سینہ بہ سینہ قسط 105۔۔
تحریر: علی عمران جونیئر۔۔
دوستو، اٹھارہ ماہ کے طویل گیپ کے بعد ایک بار پھر آپ کے پسندیدہ ترین سلسلے سینہ بہ سینہ کی نئی قسط کے ساتھ حاضر ہیں۔۔ لاسٹ قسط پانچ ستمبر دوہزار انیس کو پوسٹ ہوئی تھی، جس کے بعد کافی لمبا بریک آگیا۔۔ ان اٹھارہ ماہ میں ہزاروں لوگ مزید ہمارے مستقل قاری بنے ہیں لیکن وہ شاید سینہ بہ سینہ سے متعلق نہیں جانتے کیوں کہ اس دوران کوئی نئی قسط آئی نہیں، ایسے تمام احباب جو اس قسط کو پہلی بار پڑھ رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس کی گزشتہ اقساط ہماری ویب عمران جونیئر ڈاٹ کام پر موجود ہیں، وہاں سے مزید قسطیں پڑھیں تو اس سلسلے کی مقبولیت کی وجہ آپ لوگوں کو بھی سمجھ آجائے گا۔۔ ویب پر خبریں تو روزانہ ہی لگتی رہتی ہیں، کبھی کبھار پپو کوئی بڑی بریکنگ بھی دے دیتا ہے ، درجنوں ویب سائیٹس ہماری خبروں کو لفٹ کرتے ہیں ،کاپی پیسٹ مافیا واٹس ایپ کے نیوزگروپوں میں ان خبروں کو خود ہی پھیلادیتا ہے۔۔لیکن ہمارے احباب کا کہنا ہے کہ جو مزہ سینہ بہ سینہ میں پپو کی مخبریوں میں آتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔۔ احباب اکثر ملاقاتوں میں یہ شکوہ ضرور کرتے ہیں کہ سینہ بہ سینہ کی نئی قسط تو لکھ دیں۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب میڈیا انڈسٹری میں لکھنے کے لئے باقی رہ کیا گیا ہے؟ گھوم پھر کر وہی خبریں، سیلری نہیں مل رہی، اتنے لوگ نکال دیئے، فلاں اینکر فلاں چینل سے فلاں چینل چلا گیا۔۔۔ ہمیں تو پرنٹ میڈیا کے زوال کے بعد اب الیکٹرانک میڈیا بھی زوال کا شکار لگ رہا ہے۔۔۔ ڈیجیٹل میڈیا اپنی کافی جگہ بناچکا ہے، بڑے چینلز بھی اب ڈیجیٹل میڈیا کا رخ کررہے ہیں اور سب نے اپنے ڈیجیٹل شعبے کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے کیوں کہ یہاں سے فوری کمائی وہ بھی ڈالروں میں ہے جب کہ خرچہ بھی کچھ نہیں۔۔ ارے یہ کیا؟ اپنی باتیں ابھی جاری تھیں، درمیان میں خودبخود مخبریاں اسٹارٹ ہوگئیں، چلئے پھر پپو کی مخبریوں کی جانب چلتے ہیں۔۔اپنی باتیں تو پھر بھی ہوتی رہیں گی۔۔۔
پپو کی پہلی مخبری یہ ہے کہ نیوز چینلز کے بعد انٹرٹینمنٹ انڈسٹری بھی تباہی کا شکار ہے، حکومت تو چاہتی ہے کہ نیوز چینلز کی جگہ انٹرٹینمنٹ چینلز پھلیں پھولیں،لیکن میڈیا مالکان خود اپنے پیروں پر کلہاڑیوں کے پے درپے وار کررہے ہیں اور پوری کوششیں کررہے ہیں کہ کسی طرح انٹرٹینمنٹ انڈسٹری بھی تباہ ہوجائے، وہ وقت دور نہیں جب آپ کو یوٹیوب پر صرف پرانی چیزیں ہی دیکھنے کو ملا کریں گی کیوں کہ نئے ڈراموں، پروگراموں کو بنانے والا کوئی نہیں ہوگا۔۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ایک عرصہ سے پرڈیوسر سے لے کر کیمرہ مین، اور کیمرہ مین سے لے کر اسپاٹ بوائے، سب کا استحصال جاری ہے۔ یہاں ایک ایسی مافیا قابض ہے جس سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔۔ آپ جتنے نیوز چینلز (اے کٹیگری سے لے کر سی کٹیگری) دیکھیں سب کے اپنے اپنے انٹرٹیمنٹ چینلز ہیں۔۔ خود سوچیں جب حکومت نیوزچینلز مالکان کا کچھ نہیں بگاڑسکتی تو پھر انٹرٹینمنٹ چینلز کے مالکان تو وہی ہیں جو نیوزچینلز کے بھی مالک ہیں پھر یہاں بھی ان کی ہی مرضی چلتی ہے۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو کیسے تباہ کیاجارہا ہے۔۔؟؟ اس کی تازہ مثال بھی آپ کو بتاتے چلیں۔۔ کچھ روز پہلے کراچی کے تھانہ بوٹ بیسن میں پبلک ٹی وی کے مالک عبدالجبارکے خلاف ایف آئی آر نمبر پینتالیس بٹا دوہزار اکیس کاٹی گئی جس میں فراڈ اور دھوکا دہی کی دفعات شامل ہیں۔۔مدعی سائگنس میڈیا کے نمائندے تنویر مسیح نے مقدمہ میں الزام لگایا ہے کہ ایک ڈرامہ بنانے کے حوالے سے ان کی آرگنائزشن اور نجی ٹی وی کے ایم ڈی عبدالجبار سے چار کروڑ چالیس لاکھ کا معاہدہ کیا تھا اور کام کراکے رقم ادا نہیں کی گئی۔ مدعی کا کہنا ہے کہ ان کو دو چیک عبدالجبار کی جانب سے دئے گئے جو کہ بائونس ہو گئے ہیں۔۔کیس کے تفتیشی افسر محمد بشارت نے کیس کی تفتیش کے بعد نجی ٹی وی کے مالک عبدالجبار کو مفرور قرار دیا ہے۔۔ جوڈیشل مئجسٹریٹ جنوبی کی عدالت نے عبدالجبار کو مفرور ظاھر کرتے ہوئے ان کا قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں۔۔ اچھا کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی ۔۔۔ تنویر مسیح نے چیئرمین پیمرا میں تحریری درخواست دی جس میں کہا گیا ہے کہ ۔۔ سائگنس کمپنی ایک پروڈکشن ہاؤس ہے جو ٹی وی ڈرامے، سیریل، سوپس بناتا ہے پھر انہیں مختلف چینلز کو فروخت کرتا ہے، سائگنس کمپنی کا معاہدہ بائیس اگست دوہزار انیس کو عبدالجبار کی کمپنی سے ہوا، عبدالجبار کی کمپنی ایک نیوز چینل اور دو انٹرٹینمنٹ چینل چلاتی ہے، سائگنس نے اپنا ایک سیریل ۔۔ملامیر۔۔ چوالیس ملین میں عبدالجبار کو دیا، معاہدے کے تحت جو رقم طے پائی تھی وہ نہیں دی گئی، صرف آٹھ لاکھ روپے دیئے گئے باقی کے چار کروڑ بتیس لاکھ روپے دوہزار انیس سے اب تک ادا نہیں کئے گئے۔۔اس دوران بہت بار ادائیگی کے وعدے کئے گئے لیکن کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا، جب بھی رقم کا مطالبہ کیاجاتا تو اگلی تاریخ دے دی جاتی،دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران سائگنس کمپنی کو ٹالنے کے ایسے چیک بھی دیئے گئے جو کبھی کیش نہ ہوسکے، چنانچہ چیک باؤنس ہونے کا مقدمہ بوٹ بیسن تھانے میں کردیاگیا۔۔ جوڈیشیل مجسٹریٹ جنوبی کراچی نے پانچ مارچ کو عبدالجبار کو اشتہاری قراردے دیا۔۔ سائگنس میڈیا نے پیمرا سے درخواست کی ہے کہ ایسا شخص جو فراڈ میں ملوث ہے اس کے نام پر جاری انٹرٹینمنٹ لائسنس منسوخ کیا جائے۔
یہ کوئی ایک فراڈ نہیں ہے،مارکیٹ میں بہت پروڈیوسرزہیں جن کے پیسوں کا معاملہ لٹکا ہوا ہے ۔ ڈرامہ پرڈیوسرز کی ایک تنظیم یونائیٹڈ پرڈیوسرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت مختلف میڈیا ہاؤسز اور پروڈیوسرز کے تقریبا 30 کروڑ روپے کی رقم اس ایک چینل پر واجب الادا ہیں، اسی مالک یعنی عبدالجبار کے نیوز چینل کا حال بھی بدترین ہے، جہاں ورکرز کو کئی ماہ سے سیلری نہیں ملی۔۔ پیمرا کے قوانین و ضوابط اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں۔۔پیمرا کے ویلیویشن اور کرائیٹیریا کے مطابق کسی بھی لائسنس ہولڈر کے لئے فائننشل وائی بلٹی ٹیکنیکل فیزیبیلٹی فائنینشل اسٹرینتھ کریڈیبلٹی اینڈ ٹریک ریکارڈ ہونا بہت ضروری ہے، تو پھراس طرح کے فائننشل کرپشن پر پیمرا کو خاموش نہیں رہنا چاہیئے، ایسے لوگوں کو جن کو لائسنس ایشو ہوا ہو اس کو فوری طور پر منسوخ کرنا چاہیے، بلکہ پیمرا کو چاہیے کہ وہ اس تازہ کیس کو ایک مثال بنائے، پینلٹی اور ہیوی فائن کرے تاکہ مستقبل میں کسی کے ساتھ ایسا فراڈ نہ ہو سکے۔ مبشرلقمان کے مطابق صرف اسی ایک چینل نے لوگوں کا، پرڈیوسرز کا سوکروڑ کے قریب دینا ہے۔ مبشرلقمان کے مطابق انٹرٹینمنٹ کے جتنے بھی چینلز ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی ہو جس پر کسی کے واجبات نہ ہوں، جس نے لوگوں کو مکمل ادائیگیاں کی ہوں۔۔ اس کا مطلب ہے کہ اربوں روپے کا کام پرائیویٹ لوگ کرتے ہیں پروڈکشن ہاؤس کرتے ہیں، لیکن انہیں ریٹرن ملتا نہیں۔۔ پھر ہوگا کیا؟ ایک وقت آئے گا یہ لوگ مایوس ہوکر گھر بیٹھ جائیں گے۔۔
ہو کیا رہا ہے جو اس وقت بڑے بڑے چینلز ہیں جس میں بڑے بڑے نام شامل ہیں، سب نے اپنے فرنٹ مین رکھ کر اپنے پروڈکشن ہاؤسز بنارکھے ہیں، اور وہ پروڈکشن ہاؤسز والے پرڈیوسرز کی تنظیموں کے اراکین بھی بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایکشن بھی نہیں ہوتا۔۔ میڈیا مالکان کا طریقہ واردات بہت آسان ہے، پہلے یہ اپنے پروڈکشن ہاؤس بناتے ہیں، جس میں اپنی مرضی اور اعتماد کے لوگ رکھتے ہیں، پھر ڈرامہ بنتا ہے تو اسے اپنے چینل پر چلاتے ہیں، جس پر اشتہارات کی مد میں ڈھیروں نفع کماتے ہیں، اب چونکہ میڈیا مالک درپردہ پروڈکشن ہاؤس میں بھی شیئر ہولڈر ہوتا ہے تو وہاں الگ پرافٹ لے رہا ہوتا ہے۔۔ یہ میڈیا مالک اپنے ہی پروڈکشن ہاؤس سے مہنگے داموں سیریل اپنے ہی چینل کے لئے خریدتا ہے، دونوں جگہ سے مزے ہائے مزے۔۔۔ لیکن جب کسی اور پرائیویٹ پروڈکشن سے ڈرامہ خریدتا ہے تو کوشش کرتا ہے جتنی زیادہ تاخیر سے ادائیگی کرے تو فائدہ ہوگا۔ اب تاخیر سے ادائیگی میں کیسا فائدہ تو اس کی مثال بھی سمجھ لیں۔۔ مثال کے طور پر کسی سیریل کے دس کروڑ روپے دینے ہیں تو پروڈکشن ہاؤس یا پرڈیوسر کو کہاجاتا ہے تین ماہ انتظار کریں، پے منٹ تین ماہ بعد کریں گے، یا پوسٹ ڈیٹڈ چیک لے لیں تین ماہ بعد کے۔۔اس دوران میڈیا مالک کسی پوش علاقے میں پانچ سو یا ہزار گز کا پلاٹ خرید لیتا ہے، جسے دو یا تین ماہ جب بیچا جاتا ہے تو وہ کافی پرافٹ دے جاتا ہے۔۔آپ جتنے مالکان دیکھیں گے ان میں اکثریت کےمتبادل کاروبار لازمی ہوں گے۔۔ کسی کے کالجز ہیں ہوٹل ہیں ریسٹورنٹس ہیں اور کمپنیز ہیں کوریئر کمپنی ہے ایڈورٹائزمنٹ ایجنسیز،بیکریاں، گولڈ، کوکنگ آئل، رئیل اسٹیٹ، پراپرٹی، پروڈکشن ہاؤسز ہیں، اور اب تو ائرلائن کا کام بھی میڈیا والے شروع کررہے ہیں۔۔
مبشرلقمان فلم سازی کے شعبے سے بھی رہے ہیں، فلموں کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ۔۔اگر ایک عام فلم آپ نے بنالی،اسے ریلیز کرنی ہے تو پہلے تو آپ کو اپنی مرضی کے سینما نہیں ملتے۔۔۔۔ آپ کو آپ کی مرضی کے ریٹس نہیں ملتے، نیوز چینلز فلموں کو پروموٹ نہیں کرتے۔۔۔۔ پاکستانی فلموں کو بھی کہتے ہیں کہ پہلے ہمیں اس کے پیسے دو ۔۔۔۔ فلم پرڈیوسر نے اگر کوئی فلم دس کروڑ کی بنائی ہے تو اس سے جو بھی کمائیں گے اس کا پچاس فیصد سینمامالکان کو چلاجاتا ہے، یعنی اگر اس فلم سے دس کروڑ ہی کمائے تو سمجھ لیں پانچ کروڑ سینما مالکان کی جیب میں چلا گیا۔۔ اس کے بعد اٹھارہ سے بیس فیصد ڈسٹری بیوٹرز کے پاس چلاجاتا ہے۔ اب جس نے ایک سال یا دو سال کی محنت اور دس کروڑ روپے لگا کر فلم بنائی اسے کیا ملا؟ صرف تیس فیصد؟ اس میں بھی فلاں سینما والا ہولڈ کر رہا ہے ۔۔۔۔ فلا ں ڈسٹری بیوٹر۔۔۔ اب ڈسٹریبیوٹر بھی کیا کریں وہ صاف کہہ دیتا آگے سے پیسے نہیں مل رہے۔زیادہ پریشر ڈالو تو کہتے ہیں کہ اچھا اگلی فلم دوگے تو کچھ پے منٹ ریلیز کرتے ہیں۔ فلم انڈسٹری کا حال اب سب کے سامنے ہے۔۔ نئی فلمیں بننا بند ہوگئیں۔۔ کوویڈ کو چھوڑ دیں گے اس کے علاوہ بات کر رہا ہوں۔۔۔۔ کوویڈ کے پہلے کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔ آپ کے ڈرامہ بننا چھوٹ گئے۔۔۔۔ وجہ کیا ہے؟؟ ڈرامہ اب بہت مہنگا سودا بن گیا ہے۔ ایک عام آپ ڈرامہ بناتے ہیں۔۔۔۔ اچھا ہر ایک کی ڈیمانڈ ہے اس نے میں اے پلس کیٹیگری کے اداکارہ ہوں ۔۔۔۔ اسکرپٹ فلا ں لکھے۔۔۔۔ پروڈیوسر یہ ہو۔۔۔۔۔ ڈائریکٹر بھی ندیم بیگ ہو اس سے کم نہ ہو۔۔۔۔ اب یہ سارا آپ نے کر لیا۔۔۔۔۔ ہمایوں سعید کو بھی آپ نے کاسٹ کرلیا مہوش حیات کو بھی آپ نے کاسٹ کر لیا یا۔۔۔۔ ندیم بیگ کو بھی لے لیا آپ نے ۔۔۔۔ تیرہ قسطوں کا یہ سیریل چار سے پانچ کروڑ میں پڑتا ہے، پھر چار،چھ مہینے بعد جب اسے تیار کرکے آپ چینل کے پاس جاتے ہو تو چینل آپ کو کہتا ہےاچھا جی جب یہ ڈرامہ چلے گا اس قسط کے چلنے کے اس قسط کے پیسے دیں گے ۔۔۔ پہلے تو اس کی مرضی ہے کہ اس کو وہ شیڈول کرے نہ کرے، لیٹ کرے پھر آپ اس کی منت ترلے کرنے پر آ جاتے ہیں ۔۔۔۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اچھا جی آپ پیسے کم کر دیں تو میں ابھی چلا دیتا ہو ہوں۔۔۔۔ کیونکہ اتنی ریکوری نہیں ہو سکتی مارکیٹ خراب ہے۔۔۔۔ اچھا آپ کہتے تھے کہ آپ مجھے اس کا 30 فیصد ختم کردو ۔۔۔۔ 20 فیصد ختم کردو۔۔۔۔ اور یہ ایک سرکل چل جاتا ہے اب وہ پہلی مارچ کو جو انھوں نے قسط چلائی ہے تو اس کی مارچ اپریل مئی یعنی تین مہینے کے بعد آپ کی پیمنٹ ریلیز ہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے انوائس نہ بھیجے ۔۔۔۔اب جب آپ اس کے بعد انہیں بل بھیج رہے ہیں پندرہ بیس دن ان کا اکاؤنٹنٹ اپنی جگہ لے لیتے ہیں اور اس کو مزید بیس دن اس میں ایڈ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شق ڈال دے گا کہ جی اس میں تین منٹ کا تو صرف اس میں میوزک چل رہا تھا اینڈ میں۔۔۔ تو وہ تو ڈرامہ نہیں تھا تو اس کا بتائیں۔۔۔۔۔ اسے کیسے کیلکولیٹ ہونا ہے۔۔۔۔ بیسکلی انہوں نے آپ کی پیمنٹ ڈیلے کرنی ہے۔۔۔۔۔اور ہر قسط کا اس کے بعد ہوگا اور ہر قسط کا اس کے تین مہینے بعد ملیں گے۔۔۔۔ تو ایک عام آدمی کے جس نے پانچ کروڑ روپے کا ڈرامہ سیریل بنایا ہے اس کی کوئی ویلیو نہیں۔۔ اور جب آپ ترکی سے ہیں انڈیا سے ہیں ارطغرل منگواتےہیں۔۔۔۔تو انکی آپ ذرا دیکھیں کہ انویسٹمنٹ کیا ہے ۔۔۔۔ تیرہ اقساط کی سیریل کی پے منٹس میں دو سے تین سال لگ جاتے ہیں، تب تک بڑے آرام سے ڈالر کہیں کا کہیں روپیہ کہیں کا کہیں ایکیوپمنٹ جو امپورٹ کرنا تھا وہ کہیں کا کہیں ۔۔ رینٹل کا کوئی اور حساب۔۔۔ اور ہر جگہ پھنسے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ آپ کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں شوٹ کر رہے ہیں تو ہاوسنگ سوسائٹی کہتی ہے کہ ہمیں تو اتنا پیسا دو۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ لیگلی پیسہ نہیں لے سکتے۔۔صاف کہا جاتا ہے کہ ہماری حدود میں اگر شوٹ کرنا ہے تو اتنے پیسے دینے ہوں گے،،اب آپ جائیں بحث کرتے رہیں جا کر ۔۔۔۔ پہلے آپ اس کو پیسے دے پھر جس کی لوکیشن ہے آپ اس کو پیسے دیں۔۔۔۔ اس کے بعد فنکاروں کو پیسے دیں، انہیں کرایہ دیں، اوبر ،کریم کرائیں، دن میں دو سے تین بار کھانا کھلائیں، بار بار چائے بنوائیں اور پلوائیں۔۔۔۔پھر آپ جا کر جب آپ اپنا ایک ڈرامہ مکمل کرتے ہیں، لیکن جب اسی ڈرامے کو بیچنے کے لئے مارکیٹ میں نکلتے ہیں تو وہاں بڑے اژدھے پہلے سے براجمان ہوتے ہیں۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انٹرٹینمنٹ چینلز کے مالکان کو یہ سب کرنے سے کون روکے؟ موجودہ حکومت ہو یا کوئی بھی حکومت،ہر حکومت ریت میں سردبا کر بیٹھ جاتی ہے، کیوں کہ ہر انٹرٹینمنٹ چینل کے سیٹھ کا نیوز چینل بھی ہے، کچھ کے اخبارات بھی ہیں، حکومت ان سے ڈرتی ہے، کہ اگر ہم نے ان سے ادائیگیوں کا کہا تو یہ پھر ہمارے خلاف خبروں کی بھرمار کردیں گے۔ اب اس ملک میں اچھا ڈرامہ بناسکتے ہیں نہ اچھی فلم۔۔ اگر آپ نیوٹرل ہیں اور کچھ منفرد کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو بھول جائیں کہ آپ نے فلم یا ڈرامہ بنایا تو اس کی لاگت بھی واپس آئے گی۔۔ سمجھ لیجئے کہ انٹرٹیمنٹ انڈسٹری تباہ ہوچکی۔۔۔یہاں ڈرامہ اور انٹرٹیمنٹ کے نام پر اربوں روپے لوٹے گئے، ہنرمندوں کے گھروں کے چولہے بند ہوگئے، کام کرنے والے گھر بیٹھ گئے انہیں باعزت روزگار نہیں مل گیا، اور جو پرڈیوسر ہے، پیسہ لگانا چاہتا ہے اس دیوار سے لگادیا کہ اس نے بھی اب منہ موڑ لیا۔۔
کیا پیمرا اس پر ایکشن لے گا؟؟ ایسے چینلز،ایسے لوگوں کا محاسبہ کرے گا؟؟ پی ٹی وی کا ڈراموں میں ایک نام تھا، حقیقت میں بازار ویران ہوجاتے تھے، شادیاں لیٹ ہوتی تھیں کہ آٹھ بجے ڈرامہ آتا ہے رخصتی نوبجے کے بعد ہوگی۔۔۔آپ لوگ بتائیں کتنا عرصہ ہوگیا پی ٹی وی سے کوئی ہٹ ڈرامہ سامنے آیا ہو؟؟ عوام سے زبردستی لائسنس فیس لینے والے اس سرکاری چینل کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ارطغرل ترکی سے خرید کر ڈبنگ کرکے پیسہ کمارہا ہے۔۔
آج شب برات ہے اور بس دو ہفتے بعد رمضان المبارک کی آمدآمد ہے۔۔ رمضان نشریات میں اس بار کون کہاں میزبانی کرے گا۔۔ پپو کے مطابق جیو پر اس بار صنم جنگ میزبانی کے فرائض انجام دیں گی۔۔یاسرشامی کی افواہیں گرم تھیں کہ اس بار وہ کوہوسٹ ہوں گے لیکن پپو نے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یاسر شامی جیوکی رمضان ٹرانسمیشن میں صرف دس سے بارہ منٹ کا ریکارڈڈ سیگمنٹ کریں گے۔۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کررہے۔۔ پی ٹی وی پر افطار احسن خان اور سحرٹرانسمیشن رابعہ انعم کررہی ہیں۔۔ بول پر گزشتہ سال فہیم خان اور کرن ناز نے بہت اچھے انداز میں رمضان ٹرانسمیشن کی لیکن اس بار پپو کے مطابق اسامہ غازی اور ڈاکٹر فضہ اکبر یہ ذمہ داریاں سنبھالیں گے، پپو کا کہنا ہے کہ آج شب برات کی ٹرانسمیشن میں شاید بول والے اس خبر کو بریک بھی کردیں۔۔ اے آر وائی پر حسب روایت وسیم بادامی ہی ہوں گے۔۔ ایکسپریس پر عوامی اینکر عامر لیاقت رمضان ٹرانسمیشن کریں گے، رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے جو مقبولیت اور شہرت ماضی میں ان کی رہی ہے وہ اب آہستہ آہستہ دم توڑتی جارہی ہے۔۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔۔۔ جی ٹی وی پر باصلاحیت میزبان اویس ربانی رمضان ٹرانسمیشن کرینگے۔۔ نائنٹی ٹو نیوز پر جنید اقبال صاحب۔۔ دنیا نیوز پرانیق احمد ۔۔اے پلس پر شاید جگن کاظم اور قاسم علی شاہ ہوں گے۔۔ نیوز ون پر ساحر لودھی اور ٹی وی ون پر افطار مایا خان اور سحر ٹرانسمیشن شبیر ابوطالب کررہے ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے چینلز پر تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔۔اس بار بھی گیم شوز پر پابندی ہوگی جب کہ افطار اور سحر میں عوام کی کم سے کم شرکت سے متعلق پیمرا جلد ایس اوپیز جاری کردے گا۔۔
