سینہ بہ سینہ۔۔۔۔(آف دا ریکارڈ) ۔۔ پارٹ 39
دوستو۔۔۔سب سے پہلے تو معذرت دوپہر کا وعدہ تھا ۔۔رات اچانک اسموگ کا روگ لگ گیا۔۔نزلہ زکام ،بخار اور سر میں شدید درد کی شکایت میں مبتلا ہوں۔۔ کسی کام کا دل نہیں ہورہا۔۔ لیکن دفتر بھی ضروری تھا، اور ہفتے کے روز کام ایکسٹرا ہی کرنا پڑتا ہے۔۔بات مختصر کرتے ہیں۔۔ کام کی باتوں پر آتے ہیں۔۔
آج آپ کیلئے بول اسپیشل کا وعدہ تھا ، اسے پورا کرنے جارہا ہوں۔۔ کافی عرصے سے بول کے حوالے سے خاموش تھا ، سوچ رہا تھا ۔۔ شعیب شیخ صاحب کو بہت سے معاملات سے شاید لاعلم رکھا جارہا ہے۔۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں رہائی کے بعد سے ان کی پہلی توجہ ایگزیکٹ کی بحالی تھی جو پندرہ ستمبر کو اسٹارٹ ہوگیا۔۔پھر انہوں نے بول کا رخ کیا۔۔ بول بظاہر تو بحال ہوگیا لیکن ابھی بہت سے معاملات حل طلب ہیں۔۔ رہائی کے دو ماہ بعد شعیب شیخ صاحب نے جمعہ کے روز پہلی بار ری جوائن کرنے والے بول والاز سے میٹنگ میں خطاب کیا۔۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام بول والاز کو واپسی کی پیش کش کریں گے جو آنا چاہے گا لے لیں گے جو نہیں آنا چاہے گا اس کی مرضی۔ تمام لوگوں کو بقایا جات ملیں گے لیکن ابھی انہیں سیٹل ہونے دیں ابھی انہیں صرف دو ماہ ہی ہوئے ہیں اس لئے بقایا جات دینے میں وقت لگ سکتا ہے لیکن انکار نہیں ہے۔ بقایاجات دیں گے تو جن لوگوں کے پاس بول کی امانتیں ہیں انہیں وہ بھی واپس کرنا ہونگی۔۔شعیب شیخ صاحب کے مطابق بول میں بھرتیاں مرحلہ وار ہونگی۔ اس وقت پری ٹیسٹ ٹرانسمیشن ہے اس کے بعد ٹیسٹ ٹرانسمیشن ہوگی جس کے بعد باقاعدہ لانچنگ ہوگی۔ جو اسکرین نظر آرہی ہے ایسی نہیں ہوگی۔ ایک سوال پر کہ کیا جو لوگ اس وقت بول چلا رہے ہیں یہی لوگ آئندہ بھی بول کے کرتا دھرتا ہوں گے یا پروفیشنل لوگوں کو لایا جائے گا۔ جس پر شیخ صاحب برہم ہوئے اور کہا کہ ہاں یہی لوگ بول کو چلائیں گے جو ان کے ساتھ کام کرسکتا ہے وہ کرے جو نہیں کرسکتا اس کے لئے دروازے کھلے ہیں ۔۔
لگتا یہی ہے کہ شعیب شیخ صاحب اپنی تمام مصیبتوں کی وجہ بول والاز کو سمجھتے ہیں۔۔ان سے دھوکا کسی اور نے کیا۔۔ بھاری تنخواہیں کھاکر کوئی اور رفوچکر ہوا ۔۔یہ چھوٹے موٹے کارکن تو حالات خراب ہونے پر ڈٹے ہوئے تھے کوئی ان لوگوں کے ساتھ نہیں بھاگا جو حالات خراب ہوتے ہی بھاگے تھے۔۔ پھر شعیب شیخ صاحب نے تیس ستمبر دوہزار پندرہ کو خود ہی بول کو ہولڈ پر رکھنے کا اعلان کیا اور سب کو کہا کہ آپ لوگ جہاں نوکری ملے کریں، حالات بہتر ہوتے ہی سب کو واپس بلالیا جائے گا۔۔ لیکن اب پرانے بول والاز کی جگہ نئے لوگ بلائے جارہے ہیں۔۔ نئے بھی اگر پروفیشنل ہوں تو دل نہ دکھے۔۔انٹرنیز رکھے جارہے ہیں، جنہیں صحافت کی الف بے کا بھی اندازہ نہیں۔۔
