سینہ بہ سینہ ( آف دا ریکارڈ ) پارٹ 14۔۔۔۔
جیسا کہ کل میں نے بتایا تھا ۔۔۔ آج قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کا اہم اجلاس ہوا۔۔ جس مین بول کی بندش اور ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ زیرغور آیا۔۔۔ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا آئندہ ہفتے کمیٹی کا بندکمرہ اجلاس ہوگا جس میں وزارت داخلہ،پیمرا اور ایف آئی اے بھی شریک ہوگی جس کے لئے سمن جاری کردیئے گئے۔۔۔بول کے نمائندوں کو بھی بندکمرہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے کیس کا دفاع کرسکیں۔۔۔اگلے ہفتے ہونے والے اجلاس میں بول کے لائسنس منسوخ ہونے کے معاملے کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔۔۔ قائمہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ جب تمام تر قانونی تقاضے پورے کرکے لائسنس حاصل کئے گئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسے منسوخ کیا گیا۔۔
قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت پیرمحمد اسلم بودلہ نے کی۔۔جب کہ اجلاس میں مریم اورنگزیب۔۔ملک شاکربشیر۔۔اظہرجدون۔۔۔عمران ظفر لغاری۔۔۔بلتی حسنین۔۔۔ملک عامر ڈوگر۔۔۔عارفہ خالد پرویز۔۔اور مشاہداللہ خان شریک تھے۔۔ بول کی جانب سے بھی اس کے تین نمائندے فیصل عزیز خان۔۔ نذیرلغاری اور عامر ضیا پیش ہوئے۔۔۔عمران ظفرلغاری کی تجویز پرکمیٹی کا بند کمرہ اجلاس (ان کیمرہ) بلانے کا فیصلہ ہوا جس کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔۔۔ چیمئرمین پیمرا ابصار عالم نے کمیٹی کو بتایا کہ بول کے لائسنس منسوخ کرنے کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے جس نے این او سی کینسل کردیا اگر وزارت داخلہ این او سی جاری کردیتی ہے تو پیمرا کی اگلی ہی میٹنگ میں بول کے لائسنس جاری پرغورکیا جائے گا۔۔۔
وزارت داخلہ کی جانب سے بول کو جاریکرہ این او سی واپس لینا غیرقانونی اور غیرآئینی اقدام ہے۔۔ وزارت اطلاعات نے بھی پیمرا کو احکامات جاری کئے تھے کہ بول کا آپریشن بندکرایا جائے۔۔۔جس کی وجہ سے بائیس سو صحافی بیروزگار ہوگئے اور اب تک اپنی تنخواہون سے محروم ہیں۔۔۔
چیئرمین پیمرا نے کمیٹی کو بتایا کہ بول کو این او سی وزارت داخلہ نے پچیس مارچ دوہزار تیرہ کو جاری کیا تھا۔۔لیکن پھر چار چولائی دوہزار تیرہ کو وزارت داخلہ نے پیمرا کو خط لکھا کہ بول کو غلطی سے این او سی جاری ہوگیا ہے جسے منسوخ کردیاجائے۔۔۔ بول انتظامیہ نے وزارت داخلہ کے اس تحریری حکم کو سندھ ہائی کورٹ میں چینلج کردیا اور حکم امتناعی (اسٹے آرڈر) لے لیا۔۔ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ بول اپنی نشریات جاری رکھے اور حکومت کے متعلقہ شعبوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی رسمی کارروائی پوری کریں۔۔۔
پیمرا چیف ابصارعالم کا کہنا تھا کہ ۔۔ بول کے لائسنس بحال کرنے کیلئے وزارت داخلہ کو کئی بار این او سی جاری کرنے کا لکھا لیکن انہوں نے کسی کابھی جواب نہیں دیا۔۔۔پیمرا چیف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ نوے فیصد نیوزچینلز اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتے۔۔۔
اس موقع پر عمران ظفرلغاری کا کہنا تھا کہ بول گروپ کے ساتھ حددرجہ زیادتی ہوئی ہے اور یہ عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے انہیں انصاف دلائیں۔۔۔ کمیٹی کے ایک اور رکن اظہرجدون کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو یہ بتایاجائے کہ بول اور ایگزیکٹ کے معاملے کو اتنی ہوا کیوں دی گئی، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے۔۔۔
کمیٹی نے اس بات پر بھی انتہائی حیرت کا اظہار کیا کہ بول کے لوگوں کی نو مہینے بعد بھی عدالتوں سے ضمانتیں نہیں ہوسکیں جب کہ ان پر لگائے گئے تمام الزامات قابل ضمانت جرم ہیں اور معمولی نوعیت کے ہیں۔۔۔
دوستو۔۔۔۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے اطلاعات کا موقف آپ نے جان لیا۔۔۔ اب خود سوچئے کہ جہاں ایسے حالات ہوں وہاں کوئی سرمایہ کاری کیوں کرے گا۔۔ جو سرمایہ کاری کرکے روزگار دینا چاہتا ہے اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور دوسری طرف پی آئی اے کو زبردستی نجکاری کے راستے پر ڈالا جارہا ہے احتجاج کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔۔۔ یہ ہے ن لیگ کی حکومت ۔۔۔ شرم و حیا جن کے قریب سے بھی کبھی نہیں گذری۔۔۔