ہمیں یادہے جب ہم لاہور میں تھے ، اور ہم نے بول کے خلاف احتجاجی کمپین لانچ کی کہ سابق بول والاز کو واجبات کی ادائیگیاں کی جائیں تو ایسے میں چندلوگ ہمارے مدمقابل آکر کھڑے ہوگئے۔۔۔ہم احتجاج کرنے والے پروفیشنل صحافی تھے۔۔ ہمارے سامنے کھڑے ہونے والے پروفیشنل لیڈران تھے، انہوں نے پراپیگنڈا شروع کردیا کہ بول والوں کو ادائیگیاں شروع کردی گئی ہیں ۔۔ا ن چند لوگوں نے بول انتظامیہ کا ساتھ دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بے چارے آج تک واجبات کے منتظر ہیں۔۔ پپو کا دعوی ہے کہ کچھ لیڈران نما ٹاؤٹس پی بی اے (مالکان کی تنظیم) کے پے رول پر کام کرتے ہیں اور وہ جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اسی کے خلاف کمپین شروع کردیتے ہیں۔۔اب اگر ان پروفیشنل لیڈران سے کہا جائے کہ آپ لوگوں نے بول کی اسکرین پر آکر بڑے بڑے دعوے کئے تھے کہاں ہیں وہ دعوے؟؟ کتنے لوگوں کو آپ نے واجبات دلوادیئے؟؟ جب ورکرز اپنے واجبات کے لئے صف آرا ہورہے تھے تو کس کے کہنے پر انہوں نے اس مہم کو سبوتاژ کرنے کی ناپاک کوشش کی اور بلند بانگ دعوے کیوں کئے؟ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا بھی شرم نہیں آتی۔۔ آج بھی بول کے سینکڑوں لوگ واجبات کے منتظر ہیں لیکن مجال ہے کہ ان پروفیشنل لیڈران کے اندر غیرت نام کی کوئی چیز ہو۔۔انہی میں سے ایک لیڈر سے متعلق چند باتیں کرنے کا شدید موڈ ہورہا ہے، وہ صاحب جب میڈیا انڈسٹری میں آئے تھے تو ان کے “حالات” کتنے ناگفتہ بہ تھے یہ سب جانتے ہیں اور آج ان کا شاہانہ لائف اسٹائل بھی سب جانتے ہیں۔۔ موصوف سے متعلق کافی کچھ موجود ہے ، اگر ان کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے تو آمدن سے زائد نکلیں گے۔۔ اس حوالے سے ضرورت پڑنے پر متعلقہ اداروں سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔۔ کارکنان کے نام پر سودے بازی کرنے والوں پر تو لعنت بھیجنا بھی لفظ “لعنت” کی توہین ہے۔۔ان صاحب کی ٹوٹل لیڈری بلیک میلنگ سے شروع ہوکر بلیک میلنگ پر ہی ختم ہوتی ہے۔۔ اس کی تعلیمی اسناد چیک کرائی جائیں تو مشکل سے میٹرک ہی نکلے۔۔ جسے اردو لکھنے کی تمیز نہ ہو، جسے انگریزی کا ایک لفظ نہ آتا ہو۔۔ ایسے لیڈر ہوں گے تو پھر ورکرز کا جو حال ہوگا سب کے سامنے ہے۔۔ ان صاحب سے متعلق جلد ایک بھرپور قسط الگ سے دیں گے۔۔ کہ ان کی بلیک میلنگ کا انداز کیا ہے، کیسے میڈیا مالکان سے مل کر اپنے الو سیدھے کرتے ہیں۔۔ اب کسی کے لئے کوئی رعایت نہیں ہوگی۔۔
سکھر میں صحافی اجے لالوانی کو مبینہ طورپر قتل کرنیوالے غلام اکبر مانگریوکو لاہور کے ریلوے سٹیشن سے گرفتار کرلیاگیا، پولیس کاکہناہے کہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد ملزم کو سکھر منتقل کیاجائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سکھر اور لاہور پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ملزم پکڑاجس کے بعد نولکھا پولیس نے ملزم کوسکھر پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کردیا جس پر دونوں پارٹیوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ بتایاگیا ہے کہ ملزم کا اس کے موبائل فون کے ذریعے سراغ لگایاگیا،وہ پولیس کو ایک اور کیس میں بھی مطلوب تھا۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سکھر پولیس نے جمعہ کو ملزم کے آبائی گھر تھمی میں چھاپہ مارا لیکن وہ اپنی فیملی کیساتھ بھاگنے میں کامیاب ہوگیا، ملزم کی شناخت اجے لالوانی کے گھر کے قریب لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج سے ہوئی تھی جس میں وہ گھر کی ریکی کرتے دیکھاگیا، صرف یہی نہیں بلکہ فائرنگ کرنیوالے افراد کو منگریو کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتاہے۔