شعیب شیخ صاحب ایک بولڈ انسان ہیں، قائدانہ صلاحتیں بھی رکھتے ہیں، پرانے بول والاز کو واپس کیوں نہیں لیا جارہا۔۔اس سوال کے جواب میں بول کے کرتادھرتا یہی کہتے ہیں شعیب صاحب کا حکم ہے۔۔ یعنی جو بھی ایسا کام جس سے بول والاز میں بددلی پھیلے ، مایوسی پھیلے یا بدگمانیاں، یہی بتایاجاتا ہے کہ یہ سب شعیب صاحب کے حکم سے ہورہا ہے۔۔وہ لوگ جو ایک زمانے میں بہت ایکٹیو تھے، اب کہیں نظر آرہے ہیں نہ کسی کے فون اور میسیج کا جواب دے رہے ہیں۔۔
پچھلی بار میں نے ایک ایسے رپورٹر کی بھرتی کا حال بتایا تھا جس کا تجربہ صرف پانچ دن کی ٹی وی رپورٹنگ کا تھا۔۔ وہ اب بول کا حصہ ہے پرچی ایک معروف صحافی لیڈرکی ہے۔۔ اب ایک اور رپورٹر کا حال سنیں۔۔ایک رپورٹر کو اے آر وائی سے صرف اس لئے نکالاگیا کہ اس نے ایک مل اونر کو بلیک میل کیا تھا اور اس سے لاکھوں روپے بٹورے تھے، اس رپورٹر کے خلاف اے آر وائی کے پروگرام سرعام میں اقرار الحسن نے ایک رپورٹ بھی چلائی۔۔اس کی وڈیو نیٹ پر موجود ہے۔۔ اب وہ رپورٹر بول کا حصہ ہے۔۔ (رپورٹر اور شہر کا نام جان کے نہیں بتایا)۔۔۔ایسے اور کردار میں آئندہ بھی سامنے لاتا رہوں گا۔۔
اب بات کریں بول کون کون جارہا ہے؟؟ ۔۔ جتنے پروفیشنلز سے میرا رابطہ ہے سب کا یہی کہنا ہے کہ اگر نان پروفیشنل لوگ ہمارے سروں پر مسلط ہونگے تو پھر وہاں کام نہیں صرف خوشامد یا سیاست ہی ہوگی۔۔ اس لئے ہم نے تو معذرت کرلی۔۔کچھ بڑے ناموں سے میں نےذاتی طور پر رابطہ کرکے پوچھا۔۔ سب کا یہی جواب تھا۔۔وہ وہاں کے حالات سے واقف ہیں۔۔کامران خان اور ڈاکٹر شاہد مسعود جلد بول جوائن کرنے والے ہیں۔۔ پرانے اینکرز میں سے کچھ تو جوائن کرسکتے ہیں۔۔ لیکن اکثر یت نے فی الحال فوری جوائن کرنے معذرت کی ہے۔۔ معذرت کرنے والوں کے نام جان بوجھ کر نہیں دے رہا۔۔پری ٹیسٹ ٹرانسمیشن شروع کرنے والے مبشر لقمان اور ان کی پوری ٹیم نے استعفا دے دیا ہے۔۔ عامر لیاقت کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں۔۔
لوگ پوچھ رہے ہیں نمبرون چینل کی گزشتہ سال والی نمبرون ٹیم کا بھی کوئی سوچ رہا ہےجو اچھے دنوں کی امید میں آس لگائے بیٹھی ہے۔۔ ہمارے ایک سینیئر دوست نے تو بہت ہی عجیب جملہ دیا۔۔ کہا۔۔ جیو نے بول کو نہیں شعیب شیخ کے اعتماد کو توڑا ہے۔۔
آپ لوگوں کو شاید یاد ہو۔۔ کسی زمانے میں بول ورکرز ایکشن کمیٹی بھی ہوتی تھی۔۔جو گنے چنے لوگوں کے ساتھ میدان میں اتری۔ اس کے پاس صرف تین نکاتی ایجنڈا تھا۔۔ بول اور ایگزیکٹ کو بحال کرو۔۔شعیب شیخ کو رہا کرو۔۔ تنخواہیں دو۔۔۔ پھر لوگ ملتے گئے کاررواں بنتا گیا۔۔ بول اور ایگزیکٹ بحال اور شعیب شیخ صاحب باہر آگئے۔۔۔اب اس کمیٹی کو ان وعدوں کا انتظار ہے جو شعیب شیخ صاحب نے جیل اور اسپتال میں ان سے کئے تھے۔۔۔دوبارہ یاد دلا دیتا ہوں۔۔۔
جیسے ہی باہر آیا تو سب undo ہوجائے گا۔۔سارے بول والے واپس آئیں گے۔۔
بول والاز کی تنخواہیں قرض ہے مجھ پر۔۔ ایک ایک پائی واپس کروں گا۔۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، بول ورکرز ایکشن کمیٹی کو ختم یا تحلیل کئے جانے کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے۔۔
( فی الحال آج کیلئے اتنا ہی۔۔۔ کچھ باتیں پیر کو کروں گا۔۔علی عمران جونیئر)