سینہ بہ سینہ (آف دا ریکارڈ) پارٹ 25….
لوجی دوستو حسب وعدہ حاضر ہوں.. تاخیر کی معذرت..بہت سے دوست انتظار کرکرکے سوگئے جس نے پوچها اسے بتایا کہ رات 3 بجے کے بعد فرصت ملتی ہے تو تحریر کرونگا..بہرحال مختصر یہ کہ یہ سلسلہ دوستو میں کافی پذیرائی حاصل کرتا جارہا ہے.. نامور لوگوں سمیت صحافتی لیڈرز اور میڈیا مالکان سمیت کراچی سے لاہور تک اسے نہ صرف پڑها جاتا ہے بلکہ اس کا فوری رسپانس بهی ملتا ہے… کئی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو کئی ثابت کرتے ہیں کہ میڈیا انڈسٹری بہت چهوٹی ہے اب تم کہیں جاب نہیں کرسکتے بہت بدنام ہوچکے ہو.. جبکہ میرا ایمان ہے کہ رازق کوئی سیٹه نہیں صرف اللہ کی ذات ہے باقی سب بکواس ہے.. خیر اب کچه کام کی باتیں ہوجائیں..ذاتی دکهڑا رویا تو مسٹر جیم لگوں گا جو اب کہنا شروع ہوگیا ہے جیو اور جینے دو…ہاہاہا…بہت گہرا پیغام ہے ذرا سوچئے…
جون یا جولائی 2015 میں اسی سلسلے کے ذریعے میں نے آگاہ کیا تها کہ بول کے بعد سب کا نمبر آنا ہے… لوگوں نے مجهے ایموشنل سمجها کچه نے کہا جذباتی باتیں ہیں..لیکن علمائے صحافت جانتے ہیں کہ میڈیا پر اچها وقت نہیں چل رہا.. حکومتی گرفت سخت ہوگئی ہے..قادری کی نماز جنازہ والے کیس کی مثال سامنے ہے مجال ہے ایک آده سرپهرے چینل کے کسی نے اف بهی کی ہو سب نے حکومتی ہدایت کے مطابق بائیکاٹ کیا… مزید سنیں..میڈیا مالکان کی کرپشن کی فائلیں تیار کر لی گئیں…سب سے پہلے ہاته وڈے مالک پر ڈالا جائے گا… اشتہاری ملزم کو تین صوبوں کی پولیس ڈهونڈ رہی ہے..شکر ہے گیارہ ملکوں کی نہیں ورنہ وڈے مالک کی جگہ ڈان لکهنا پڑتا..ویسے یہ بندہ کسی ڈان سے کم بهی نہیں.. اس کا دعوی ہے کہ میں پاکستان میں حکومتیں بناتا اور گراتا ہوں.. لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی پی کی حکومت 5 سال پورا زور لگاکر بهی نہ گراسکے حالانکہ ان دنوں کاکا منا روز اپنی طرف سے آج رات میں حکومت گرا کے سوتا تها.. ٹیکس چوری سے لے کر دیگر بڑے بڑے معاملات میں وڈے مالک کے ملوث ہونے کے ٹهوس شواہد موجود ہیں..وزیردفاع خواجہ “جو ہے ناں” کی وہ وڈیوکلپ بهی یوٹیوب پر موجود ہے جو وہ حامد میر کو بتاتے ہیں کہ جیو کی غداری کے شواہد موجود ہیں..مگر بادشاہ وقت چونکہ وڈے مالک کے گہرے دوست ہیں اس لئے جب حامدمیرفائرنگ کیس کا واقعہ ہوتا ہے تو رئیس المنافقین حضرت پرویز رشید فرماتے ہیں ہم دلیل والوں کے ساته ہیں غلیل والوں کے ساته نہیں…دلیل پر شاید وہ نقطہ لگانا بهول گئے تهے…
دلچسپ بات آج یہ رہی کہ مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم کو حقوق نسواں بل کی منظوری کا علم ہی نہیں تها..یہ انکشاف انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد کیا.. مولانا جهوٹ نہیں بول رہے اصل میں ان سے جهوٹ کہا گیا عقل یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ وزیراعظم لاعلم ہونگے.. کل کو وہ بول کے معاملے پر فرما سکتے ہیں کہ…اچها بول کس نے بند کیا مجهے تو معلوم ہی نہیں..نثار یا مریم کی حرکت ہوسکتی ہے.. واقفان حال جانتے ہیں کہ مریم نواز اس وقت ڈی فیکٹیو وزیراعظم بنی ہوئی ہیں جب کہ حمزہ شہباز سے بهی ٹهنی ہوئی ہے دونوں کزنز میں اختیارات کی جنگ چل رہی ہے دونوں چاہتے ہیں مستقبل کا وزیراعظم وہ بنے…لیکن یہ نہیں جانتے کہ عوام اب کسی فرعون کو ووٹ نہیں دینگے..
فرعون پر یاد آیا…فرعون ملک ارے وہی سما والے.. ابهی تک موج مستی میں ہیں…کراچی سے تو کچه رپورٹرز کو نکالا ہی ..ان میں سے ایک شایان سلیم نے ایک ملاقات میں فرعون ملک کی کہانی بهی سنائی..جو پهر کبهی سناوں گا..شایان کا کہنا ہے کہ بیورو کی میٹنگ کے دوران گالم گلوچ کرنے پر انہوں نے فرعون ملک کو بتایا کہ سر یہاں خواتین رپورٹرز بهی بیٹهی ہیں جس پر وہ مزید طیش میں آیا..شایان کو گالیاں دیں تو اس نے فرعون ملک کے منہ پر استعفا مارا اور نوکری چهوڑ دی..اسی میٹنگ میں سوال کرنے پر کرائم رپورٹر عبید شاہ جسے آج ٹی وی سے بلوایا گیاتها کو فرعون ملک نے فائر کردیا..ہیلته رپورٹر صبا سلطان کو بهی نکالا جس کا نام پچهلی بار رہ گیا تها…لاہور بیورو کے چار رپورٹرز کو بهی شوکاز دیا جبکہ اسلام آباد بیورو کے دو رپورٹر نوید صدیقی اور کاشف رفیق کو بهی فارغ کردیا… فرعون ملک کی کہانی ابهی ختم نہیں ہوئی باقی پهر کبهی سہی…
اب کچه بات بول کی… آج پریس کلب میں بیٹهک کے دوران امتیاز فاران بهائی سے کافی دیر گپ شپ رہی..میرے بڑے بهائیوں کی طرح ہیں اور یارباش انسان ہیں..ان سمیت تمام صحافتی تنظیموں کے رہنماوں سے میرا ایک سوال ہے… اگر بول کی جگہ حکومت جیو کو بند کرتی تو کیا تب آپ جیو کو بحال کرانے کیلئے میدان میں نکلتے یا پهر جیو والوں کو دوسرے چینلز میں نوکریاں دلوانے کی کوشش کرتے؟… سوال مشکل نہیں … چونکہ یہ بول ہے اس لئے اب تک میں نے جو دیکها ہے وہ یہی ہے کہ بول والوں کو سارے لیڈرز یہی مشورہ دیتے رہے کہ جہاں جگہ ملتی ہے نوکری پکڑو… حالات کے مارے ہمارے اکثر ساتهیوں نے بهی یہی کیا…اس میں غلطی بول والاز کی نہیں لیکن
کیا بول کی بحالی “عشق ممنوع” تها ؟
کیا بول کی بحالی سے ہماری صحافتی برادری کا کوئی نقصان تها؟
کیا بول کی بحالی سے دیگر چینلز پر ہمارے دوستو کے حالات بہتر نہیں ہوتے؟
کیا بول کی بحالی سے کراچی میں صحافیوں کی بڑی تعداد کو روزگارنہیں ملتا؟
کیا بول کی بحالی سے صحافیوں کی قدروقیمت میں اضافہ نہیں ہوتا؟
کیا بول کی بحالی سے سوائے سیٹهوں کے کسی کو نقصان پہنچ رہا تها؟؟
میرا دعوی ہے کہ میرے ان سوالات سے کوئی اختلاف نہیں کریگا لیکن بات پهر وہیں آکر رکتی ہے کہ کیا بول کی بحالی سے صحافی تنظیموں کے رہنماوں کے “مفادات” پر کوئی اثر تو نہیں پڑتا؟ میں اپنے لیڈروں سے مودبانہ گزارش کرونگا کہ براہ کرم بول کے معاملے پر اب تو سنجیدہ ہو جائیں اور سب مل کر اسے ڈوبنے سے بچائیں.. ابهی وقت نکلا نہیں..لعنت بهیجیں ان سیٹهوں پر جو کئی عشروں سے صحافیوں کا خون چوس رہے ہیں.. لعنت بهیجیں ان سیٹهوں کے مفادات پر…لعنت بهیجیں سیٹهوں پر…اور ائیے بول ورکرز کے ساته کهڑے ہوجائیں..ان کی سرپرستی کریں جیسے ایک باپ اپنے بچوں کی کرتا ہے… آپ ایسا کرینگے تو پهر دیکهئے گا یہی بچے آپ کیلئے جانوں کا نذرانہ بهی پیش کرینگے… آپ کو سر آنکهوں پر بٹهائیں گے..
تحریر لمبی ہوگئی ہے اس لئے چند لفظوں میں اختتام کرونگا… اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ ہونا بول والاز اور ایگزیکٹیئنز .. بس اب جلد صبر کا پهل ملنے والا ہے سب کو..