دریں اثنا پولیس نے اجے للوانی کے قتل میں مزید چار ملزمان کو بھی گرفتار کرکے آلہ قتل برآمد کرلیا۔پولیس کے مطابق گرفتار ملزم رضا شاہ، جمیل شاہ نے اجرتی قاتلوں سے اجے لالوانی کو قتل کروایا۔ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان میں اکبر منگریو، جانب میرانی بھی شامل ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان سے مزید تفتیش جاری ہے۔یادرہے کہ ایک حجام کی دکان پر تقریباً دس دن قبل ہونیوالی فائرنگ میں صحافی شدید زخمی ہوگیاتھا اور ایک دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد سول ہسپتال میں چل بسے تھے۔
پپو نے نیوزون سے متعلق ایک عجیب کہانی سنائی ہے۔۔ یہ نیوز ون کے ایک ایسے پرانے ورکر نے سنائی ہے جو کافی عرصے سے یہاں ملازم ہے اور کافی گہری نظروں سے وہاں ہونے والے معاملات بھی دیکھتا رہتا ہے لیکن چونکہ ملازم ہے اس لئے احتجاج کرسکتا ہے نہ کسی جگہ ” کوٹ” کرسکتا ہے، اس لئے ان صاحب نے نام نہ بتانے کی شرط پرکچھ باتیں ہم سے شیئر کی ہیں۔۔ حافظ طارق صاحب ایک ورکردوست انسان ہیں، نیوزون کے ایم ڈی ” ایس جے” صاحب کے متعلق اسی قسم کی اطلاعات ہیں کہ ان تک جب کسی کارکن کا کوئی مسئلہ پہنچتا ہے تو وہ اسے فوری حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر سمجھ نہیں آتا ہے کہ معاملہ کہاں گڑبڑ ہے؟ کارکنان کو شکایات کیوں ہیں۔۔ چلیئے نیوزون کے پرانے کارکن کی زبانی اس کی باتیں سنتے ہیں۔۔۔ “وزیراعظم کے سابق مشیر اور بے تحاشہ کمپنیوں کے مالک طاہر اے خان صاحب ان دنوں کنسٹرکشن کے کاروبار میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں جنہوں نے بے شمار پلازہ اور بلڈنگ تعمیر کی لیکن یہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ جو ان کا سابقہ خاندانی کاروبار میڈیا سے تھا اسی پیسے کو استعمال کرکے آج یہ ترقی کر رہے ہیں جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔۔(اعتراض کو کسی کو بھی نہیں ہونا چاہیئے اگر کوئی شخص محنت کرکے ترقی کررہا ہے)۔۔بدقسمتی سے میں ان کے چینل نیوز ون میں گزشتہ ۔۔۔ سال سے کام کر رہا ہوں ۔۔(سال ہم نے حذف کردیا مبادا کہیں چیک کرنے پر اس کی نشاندہی نہ ہوجائے)۔ پچھلے سالوں کی تنخواہوں کا ذکر نہ کیا جائے تب بھی موجود دور میں سات مہینے سے زیادہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں یہاں تک تو دکھ اور افسوس کیا جاسکتا ہے لیکن جب ہمیں پتہ چلا کہ کراچی پریس کلب کے لوگ مظاہرہ کرنے آ رہے ہیں مرحوم رپورٹر ایس ایم عرفان کی برسی پر تو ہمیں کوئی امید جاگی کہ شاید اب کچھ ہو جائے گا یہ مرحوم وہی رپورٹر ہیں جن کو تنخواہ نہ ملنے پر ہارٹ اٹیک آگیا تھا بعد میں پتہ چلا کہ ان کے بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا فیس نہ دینے کی بنیاد پر اور کرایہ والا گھر بھی خالی کروا لیا تھا خیر ان کے مرنے کے بعد جو وعدے ہوئے ان میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں ہوسکا خیر لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ان پریس کلب والوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے تنخواہیں سب کی ادا کر دی ہیں حقیقت میں کچھ من پسند رپورٹر ۔۔ڈیسک کے لوگ اور ڈپارٹمنٹ کے انچارج ہیں جو کہ ورکروں سے سختی سے کام لے سکیں اسی لئے ان کو ادائیگی کردی گئی ہے باقی بیچارے کیمرہ مین ایڈیٹر سیٹلائٹ اور ایچ آر کے ہم لوگ پریشان ہیں ہم پیشتر لوگ ملیر سے یہاں طارق روڈ تک آتے ہیں جس کا پیٹرول ڈیڑھ سو روپے روزانہ بنتا ہے کم از کم۔ کیونکہ دفتر میں کوئی سہولت موجود نہیں ہے لہذا کھانا اور چائے بھی اپنی جیب سے ہی لینا پڑتا ہے جو ملا کر تقریبا تین سو ایک دن کے بن جاتے ہیں۔ اب آپ ہمیں بتائیں کہ اگر ہمیں وقت پر تنخواہ نہ ملے تو کس طرح آسکتے ہیں ہم روزانہ ٹائم پر؟؟اگر چھٹی کرنے کے بعد یہ بتایا جائے کہ پیٹرول کے پیسے نہیں تھے اس لئے نہیں آ سکے دفتر ،تو اظہار وجوہ کا نوٹس مل جاتا ہے فورا ۔۔