سینہ بہ سینہ ( آف دا ریکارڈ )۔۔۔۔ قسط 11۔۔۔۔
گزشتہ تحریر میں لاہور نئے میڈیا حب پر بات کی تھی۔۔ اس حوالے سے کافی کچھ معاملات ایسے ہیں جن پر صحت مندانہ بحث کی جاسکتی ہے۔۔۔۔ کچھ دوستوں کو برا لگا کہ اب میڈیا میں بھی لسانیت کو ٹھونسا جارہا ہے۔۔۔ میرا مقصد قطعی لسانیت کا فروغ یا صحافی برادری میں مزید دھڑے بندی نہیں۔۔ لیکن کیا جب کسی ایشو پر بحث کی جائے تو دلائل نہ ہونے پر سامنے والے کو مختلف الزامات لگاکر خاموش کردیا جائے؟؟؟۔۔۔۔ کراچی اور لاہور کے چینلز پر مزید بات کل کریں گے۔۔۔ آج کچھ تازہ معاملات ہیں ۔۔۔
گورمے بیکری کے جاگ چینل کے بعد اب مشرق چینل کی بھی تیاریاں ہیں۔۔ جس کا ہیڈ آفس اسلام آباد کو رکھا جارہا ہے۔۔۔ معروف اینکر جاوید اقبال نے اس چینل کو جوائن بھی کرلیا ہے۔۔
عمرچیمہ صاحب نے دعوی کیا ہے کہ ایک اینکرکو اس کے چینل نے پندرہ ملین معاوضے پر رکھا لیکن ریٹنگ نہ ہونے پر اسے اب فارغ کیا جارہا ہے۔۔ جی ہاں ریحام خان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ نیو ٹی وی پر ان کا پروگرام ٹھس ہوگیا جس کے بعد انتظامیہ اب جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔۔۔
حیرت انگیز طور پر پچھلے کچھ عرصے میں آن ائر ہونے والے کئی چینلز میں اینکرز کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہے۔۔۔ یہ بات بھی معمہ ہے کہ اینکرز ان چینلز میں ٹک کر کام کیوں نہیں کررہے؟؟ ہر دوسرے روز کسی چینل سے کسی اینکر کے استعفے کی خبر ملتی ہے۔۔
اب بات بول اور ایگزیکٹ کی۔۔۔ نوازشریف دور میں یہ واحد چینل تھا جو کراچی سے نکل رہا تھا لیکن اس کا گلا پہلے ہی دبوچ لیا گیا۔۔باقی لاہور سے نکلنے والے چینلز سے ن لیگ حکومت کو کوئی پرخاش نہیں کراچی سے نیا چینل کیوں نکل رہا ہے ؟ کارروائی کی وجہ شاید کراچی بنا۔۔ بظاہر ایگزیکٹ کے معاملات کا بہانہ تھا لیکن درپردہ بات یہی ہے کہ کراچی سے چینل کو نہیں نکلنے دینا۔۔۔ ایف آئی اے سمیت پوری ریاستی مشینری کو بول کے پیچھے لگادیا گیا۔۔۔ اور یہ سب مل کر بھی ایگزیکٹ کا جرم اب تک ثابت نہ کرسکے۔۔۔۔ شعیب شیخ پر بول چینل کی فروخت کیلئے بے تحاشا دباو ڈالا گیا لیکن وہ ڈٹے رہے اور مسلسل انکار کیا۔۔۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ایف آئی اے نے اوپر والوں کو کہہ دیا ہے کہ اب اس کیس میں جان نہیں ہے۔۔۔ ہمیں کچھ مل نہیں رہا۔۔۔کب تک ہم عدالتوں سے تاریخ پہ تاریخ لیتے رہیں گے۔۔۔ عدالتیں بھی اندھی نہیں ہیں۔۔۔ آج نہیں تو کل انہیں پتہ لگ ہی جانا ہے کہ ایف آئی اے نے کس طرح کا ظلم ڈھایا ہے۔۔۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز کے ڈیکلن والش (جس نے ایگزیکٹ کے خلاف خبردی تھی) کو جب ریاست پاکستان نے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ڈی پورٹ کیا تو انہیں بچانے کیلئے اس وقت کے نگران وزیراعلی پنجاب جو اینکر بھی ہیں نے کس طرح انہیں بچانے کی کوشش کی اور ملک بدری کے سرکاری احکامات کو واپس لینے کیلئے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، لاہور پولیس کے ایک اعلی افسر نے اس معاملے پر انہیں بری طرح جھاڑ پلادی تھی۔۔۔
باقی کل۔۔۔۔۔انشااللہ