Seena ba Seena 104

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 104

سینہ بہ سینہ قسط نمبر 104

دوستو،ایک بار پھر آپ کے پسندیدہ ترین سلسلے سینہ بہ سینہ کی نئی قسط کے ساتھ حاضر ہیں۔۔ ویب پر خبریں تو روزانہ ہی لگتی رہتی ہیں، کبھی کبھار پپو کوئی بڑی بریکنگ بھی دے دیتا ہے ، درجنوں ویب سائیٹس ہماری خبروں کو لفٹ کرتے ہیں ،کاپی پیسٹ مافیا واٹس ایپ کے نیوزگروپوں میں ان خبروں کو خود ہی پھیلادیتا ہے۔۔لیکن ہمارے احباب کا کہنا ہے کہ جو مزہ سینہ بہ سینہ میں پپو کی مخبریوں میں آتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔۔ ہفتہ  کے روز کراچی پریس کلب میں فیملی فیسٹول تھا، ہم بھی وہیں موجود تھے۔۔ یقین کریں کوئی تیس سے چالیس کے قریب لوگوں نے وہاں پوچھا کہ سینہ بہ سینہ کب ریلیز ہورہا ہے حالانکہ ہم ٹیزر ڈال چکے تھے لیکن رات کو کس وقت ریلیز ہونا تھا وہ ٹائم ڈالنا شاید بھول گئے تھے۔۔ سب کو بتایا کہ رات دس بجے ہی آئے گا۔۔ اس کے بعد پپو کی مخبریوں پر تبادلہ خیال کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔۔ ہم سب کو یہی سمجھاتے رہے کہ جتنا پپو ہمیں بتاتا ہے ہم اتنا ہی لکھ دیتے ہیں، کوئی بھی مخبری ہماری اپنی نہیں ہوتی۔۔ نہ ہمیں ایسا کوئی شوق ہے بس پپو کی دوستی میں یا پپو کی محبت میں لکھےجارہے ہیں، لکھے جارہے ہیں۔۔چلیں باقی باتیں بھی ہوتی رہیں گی، ایک بات جس نے تکلیف پہنچائی اس کا بھی ذکر کرتے چلیں۔۔

میڈیا انڈسٹری کا ایک نام ہے، موصوف جیونیوز میں تھے تو کیا تھے اس کے بعد وہ جن جن اداروں میں گئے ،ہر ادارے میں جو داستانیں چھوڑیں وہ ایک الگ ہی داستان ہے۔۔ آج کل ایک چھوٹے سے چینل کے بڑے عہدے پر فائز ہیں۔۔ لیکن ذہنی سطح چھوٹے پن کی انتہا کو چھورہی ہے۔ ۔اس چینل کے کچھ خیرخواہوں کو جب پتہ لگا کہ  عمران جونیئر آٹھ  ماہ سے بیروزگارہے اور گھر بیٹھا ہے تو اپنے طور سے انہوں نے ہمارے لئے اپنے ادارے میں کوششیں تیز کردیں، ادارے کے ایم ڈی سے لے کر انتظامی امور کے تمام بڑے افسران یہاں تک مالکان نے ہمارے لئے گرین سگنل دیا، ہم نے پھر اپنے خیرخواہوں کو سمجھایا کہ سب کو یہ بھی بتادو کہ وہ میڈیا کے حوالے سے ایک ویب چلاتا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ کہیں سے پریشر آئے اور وہ برداشت نہ کرسکیں، یہاں میں کریڈٹ دونگا اپنے بڑے بھائی اور دائمی باس عثمان بھائی اور نیونیوزکے چیئرمین چودھری عبدالرحمان صاحب کو کہ انہوں نے نیونیوزمیں ساڑھے تین سال مجھے برداشت کیااور نہ صرف برداشت کیا، بلکہ مجھے نوکری سے نکلوانے کے لئے آنے والے تمام پریشر کو بھی برداشت کیا، نوکری سے نکلوانے کی کوشش کرنے والوں میں شعیب شیخ(بول کے مالک)، عامر لیاقت (عوامی اینکر) سمیت کئی بڑے بڑے نام تھے، درجنوں لوگوں نے کوشش کی کہ کسی طرح ان کے خلاف لگی خبر ویب سے ہٹ جائے وہ بھی نہ ہوسکا۔۔