میں آپ کو کیا حالات بتاؤں، ایک ہمارے دوست کی 2020 میں طلاق ہوگئی ہے اس کی بیوی چھوڑ کر چلی گئی جب کما نہیں سکتے تو شادی کیوں کی تھی اس کے علاوہ ایک اور کیمرہ مین کے گھر میں یہی معاملات چل رہے ہیں گزشتہ سال ہمارے ڈی ایس این جی آپریٹر کو بغیر تنخواہیں دیئے نکال دیا گیا تھا وہ جب سے ڈپریشن میں نیند کی گولیاں کھا رہا تھا بالآخر ایک حادثے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اگر کوئی پریس کلب کا ممبر ہے تو اس کو وہاں سے سپورٹ مل جاتی ہے لیکن ہم ٹیکنیکل اسٹاف ایچ آر کہاں جائیں کس کو فریاد کریں کس کے سامنے گڑگڑائیں روئے آنسوبہائیں؟؟ ہمارے لئے اظہار رائے کی آزادی کا مسئلہ ہوگا نہ میڈیا کا مسئلہ اگر ہمارے میں سے کوئی یہ کہہ دے کہ ہمیں تنخواہ نہیں مل رہی تو فوری طور پر اسے نکال دیا جائے گا ویسے بھی2021 کے لئے بہت سے لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے جن کو مختلف بہانوں سے نوکری سے نکالا جائے گا اگر یہ میری باتیں ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان تک پہنچ جائیں ہمارے وزیر اطلاعات تک پہنچ جائیں یا محتسب اعلی یا کسی اور اعلی حکام تک پہنچائیں تو ہم ان کو آخرت میں بہت زیادہ دعاؤں کے سبب عالی مقام دلوا سکتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر روز محشر ان کا بھی گریبان پکڑ کے سوال کیا جائے گا ۔۔”پپو کے مطابق رپورٹرز کے علاوہ باقی تمام ورکروں تنخواہوں کے مسئلے سے دوچار ہیں۔۔ابتک 300 لوگوں میں سے صرف من پسند 37 لوگوں کا حساب کلیئر ہے باقی سب ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔۔
اب ذکرٹوئنٹی فور نیوزکراچی بیورو کا۔۔پپو اکثر ہمیں چھیڑتا ہے کہ اس چینل میں تو آپ کے دوست ہیں ، آپ کو یہاں کی خبریں دیتا ہوں آپ لگاتے کیوں نہیں؟ پپو کی یہ صرف باتیں ہی ہیں، ورنہ پپو کو ئی ایک مثال نہیں دے سکتے کہ کون سی خبر انہوں نے دی اور ہم نے نہ لگائی ہو، دوستی اپنی جگہ لیکن خبر اپنی۔۔ کیا ٹوئنٹی فور کی اسکرین پر محسن نقوی صاحب کے دوستوں کے خلاف خبریں نہیں چلتیں؟؟ پپو کو ہم یہی سمجھاتے ہیں کہ گھوڑا اگر گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟؟ خبریں ہمارے لئے گھاس ہیں اور ہم سب گھوڑے۔۔اگر ہم خبریں نہیں دیں گے تو پھر ہمیں اپنی ویب سائیٹ بند کردینی چاہیئے۔۔کسی بھی میڈیا ہاؤس میں اچھا ہو یا برا، ہم تک خبر پہنچے گی تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اسے لازمی آپ لوگوں سے شیئر کریں۔ الحمدللہ ، یہی وجہ ہے کہ عمران جونیئر ڈاٹ کام اب ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا میں ایک برانڈ بن چکا ہے اور اپنی ایک اچھی ساکھ رکھتا ہے، جب میڈیا کے لوگ ہماری خبروں پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں اور میڈیا انڈسٹری سےمتعلق پھیلنے والی ہر افواہ یا نیوز کی تفصیل جاننے کے لئے ہماری ویب سائیٹ کا رخ کرتے ہیں تو ہم اپنے پروردگار کا شکر کیوں نہ بجالائیں؟؟ قریبی احباب جو کل تک ہمیں میڈیا کی مخبریاں شائع کرنے پر برابھلاکہتے تھے اب تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔۔ اور برملا کسی بھی محفل میں ملاقات پر ہماری مستقل مزاجی اور محنت کو داد بھی دیتے ہیں کہ ۔۔تم نے اپنی محنت کے بل بوتے پر میڈیا سےمتعلق ویب سائیٹ کو ایک برانڈ بنادیا۔۔ جس پر ہمارا کہنا ہوتا ہے کہ ۔۔ محنت گدھے سے زیادہ کوئی نہیں کرتا لیکن وہ پھر بھی گدھا ہی کہلاتا ہے۔۔ اس ویب سائیٹ کے برانڈ بننے میں ہماری محنت کو بالکل سائیڈ پر رکھ دیں، یہ صرف میرے مولا کا کرم ہے۔۔ ہرلمحہ ہمارے لبوں پر نعت رسول کا ایک مصرع ہوتا ہے۔۔ یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔۔
