مہینہ برباد، ان لوگوں کے نام لکھنے سے پرہیز کررہا ہوں، کیوں کہ پھر ان بیچاروں کی تنخواہیں موجودہ ادارے روک لیں گے)۔۔۔۔

سگریٹ فروش کے لال چینل کے متعلق گزشتہ قسط میں لکھا تھا کہ اس کے بند ہونے کی اطلاعات ہیں، جب چھان بین کی تو پتہ چلا کہ افواہ ہے۔۔سو سے زائد کارکنوں کو نوٹس ملنے والی بات بھی غلط نکلی، اس کے ہیڈ آفس واقع لاہور سے لے کر تمام بیوروز میں کسی نے بھی تصدیق نہیں کی۔۔۔

اوپر میں نے نصیب کی بات کی کہ اکثریت نصیب کا کھارہی ہے۔۔24 چینل میں ایک صاحب اے پی لیول پر کام کررہے تھے اچانک انہیں کنٹرولر بنادیا جاتا ہے، اسی طرح ایک آنے والے چینل میں ایک صاحب کنٹرولر نیوز بنے بیٹھے ہیں، ان کا کیرئر ایک سال کا بھی نہیں، انٹرنی بھرتی ہوئے تھے پھر اے پی ہوئے، کچھ عرصہ گھر بیٹھے رہے، اب پھر لگ گئے، اور نیوز کنٹرول کررہے ہیں، اب اندازہ لگالیں کہ میڈیا کی حالت کیا ہوگئی۔۔

اب بات کرینگے بول کی۔۔جہاں ابھی تک نیوزہیڈ کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔۔پپو بتارہا تھا کہ اس چینل پر دو ڈاکٹر ہیں، ایک اسلام

آباد میں اور دوسرا کراچی سے پروگرام کررہا ہے۔۔ کراچی والے ڈاکٹر کے متعلق پپو کی سرگوشی یہ ہے کہ موصوف معافی مانگ کر واپس آئے ہیں۔۔کیونکہ یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ دبئی چلے گئے تھے۔۔پپو کی یہ پیش گوئی بھی ہے کہ دسمبر بول کیلئے بہت اہم ہے۔۔ اس مہینے تمام بول والاز کی واپسی اور باقاعدہ ٹرانسمیشن شروع ہونے کا امکان ہے۔۔ ٹکرز کا جو سلسلہ بند ہوگیا ہے منگل (کل) سے دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔۔ پپو یہ بھی بتارہا تھا کہ مبشرلقمان صاحب کو بہت زیادہ تگڑی تنخواہ کی آفر کی گئی لیکن انہوں نے واپس جانے سے انکار کردیا۔۔پپو نے ایک اور بڑی دلچسپ بات بتائی، کہتا ہے بول کے حوالے سے جو چیز بھی سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی ہےاس کی مانیٹرنگ ہورہی ہے، بول کے خلاف کسی بھی تحریر کا پرنٹ لازمی شعیب شیخ صاحب تک پہنچایا جاتا ہے، ایک معروف اینکر کی نوکری بول میں صرف اس وجہ سے نہ ہوسکی کہ اس نے جہانگیرترین والا ٹکر شیئر کردیا تھا،جس کی وجہ سے اس کا بنتا کام بھی بگڑ گیا۔۔پپو نے مجھے بھی مشورہ دیا ہے کہ عمران بھائی اگر بول میں واپس جانا ہے تو بول پر کچھ بھی نہ لکھو، پپو کہہ رہا تھا کہ ۔۔عمران بھائی آپ کو شعیب شیخ صاحب کے سامنے بطور ولن پیش کیاجاتا ہے، لوگ ان کے کان بھرتے رہتے ہیں کہ وہ باغی فطرت کا ہے، آپ کی تحریروں کے پرنٹ بھی انہیں دیئے گئے ہیں، ایسی حرکتیں کون کررہا ہے پپو نے کچھ لوگوں کے نام بھی بتائے ہیں، پپو کے مشورے پرانہیں میرا جواب تھا کہ ، رازق صرف اللہ ہے، اگر میرا رزق بول میں ہے تو سازشی عناصر میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔بول پر میں ڈیڑھ سال سے لکھ رہا ہوں ، اور آئندہ بھی لکھتا رہوں گا۔۔ بول میرا نظریہ ہے، جس کیلئے اپنا کیئرئر داؤ پر لگایا، اب اگر بول بحال ہوا ہے اورپھر کچھ منافق ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں کہ بول پھر سے بند ہوجائے۔۔تو ان لوگوں پر لکھنا میرا فرض ہے۔۔ شعیب شیخ صاحب میں بلاشبہ قائدانہ صلاحتیں ہیں ، بہترین اور نفیس انسان ہیں، لیکن ہیں تو انسان، وہ ہر جگہ نہیں دیکھ سکتے، کون کیا کررہا ہے،کہاں غلط ہورہا ہے،کس جگہ پر کمزوری ہے، یہ ان کے علم میں نہیں لایا جاتا، انہیں تو صرف سب اچھا، نمبرون، ایکسی لینٹ، ویل ڈن کی رپورٹیں دی جاتی ہیں۔۔۔ان کے آس پاس والے لوگ کتنا ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں، اس کی درجنوں مثالیں ہیں، ایک چھوٹی سی مثال سن لیں۔۔ بول میں ایک بڑے صاحب کی صاحبزادی کو رکھا گیا، جن کا کوئی صحافتی کیرئر نہیں، ان محترمہ نے سما کےایک اینکرکو فون کیا، اور ان سے کہا کہ اگر بول آنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر ابو سے آکر میٹنگ کرلیں۔۔۔مجھے حیرت تو اس بات پر ہے کہ وہ محترمہ ایچ آر میں نہیں، لیکن ایچ آر والوں کی طرح پیشکشیں کرتی پھررہی ہیں۔۔۔

میرا خیال ہے آج بہت کچھ لکھ دیا، بول پر جتنا لکھوں کم ہے،اگلی قسط میں ایک بہت انوکھی کہانی لکھوں گا۔۔آپ لوگوں نے گبراور ٹھاکر کی بالی وڈ مووی “شعلے” تو دیکھی ہوگی۔۔ اس میں گبر کا ایک ٹچا بدمعاش” کالیہ ” بھی تھا۔۔۔ جس کے لئے گبر کا مشہور ڈائیلاگ تھا کہ۔۔۔ تیرا کیا ہوگا کالیہ۔۔؟؟ میں آپ کو ایسے ہی ایک کالئے کی کہانی بیان کرونگا۔۔ جسے صحافت کی الف بے کا علم نہیں لیکن صحافیوں سے کیسے ڈیل کررہا ہے اور انہیں دھمکی کیا لگاتا ہے؟ اگلی قسط پڑھنا مت بھولئے گا۔(علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں