سینہ بہ سینہ (آف دا ریکارڈ) پارٹ 22……
لوجی دوستو…تین مارچ کے بعد پهر حاضر ہوں آج بول کے حوالے سے کافی خبریں ہیں لیکن سب سے پہلے کچه چهوٹی چهوٹی ایسی خبریں جو اہم بهی ہیں اور نہیں بهی…
ایم کیو ایم بانوے کے آپریشن کا اتنا ذکر کرتی رہتی ہے کہ ایک گهی فروش نے اسی نام سے چینل بهی کهول لیا..اس چینل کی ایک دو خبریں پہلے بهی دے چکاہوں..ایک بار تو تعریف بهی کی تهی کہ مفت کهانا اور کاریں بهی اپنے کارکنوں کو دیں.. لیکن آج نئی کہانی سنیں… اس چینل میں پچهلے دنوں شدید سردیوں کے دوران لاہور ہیڈ آفس میں اپنی جیکٹ..سوئیٹر وغیرہ سیٹ پر لٹکانے کی ممانعت تهی..آفس کی حدود میں فوٹو کهینچنے یا سیلفی بنانے اور موبائل فون پر بات کرنے کی بهی پابندی عائد ہے..یہ بات زبانی کلامی نہیں کررہا اس کے نوٹس گواہ ہیں جو آفس کی دیواروں پر چسپاں ہیں… میڈیکل کے پیسے کافی عرصے سے کاٹے جارہے تهے اور یہ سہولت کارکنوں کو نہیں دی جارہی تهی اب خیر سے سنا ہے میڈیکل کارڈ آگئے ہیں اور جلد ورکرز کو دیئے جائیں گے..
ملک ریاض نے یکمشت اپنے اخبار جناح کے کارکنوں کی بقایا تنخواہیں ادا کردیں..دیرآیددرست آید…
ابهی دو تین چینلز مزید ایسے ہیں جہاں کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں (بول کے علاوہ).. جبکہ وڈے چینل سمیت کئی چینلز میں تاخیر سے تنخواہوں کا سلسلہ جاری ہے…
وڈے چینل کا ذکر آیا تو ٹرائل کورٹ میں وڈے مالک کی پول پٹیاں کهلنے لگ گئیں…ایک گواہ جسے کافی محنت سے تیار کیا گیا اس بیچارے کا بیان بهی ریکارڈ پر آگیا کہ دبئی میں میرشکیل الرحمان نے یہ سازش تیار کی…ایگزیکٹ کے وکیل بیرسٹر شوکت حیات نے ایف آئی اے کے بنائے گئے بے بنیاد کیس کے پرخچے اڑادیئے..یہی وہی وکیل ہیں جنہوں نے میرمرتضی بهٹو کیس میں شاہد حیات پر جرم ثابت کرواکے انہیں سزا دلائی تهی.. فوجداری مقدمات کے ماہر شوکت حیات نے ڈیکلن والش اور میرشکیل کے گٹه جوڑ کو عدالت کے ریکارڈ کا حصہ بنادیا..
ہائیکورٹ ہو یا سٹی کورٹ کیسوں کی سماعتوں کے دوران کچه نئے نویلے چہرے کمرہ عدالت میں جب نظر آئے تو بول ورکرزایکشن کمیٹی نے ان نئے چہروں کا کهوج لگایا جو بول اور ایگزیکٹ سے تعلق نہیں رکهتے تهے مگر ہر کیس اور عدالت میں موجود ہوتے. یہ پراسرار لوگ سماعت کے دوران موبائل فونز اور پین کیمروں سے کارروائی ریکارڈ کرتے ہیں اور اپنے باس کو رپورٹ دیتے ہیں کیونکہ باس کو ان کے بتائے ہوئے کا یقین نہیں آتا اس لئے ریکارڈنگ کا اہتمام خفیہ طریقے سے ہوتا ہے..جب ان اجنبی چہروں کی جاسوسی کی گئی تو ان لوگوں کا تعلق وڈے چینل سے نکلا… اب ان بیچاروں کو کیا پتہ کہ جاسوسوں پر بهی جاسوس لگے ہیں جنہوں نے ان کی خفیہ حرکتوں کی ریکارڈنگ کرلی .. اور پهر ریکارڈنگ کا فائدہ کیا سب باتیں جو عدالت کے کمرے میں ہوتی ہیں ریکارڈ کا حصہ بن رہی ہیں..
بول ایکشن کمیٹی کا ذکر آیا تو چینل مالکان کی تنظیم پی بی اے کے ایک اجلاس کی روداد بهی سن لیں…جس میں صرف چار پانچ مالکان ہی شریک تهے…اجلاس میں بول ایکشن کمیٹی پاکستان کے سرگرم کارکنوں کے نام اور تصویریں تقسیم ہوئیں اور طے کیا گیا کہ انہیں ہرقیمت پر توڑنا ہے چاہے منہ مانگا پیکیج ہی کیوں نہ دینا پڑے اس طرح سے بول کے حوالے سے ماحول جو پچهلے ڈیڑه ماہ سے دوبارہ گرم ہوگیا ہے ٹهنڈا کیا جاسکے.. مجهے اسلام آباد اور لاہور کی کمیٹیوں کا احوال تو نہیں پتہ لیکن پچهلے دس دن کے دوران تین مختلف چینلز کی طرف سے مجهے رابطہ کیا گیا اور پرکشش پیکیج کی آفر ہوئی..یہی کچه میرے قریبی دوست عثمان آرائیں کے ساته پیش آیا… ہم دونوں نے ہی معذرت کرلی سب سے…کیونکہ ہمیں اس اجلاس کا پہلے سے پتہ نہ ہوتا تو شاید ہم بهی ٹریپ میں آجاتے اور کسی چینل میں بیٹه کر نوکر کی تے نخرہ کی کا چاپ کررہے ہوتے…اسلام آباد کی بول ایکشن کمیٹی بهی خبردار رہے کیونکہ تحریک کا محور شہر اقتدار ہی ہے.. ویسے سبوخ سید سے چند ملاقاتیں جو کراچی میں ہوئی تهیں..اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ صاحب بهی استقامت کا مظاہرہ کرینگے کیونکہ وہ بهی اور ہم بهی جانتے ہیں کہ منزل اب زیادہ دور نہیں..
شاہد حیات کی پریس کانفرنس تو یاد ہے ناں؟ وزیر داخلہ نے بهی اس کی جواب طلبی کرلی ہے لیکن ایک بلنڈر جو شاہد حیات نے اس پریس کانفرنس میں کیا وہ بهی سن لیں… شاہد حیات نے اس دن ایف آئی اے کے تین افسران کو کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر برطرف کیا… اب شاہد حیات صاحب یہ بتانا پسند کرینگے کہ وہ تینوں افسران ایگزیکٹ پر چهاپوں اور کارروائی میں پیش پیش تهے… خود ہی وضاحت فرما دیں گے تو اچها ہے ورنہ اگلی بار ان کے نام اور کرتوت بهی بے نقاب کردونگا اور یہ بهی کہ وہ تینوں شاہد حیات کے کتنے قریب تهے…
سینہ بہ سینہ قسط نمبر 22
Facebook Comments