بات ہورہی تھی ٹوئنٹی فور کے کراچی بیورو کی۔۔۔ گزشتہ دنوں وہاں سے ایک خاتون رپورٹر کو فارغ کردیاگیا۔۔ان محترمہ نے شعبان کا چاند نظر آنے کی غلط بریکنگ دے دی تھی۔۔ چاند نظر نہیں آیا تھا لیکن محترمہ نے ٹکرز چلوادیئے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کئی سال سے کام کررہی تھیں، لیکن چونکہ یہ محترمہ کا میڈیامیں جاب کے حوالےسے پہلا چینل تھا، اس سے پہلے انہوں نے کبھی کسی جگہ نوکری نہیں کی تھی، اس لئے تجربے کی کمی آڑے آتی تھی، پپو کے مطابق محترمہ اپنی غلط خبر پر ڈٹ گئی تھیں، اور دیگر چینلز کے اسکرین شاٹ بھی اپنی صفائی میں پیش کررہی تھیں کہ وہاں بھی یہ خبر چلی ۔۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ محترمہ نے موسمیات کے حوالےسے چاند نظر آنے کی خبر دی۔۔ جب کہ چاند کی نیوز صرف رویت ہلال کمیٹی یا اس کے ذرائع سے ہی مصدقہ کہلاتی ہے۔۔محترمہ کے حوالے سے پپو نے کافی کچھ باتیں ہمیں بتائیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سب باتیں کرنا مناسب نہیں، ہم نے اسی پوائنٹ کو ڈسکس کیا، جس پوائنٹ پر محترمہ کو ادارے نے قصور وار ٹھہراتے ہوئے نوکری سے فارغ کیا۔۔ پپو نے ٹوئنٹی فور کے حوالے سے ایک اور دلچسپ مخبری یہ دی کہ۔۔ اس ادارے کا ایک ٹرینی خوبرو اسائنمنٹ ایڈیٹر اب جی ٹی وی چلاگیا ہے۔۔ وہ جب تک ٹوئنٹی فور کے کراچی بیورو میں رہا تو کارکنان میں کافی مقبول بھی رہا۔۔ پپو کے مطابق ٹوئنٹی فور کے کئی رپورٹرز سے وہ رابطے میں رہتا ہے اور کئی خبریں یہ رپورٹرز بمعہ ٹکرز اپنے سابق ساتھی کو واٹس ایپ کرتے ہیں۔۔ چونکہ اسائنمنٹ ایڈیٹر ابھی ٹھیک سے ” پکا” نہیں اور ٹریننگ میں کچا ہی رہ گیا، وہ بے چارہ ان ٹکرز کو ویسے ہی بغیر کچھ قطع و برید کے جی ٹی وی کی اسکرین پر چلوادیتا ہے۔۔ جس کا ٹوئنٹی فور میں نوٹس لے لیا جاتا ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ جی ٹی وی پر کئی خبریں ٹوئنٹی فور کراچی بیورو کے رپورٹرز کی چلتی ہیں۔۔ٹکرز بھی انہیں چند رپورٹرز کے چلتے ہیں۔۔ اگر کراچی بیوروکے ذمہ داران اپنے رپورٹرز کے واٹس ایپ چیک کریں تو ثبوت و شواہد باآسانی ہاتھ لگ سکتے ہیں۔۔ٹوئنٹی فور کراچی بیورو کی ہی ایک اور دکھ بھری لیکن دلچسپ مخبری پپو نے یہ بھی دی ہے کہ۔۔سینیٹ کے الیکشن کے دوران جب سندھ اسمبلی میں ووٹ کاسٹ ہونے تھے تو کراچی بیورو والے پریشان تھے، سندھ اسمبلی کے تین گیٹ تھے، ایک ٹیراٹیک ، ڈی ایس این جی خراب، بھرپور کوریج کیسے ہوگی؟؟ ڈی ایس این جی کے انجن میں گڑبڑ تھی جس کی وجہ سے اسے چلایا نہیں جاسکتا تھا یہ آفس پر ہی کھڑی رہتی تھی۔۔ چنانچہ کراچی بیورو والوں نے تگڑم لڑائی اور اسے ایک کار سے ٹوہ کرکے رات کو سندھ اسمبلی کے سامنے کھڑا کردیا اور اگلے دن بھرپور کوریج کی۔۔ پھر رات کو اسی طرح ٹوہ کرکے واپس آفس لے آئے۔۔پپو کے مطابق محسن نقوی صاحب کو اس بات کا علم ہوگیا تو انہوں نے کراچی کے ذمہ داران کو ٹھیک ٹھاک سنائی، اب نہ صرف ڈی ایس این جی ٹھیک ہوچکی ہے بلکہ دیگر گاڑیوں کی خرابیاں بھی دور کردی گئی ہیں۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں دس بارہ موٹرسائیکلیں بھی کراچی بیورو کے اسٹاف کو دی گئی ہیں۔۔ کراچی بیورو کے حوالے سے خبریں اور بھی ہیں لیکن کچھ باتیں اگلی بار کے لئے بھی رکھتے ہیں۔۔
اب تک نیوز کی معروف اینکر فریحہ ادریس سے متعلق پپو نے بتایا ہے کہ وہ جلد اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ جی این این جانے والی ہیں۔۔ پپو کے مطابق فریحہ ادریس ابھی دبئی جارہی ہیں لیکن اپنی ٹیم کو کہہ گئی ہیں کہ وہ سب تیاری کرلیں وطن واپسی کے بعد وہ اس کا باقاعدہ اعلان کریں گی۔۔آج کے لئے اتنا ہی، چونکہ کافی لمبے گیپ کے بعد یہ قسط لکھی گئی ہے، اتنا طویل لکھنے کی عادت نہیں رہی، زندگی رہی تو رمضان المبارک میں نئی قسط کے ہمراہ پھر حاضری دیں گے، ابھی اور بہت کچھ ہے، کافی مخبریاں ایسی ہیں جس کے نہ لگانے پر پپو سے الگ سننی پڑسکتی ہے۔۔ بہرحال تھوڑے لکھے کو بہت جانیں۔۔ اپنا خیال رکھئے اور دعاؤں میں یاد رکھئے۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔
نوٹ: یہ بلاگ عرصہ پانچ سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ ہم دانستہ یا ناداستہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ ہماری تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچے، ہمارا مقصد صرف اور صرف میڈیا پر ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے،واضح رہے کہ یہ میڈیا انسائٹس کے حوالے سے ایک ذاتی بلاگ ہے ،جس سے اتفاق کرنا آپ کے لئے لازمی نہیں ہے۔۔(علی عمران جونیئر۔۔)