خبریں ہٹانے کے لئے وہ عثمان بھائی اور نصراللہ ملک صاحب کو کئی فون کرتے ،لیکن دونوں صاحبان فون کرنے والے سے معذرت کرلیتے،انکا موقف ہوتاکہ  عمران جونیئر کی ویب اور اس کے پپو کی مخبریاں اس کے پرسنل کام ہے، اس سے ہمارا یا ہمارے ادارے کا کوئی تعلق نہیں۔۔ ہمارے خیرخواہوں نے چینل کے تمام بڑوں کو وہی تحفظات بیان کئے جو ہم نے بتائے تھے جس پر کہا گیا کہ ، کوئی مسئلہ نہیں، آنے دو، اگر وہ ہمارے ادارے میں بیٹھ کر ہمارے خلاف بھی لکھے گا تو ہمیں کوئی پرابلم نہیں۔۔ ہمیں بس ہمارا کام چاہیئے جو ذمہ داری اسے دینگے پوری کرتا رہے۔۔ اب فائنل رضامندی  ان صاحب کی لینی تھی جو وہاں ایک اہم عہدے پر براجمان ہیں، موصوف کے سامنے جیسے ہی ہمارا نام آیا ، فوری ری ایکشن دیا کہ۔۔ بلیک میلر ہے یہ، اسے کہاں بلارہے ہو۔۔ یہ پیغام ہم تک من و عن پہنچادیا گیا۔۔مجھے یاد نہیں کہ میری ذات سے انہیں کبھی تکلیف پہنچی ہو، ان کے کئی معاملات پپو کے توسط سے مجھ تک پہنچے لیکن میری نظر میں ان کا احترام تھا، اس لئے نظرانداز کیا، ہاں البتہ ایک خاتون کی وجہ سے شاید انہوں نے اپنے دل میں کوئی گرہ پال لی ہے۔۔ خیر۔۔اب سے موصوف کا احترام ختم، موصوف کو چیلنج کررہے ہیں کہ ایک آنے کی بلیک میلنگ ثابت تو کریں ذرا۔۔ ورنہ ہمارے پاس بہت کچھ ہے ثابت کرنے کو۔۔ جیونیوز میں آپ کیا تھے، اب آپ کیا ہیں؟ کسی بھی نئے چینل میں نوکری لینے کے لئے کہاں تک چلے جاتے ہیں اور کس کس کی ترلے منتیں کرتے ہیں۔۔ کتنی “اوپر” سے آتے ہیں۔۔آپ کے متعلق مارکیٹ(میڈیا انڈسٹری) میں کیا مشہور ہے؟ ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں آپ خود اپنے چہیتوں اور گرگوں سے پتہ لگوا لیں۔۔ جیونیوزسے نکلنے کے بعد سما سے لے کر موجودہ ادارے تک آپ نے ہمیشہ ہائرنگ میں ایک مخصوص طبقے کو نوازا ہے۔۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے، آپ کے حوالے سے میڈیا کے لوگ کہتے ہیں۔ باتیں تو اتنی ہیں کہ آج کا سینہ بہ سینہ صرف آپ کے نام ہی ہوسکتا ہے۔۔ مجھے دلی افسوس ہوا کہ آپ کو ایک باشعور، پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا انسان سمجھتا تھا لیکن آپ نے اتنا گرا ہوا الزام مجھ پر لگادیا کہ میں بلیک میلنگ کرتا ہوں۔۔ یہ سب لکھنے کا مقصد احتجاج ریکارڈ پر لانا تھا اور آپ کو چیلنج کرنا تھا کہ ۔۔ بلیک میلنگ کا کوئی ایک کیس سامنے لے آئیں میں صحافت ہی چھوڑ دونگا۔۔ آپ خود اتنے اداروں میں رہے، پچھلے دو سال میں چار ادارے آپ نے تبدیل کئے(ہماری ویب سائیٹ کو اتنا ہی عرصہ ہوا ہے)کبھی آپ کو بلیک میل کیا ہوتو وہ بتادیں؟ ؟   الزام برائے الزام کے بجائے سچ سننے اور سچ کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں،  آپ بھی فیلڈ میں ہیں اور میں بھی فیلڈ میں ایک عرصہ گزار چکا ہوں ۔۔ ہماری فیلڈ اتنی چھوٹی ہے کہ سب کو ایک دوسرے کا پتہ ہوتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے؟ کیسے پیسے بنارہا ہے؟ کتنی کرپشن کررہا ہے؟  کہاں پیسے لٹا رہا ہے؟ کس لڑکی کو آسرے دے رہاہے؟ کون کون سے سائیڈ بزنس کررہا ہے؟کس کا لائف اسٹائل پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے؟  کس کے اسٹیٹس میں کتنا فرق آیا ہے؟۔۔۔ذہن میں اچھی طرح بٹھا لیں  ہر صحافی بکاؤ نہیں ہوتا،سب بلیک میلر نہیں ہوتے۔ کچھ میری طرح کے سرپھرے ہوتے ہیں۔۔چلیں آج آپ کے حوالے سے بھی تھوڑی بہت مخبریاں دے دیتے ہیں ، پپو کے مطابق  جس روز عمران بھائی آپ کو اپنے ادارے میں آنے سے انہوں نے منع کیا اس سے اگلے ہی روز ان صاحب سے ہائرنگ اور فائرنگ کے اختیارات مالکان نے لے لئے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ  ادارے کی پہلی سالگرہ پر موصوف کے رائٹ ہینڈ کو اچانک نکال دیاگیا جو پر وہ اتنا تلملائے کہ اسلام آباد سے فوری کراچی دوڑے چلے آئے، لیکن انہیں انتظامیہ کی جانب سے بتادیاگیا کہ اب آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ اب ان صاحب کا حال یہ ہے کہ وہ خود ادارہ چھوڑدیں تو انتظامیہ خوش ہوگی  جب کہ موصوف کی کوشش  ہے کہ کسی طرح انہیں فائر کردیاجائے تاکہ کچھ “مراعات” تو مل سکے۔۔ اس حوالے سے مزید اپ ڈیٹ آپ کو دیتے رہیں گے۔۔

چلیں اب میڈیا بحران کا بھی کچھ ذکر ہوجائے۔۔ دنیا نیوزکے بعد آپ نیوز نے بھی برطرفیاں کردیں۔۔تین ستمبر کو دنیا نیوز کا لاک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی گئی جو ہمارے خیال میں مکمل ناکام رہی۔۔ یہ بات خوش آئند تھی کہ صحافتی تنظیموں کے تمام گروپس یکجان اور یکجا نظر آئے، سب کا یک نکاتی ایجنڈا تھا ، لیکن اسٹرٹیجی نظر نہیں آئی، چینل اسی طرح چلتا رہا ،لوگ کام کرتے رہے۔۔ جس سے صاف طور سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اندر کام کرنے والے لوگوں کو باہراحتجاج کرنے والوں پر رتی برابر بھی اعتماد نہیں تھا۔۔ ذوالفقار مہتو صاحب اور زاہد عابد صاحب کو سلام کہ ببانگ دہل احتجاج میں حصہ لیا،لیکن دونوں حضرات سے چھوٹی سی گزارش ہے کہ اپنی صفوں میں “ٹاؤٹس” پر بھی نظر رکھیں۔۔ ہمیں یادہے جب ہم لاہور میں تھے ، دو سال پہلے ہم نے بول کے خلاف احتجاجی کمپین لانچ کی کہ سابق بول والاز کو واجبات کی ادائیگیاں کی جائیں تو ایسے میں چندلوگ ہمارے مدمقابل آکر کھڑے ہوگئے۔۔۔ہم احتجاج کرنے والے پروفیشنل صحافی تھے۔۔ ہمارے سامنے کھڑے ہونے والے پروفیشنل لیڈران تھے، انہوں نے پراپیگنڈا شروع کردیا کہ بول والوں کو ادائیگیاں شروع کردی گئی ہیں ۔۔ا ن چند لوگوں نے بول انتظامیہ کا ساتھ دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بے چارے آج تک واجبات کے منتظر ہیں۔۔ پپو کا دعوی ہے کہ کچھ لیڈران نما ٹاؤٹس پی بی اے (مالکان کی تنظیم) کے پے رول پر کام کرتے ہیں اور وہ جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اسی کے خلاف کمپین شروع کردیتے ہیں۔۔ خیر ان ساری باتوں کو یہاں کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اب جو احتجاجی مہم آپ لوگ شروع کررہے ہیں اس میں باکردار لوگوں کو صف اول میں جگہ دیں اور ان کے فیصلوں کو تسلیم بھی کریں۔۔ ورنہ ہر بار کی طرح اس بار کی ریاضت بھی ضائع ہی جائے گی اور فائدہ صرف مالکان کو پہنچے گا۔۔

برطرفیوں کے حوالے سے ہم نے گزشتہ قسط میں بتایا تھا کہ اب مزید چینلز بھی برطرفیوں کا سیزن چلائیں گے، پھر آپ لوگوں نے دیکھا بھی کہ آپ نیوز نے پہل کردی۔۔اسی حوالے سے پپو ایک انسائیڈ اسٹوری بھی لایا ہے۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ پی بی اے کےایک خفیہ اجلاس میں جس میں سات چینلز کے مالکان شریک تھے۔۔ اس میں مستقبل کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کئے گئے۔۔ ورکرز کی برطرفیاں، تنخواہوں میں مزید کمی کے دونکاتی ایجنڈے پر سب نے اتفاق کیا۔۔ پپو نے بتایا کہ طے یہ پایا ہے کہ پی بی اے کے تمام  اراکین اپنے اپنے چینلز میں نائٹ شفٹ کا خاتمہ کریں گے۔۔ اس حوالے سے جلد خبریں آنا شروع ہوجائیں گی۔۔ پپو کے مطابق ۔۔اجلاس میں بھی طے کیا گیا کہ کسی بھی ایونٹ میں پی بی اے کے اراکین چینلز میں سے کسی ایک چینل کی ڈی ایس این جی جایا کرے گی، مثال کےطور پر اگر بلاول بھٹوکی پریس کانفرنس ہے تو ہر چینل اپنی اپنی گاڑی نہیں بھیجے گا بلکہ صرف ایک سیٹلائٹ وین جائے گی۔۔ جو تمام چینلز کو اس کی فوٹیج دے گی اور سب کو لنک دے گی تاکہ سب اسے لائیو دکھا سکیں۔۔ اب خود سوچیں تینتالیس نیوز چینلز ہیں جس میں سے نوے فیصد پی بی اے کے اراکین ہیں ، ایک گاڑی جانے سے کتنے لوگ  فارغ ہوجائیں گے، آہستہ آہستہ ان لوگوں کو ادارے میں بوجھ سمجھا جائے گا اور پھر انہیں نکال دیا جائے گا۔۔ پپو کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ جن  اراکین کے چینل اور اخبار بھی  ہیں، وہ سینٹرلی نیوز روم بنائیں۔۔مثال کے طور پر جیو نیوکا الگ سیٹ اپ ہے اور جنگ کا الگ۔۔ اب ہوگا یوں کہ سینٹرلی نیوزروم میں کراچی بیورو ہوگا تو اس میں جنگ کے پانچ اور جیونیوزکے پانچ رپورٹر ہوں گے، باقی کو فارغ کردیاجائے گا۔۔ پپو کےمطابق ایسا ہی نظام ایکسپریس نے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بری طرح ناکام رہا۔۔ اس حوالے سے پپو نے مزید بھی بہت کچھ بتایا ہے لیکن فی الحال آپ لوگوں کو اتنی ہی “ڈوز” دی جارہی ہے جتنا آپ ہضم کرسکیں۔۔اس حوالے سے باقی باتیں پھرکبھی سہی۔۔

چلیں جی دوبارہ سے ہم نیوز پر کچھ بات کرلیتے ہیں۔۔ اور ہیٹ ٹرک مکمل کرلیتے ہیں کیونکہ مسلسل تیسری قسط میں ہم نیوز پپو کے نشانے پر ہے، ہمیں حیرت ہے کہ پپو کیوں ہم نیوز میں اتنا انٹرسٹ لے رہا ہے، جب پپو سے یہی سوال کیا تو وہ ایک آنکھ میچ کر مکروہ مسکراہٹ کے  ساتھ کہنے لگا۔۔عمران بھائی، میں ایک اچھے ادارے کو تباہ و برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔۔اس سے پہلے کہ ہم پپو پر اگلا سوال داغتے پپو نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں منع کیا اور کہنے لگے، آپ کو یاد ہوگا آپ نے گزشتہ سال نومبر یا دسمبر میں اپنی ویب سائیٹ پر ایک تحریر لکھی تھی۔۔ہم نیوز بول بننے جارہا ہے۔۔ ہم نے اثبات میں گردن ہلائی تو پپو بولا، میرا دعوی ہے کہ اب ہم نیوز “کیپٹل نیوز” بننے جارہا ہے۔۔ کیوں کہ جی ایم ایڈمن،مالک صاحب کے رائٹ ہینڈ کے بعد اب ایک اور صاحب کو ہم نیوز لایا جارہا ہے جس کا عہدہ شاید ڈائریکٹر نیوز کا ہو۔۔ یہ تینوں وہ لوگ ہیں جنہوں نےایک اچھے بھلے چینل کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اور یہ تکون اب یہاں بھی بننے جارہی ہے۔۔ اس کے بعد پپو نے ہم نیوز کی تازہ مخبریاں اسٹارٹ کردیں، چلیئے آپ کو بھی پپو کی مخبریوں میں سے کچھ کا جلوہ کراتے ہیں۔۔

گزشتہ قسط میں ہم نیوز سے متعلق چند مزید حقائق آنے کے بعد ہیڈآفس میں مزید پیش رفت دیکھنے میں آئی، پپو کا کہنا ہے کہ مالک صاحب سے کچھ اختیارات لے کر ایک اور صاحب کو دیئے گئے ہیں جو ہم گروپ میں کافی پرانے ہیں، اب وہ صاحب براہ راست کنٹرولر نیوز سے حال احوال بھی پوچھتے ہیں اوران کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کنٹرولر صاحب اپنا زیادہ وقت فلور پر ہی گزاریں، دوپہر کو اچانک غائب ہونے والی روایت بند کردیں۔۔رائٹ ہینڈ اور پروڈکشن ہیڈ گزشتہ قسط کے بعد کافی بوکھلائے بوکھلائے سے دکھائی دیتے ہیں۔۔ پپو نے مخبریوں کے دوران ہمیں ایک دلچسپ تبصرہ سے  بھی نوازا ، کہنے لگا۔ ہم نیوز والوں کو اپنے سینہ بہ سینہ میں لکھ دینا کہ پپو کو ڈھونڈنے کا کام بندکرائیں کیوں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ویسے بھی جس جس کو پپو کے شبہ میں نکالا کیا اس کے بعد مخبریاں بند ہوگئیں؟؟  دوسری بات سلطانہ آپا اور درید صاحب کوتو سکون کا سانس لینا چاہیئے کہ ان کے ادارے میں جو کچھ بھی ان دونوں سے چھپ کر کیا جارہا ہے وہ معاملات سامنے لائے جارہے ہیں۔۔ پپو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ۔۔اگر میری مخبریاں غلط ہیں تو پھر آپ مجھے ڈھونڈو لیکن اگر میں اگر ٹھیک باتیں کررہا ہوں تو آپ لوگ مسائل حل کرنے کی کوشش میں اپنا وقت لگائیں ،آپ لوگ پپو کو ڈھونڈنے میں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔۔پچھلی دو قسطوں میں آپ نے ہم نیوز کے حوالے سے بہت سی باتیں پڑھی ہوں گی، اس بار ہم آپ سے ایک نئے کردار کو متعارف کرارہے ہیں۔۔ یہ صاحب پہلے کیپٹل میں تھے،وہیں رائٹ ہینڈ سے گہرے مراسم ہوئے، اب رائٹ ہینڈ انہیں یہاں لاچکا ہے لیکن اس سے پہلے اس نے کامیابی سے پرانے بندے کو نکلوایا اور اپنا بندہ فٹ کرادیا۔۔ ان صاحب نے آتے ہی سب سے پہلے میک اپ آرٹسٹس اور ان کے سامان کو اپنے کنٹرول میں کیا۔۔ یعنی میک اپ آرٹسٹس کا روسٹر بھی یہی بناتے ہیں اور ان کے سامان کی پرچیزنگ بھی۔۔ پرچیزنگ کا اندازہ صرف اس بار سے لگالیں کہ ایک چھوٹے سے چینل میں جہاں گنتی کے دوچار اینکرز ہی ہیں مہینے کا پچاس ہزار مالیت کا سامان خریداجاتا ہے، جب  کہ ہم نیوز اس کے مقابلے میں کہیں بڑا چینل ہے ، اس کے لئے کتنا میک اپ کا سامان خریدا جاتا ہوگا، خود اندازہ کرلیں۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف اپنے کمرے میں صرف اور صرف خواتین اینکرز کو بلوا کر ان کا میک اپ درست کرواتے ہیں۔۔دوران بلیٹن اکثر پی سی آر میں رابطہ کرکے حکم جاری بھی کردیتے ہیں کہ فلاں اینکر کا چہرہ اسکرین پر اچھا نہیں لگ رہا ، اس  کا میک اپ کرادو۔۔موصوف کے حوالے سے کافی کچھ مزید مخبریاں بھی ہیں لیکن وہ اگلی بار، کیوں کہ ابھی مزید لوگ ایسے ہیں جن کے متعلق پپو کی بہت بہت ساری مخبریاں باقی ہیں۔۔پپو ہمیں بتارہا تھا کہ مارننگ شفٹ انچارج کا کام بھی اترگیا ہے، اسے ایک مہینہ کا نوٹس دیاگیا ہے کہ وہ اپنا کوئی بندوبست کرلے۔۔دوسری طرف ایک چینل کے ڈائریکٹر نیوز کو گزشتہ دنوں ہم نیوز کے مختلف شعبوں کی سیر کرائی گئی اور یہاں کے لوگوں سے اس طرح ملوایا گیا جیسا کہ وہ جلد یہاں آرہے ہیں۔۔پپو کے مطابق جلد ہم نیوز میں نئے ڈائریکٹر نیوز کی آمد متوقع ہے۔۔ ریسپشن پر بیٹھی محترمہ نے ریزائن کردیا ہے۔۔ پپو کے مطابق جی ایم ایڈمن صاحب انہیں اینکر بنوانا چاہتے تھے، اسی لئے بلیٹن کے درمیان جہاں دویا تین گھنٹے کا گیپ آتا تھا تو اس کے لئے حکم تھا کہ وہ اینکرینک کی تربیت حاصل کرے، اس اچانک ریزائن کے پیچھے کیا حقائق ہیں جلد اس  کی کہانی بھی سامنے  لائی جائے گی۔۔ پپو نے ایک حیرت انگیز مخبری بھی دی۔۔پپو کا کہنا ہے کہ رائٹ ہینڈ کی نورنظر دو اینکرزکا تو آپ نے لکھ دیا تھا، جس کے بعد ایک کو فوری طور سے نائٹ سے ہٹادیاگیا۔۔ دوسری اب بھی پرائم ٹائم کررہی ہے، ان کے علاوہ ایک اور محترمہ بھی ہیں۔۔ جن کا کیرئر صرف یہ ہے کہ بارہ ،تیرہ سال پہلے کسی  چینل  میں کبھی کام کیا تھا، اس کے بعد وہ کارپوریٹ سیکٹر چلی گئی ، اب لانچنگ سے ہم نیوز میں ہے، لیکن اس وقت اتنی بااختیار ہے کہ صرف اس کے لئے پانچ بجے کا سٹی بلیٹن بنایا گیا۔۔ پپو کے مطابق جب مالک اینڈکمپنی نے ہم نیوز آنے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے انہی محترمہ نے تمام اینکرز کی ایک ہنگامی میٹنگ آفس کے قریب ایک ریسٹورینٹ میں بلائی، میٹنگ کا وقت رات ایک بجے کا رکھا گیا تاکہ ایوننگ شفٹ کے اینکرز بھی بارہ والا بلیٹن نمٹا کر اس میں شریک ہوسکیں۔۔ میٹنگ میں یہ طے پایا کہ اینکرزکے ساتھ اگر کوئی پرابلم کھڑی کی گئی تو وہ “فیس” کریں گی خود مالک صاحب سے بات کریں گی، جس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ محترمہ کی انگریزی کچھ زیادہ ہی اچھی ہے۔۔ خیر آنے والے آگئے ، پہلے  ہی ہفتے میں محترمہ  نے رائٹ ہینڈ سے میل جول بڑھالیا۔۔جب ساتھی اینکرز نے وجہ پوچھی تو انہیں سمجھایا کہ اس طرح اپنے مسئلے حل ہوجائیں گے۔تیسری نورنظر اینکر سے متعلق پپو نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کوئی میک اپ آرٹسٹ انکا میک اپ نہیں کرتا ، کیوں کہ یہ کئی کی نوکریاں کھاچکی ہیں اس لئے سب ڈرتے ہیں، یہ محترمہ اپنا میک اپ خود ہی کرتی ہیں، اور اکثر پرڈیوسر انہیں پی سی آر سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ آپ کے بال مائیک پر آرہے ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ محترمہ بالوں پر اسپرے نہیں کرتیں۔۔۔۔ خیر پھر جو کچھ ہوا، اور اب جو ہورہا ہے سلطانہ آپا، درید صاحب خفیہ طریقے سے اینکرز سے سروے کرالیں کہ چل کیا رہا ہے؟  نورنظر اینکرز کے کہنے پر دیگر اینکرز کے تبادلے ہورہے ہیں، نورنظر اینکرز کی مرضی کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔۔ نورنظر کے علاوہ دیگر تمام اینکرز ہی ذہنی ازیت کا شکار ہیں۔۔۔ہم نیوز کا ذکر ہو اور مینیج والی بات نہ کی جائے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیجیٹل کے ہیڈ کو فارغ کردیاگیا ہے۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ہیڈ کو اپنے گھر والوں کی جانب سے دیا گیا نام چونکہ پسند نہیں تھا اور نقالی کا بھی شوق رکھتے ہیں تو انہوں نے اپنے سابقہ ادارے کے مالک کی طرح مختصر نام رکھا ہے مگر ڈپارٹمنٹ والے انہیں قابل رشک حرکتوں کی وجہ سے انہیں اوچھے کہتے ہیں۔(واضح  رہے کہ یہ نام ہم نے نہیں رکھا بلکہ انہی کے ڈپارٹ والے ان کی غیرموجودگی میں ان کو اس نام سے پکارتے ہیں)عملا صحافت سے دور کا بھی تعلق نہ رکھنے کی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کا انتخاب انہوں نے کیا تھا جو ہفتے کے سات دنوں کے دوران آٹھ مرتبہ ٹی وی اسکرین پر آتے ہیں۔۔اور سیلری میں بھاری کٹ لگانے کے بعد انہیں کراچی ٹرانسفر کردیاگیا۔۔موصوف نے جس طرح سے سب سے پہلے ڈیجیٹل کو فارغ کرایا تھا، اب اس والے کو بھی اسی طرح فارغ کرایاگیا۔۔جب اس والے کو لایاگیا تو اسے درید صاحب  کے سامنے اس طرح بیچا گیا کہ کوئی توپ چیز آرہی ہے، یہ آپ کے  ڈیجیٹل کو یہاں سے وہاں لے جائے گا،کراچی جانے والے صاحب ہی یہ تعریف کرتے تو شاید درید صاحب اتنی توجہ نہ دیتے لیکن جب دیگر دو ذمہ داران اور ہم گروپ کے پرانے نمک خواروں نے بھی تعریفیں کی تو اسے لایا گیا۔۔موصوف کچھ ہی دنوں میں ایکسپوز ہوگئے ، کیوں کہ صرف اچھی انگریزی  صحافت کے لئے کافی نہیں ہوتی۔۔ کراچی والے صاحب نے پہلے ڈیجیٹل ہیڈ کے بعد دوسرے ہیڈ کو بھی تبدیل کرادیا اور اس کی جگہ ایسے بندے کو ہیڈ بنوادیا جو کسی زمانے میں مالک صاحب کا کوآرڈینیٹر تھا، عملی صحافت سے اس کا دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، تجربہ بھی صرف اتنا کہ اپنی ویب سائیٹ چلاتا تھا۔۔اب صورتحال یہ ہے کہ ڈیجیٹل میں انگریزی ویب سائیٹ بند ہے ، اردو کی ویب سائیٹ اور سوشل میڈیا پر نان جرنلسٹ ہیڈ بنابیٹھا ہے۔۔یعنی یوں سمجھ لیں ڈیجیٹل شعبہ ڈیڈفلاپ ثابت ہوا۔۔جب دوسرے ہیڈ کو اچھی طرح علم ہوگیا کہ اب اس کی دل نہیں گلنے والی اور چل چلاؤ ہے تو اس نے ایک بہت ہی “تگڑی” سفارش  کرائی ، جس کے بعد اسےایک اہم پراجیکٹ سونپ دیا گیا۔۔ پپو نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے دلچسپ تفصیلات بھی بتائی ہیں۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ ۔۔ جو نیا پراجیکٹ سامنے لایا جارہا ہے اس کا فرنٹ مین  سابق ڈیجیٹل  ہیڈ ہوگالیکن ساری فنانسنگ  ہم نیوز یا ہم گروپ کی ہوگی۔۔اس  پراجیٹ کا کام یہ ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ہم نیوز، ہم ٹی وی یا ان دونوں اداروں سے وابستہ کسی شخصیت کے حوالے سے کوئی منفی چیز چلتی ہے تو وہ اس کا کاؤنٹر کریں گے۔۔یعنی یوں سمجھ لیں  یا فرض کرلیں کہ عمران جونیئر  ڈاٹ کام پر اگر ہم نیوز سے متعلق خبر چلتی ہے تو اس پراجیکٹ کے آنے کے بعد یہ اسے کاؤنٹر کریں گے، ممکن ہے کہ منفی خبر دینے والوں کو بھی رگڑا لگائیں۔۔ اسی طرح ہر سال ہم ایوارڈز ہوتے ہیں تو اسی پراجیکٹ کے ذریعے ووٹنگ بھی کرائی جائے کہ کسے ایوارڈ دیا جائے۔۔(اگر ایسا ہوگا تو پھر ہم ایوارڈز بھی مشکوک ہوجائیں گے کیوں کہ ٹیمپرنگ کے قوی امکانات ہونگے اور من پسند لوگوں کو ایوارڈز دیئے جانے کا خدشہ ہوگا)۔۔حیرت انگیز طور پر پپو نے بھی ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ہم نیوز آنے سے پہلے تک تک انٹرٹیمنٹ چینلز میں ہم ٹی وی ریٹنگ میں پہلے نمبر پر ہوتا تھا، لیکن اب اے آر وائی اور جیواس سے اوپر ہیں،پپو کے مطابق ہم ٹی وی کے ڈراموں کا معیار بھی گرتا جارہا ہے، بزنس بھی کم ہورہا ہے اور ریٹنگ تو عیاں ہے کہ پہلی پوزیشن سے تیسرے نمبر پر آگئے۔۔ شاید سلطانہ آپا کی توجہ اس جانب بالکل بھی نہیں۔۔چلیں پراجیکٹ کی بات کرتے ہیں، پپو کا کہنا ہے کہ سابق ڈیجیٹل ہیڈ کو پراجیکٹ کے لئے پیسے جاری کردیئے گئے ہیں۔۔ اور اسے کہاگیا ہے کہ اب آپ اپنا پراجیکٹ چلائیں اور آپ کا ہم نیوز یا ہم گروپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا،جب کہ درحقیقت ہم گروپ ہی اس کا فنانسر ہوگا۔۔پپو کے مطابق ہم گروپ نے نئے پراجیکٹ کے حوالے سے جو نیا فیصلہ کیا ہے  یہ بالکل ایسا ہی جیسے کٹے سے دودھ نکالنا یا خواجہ سرا سے اولاد کی امید رکھنا، جس بندے کو ڈیجیٹل کا “ککھ” نہیں پتہ ، اگر پتہ ہوتا تو اسے ہم نیوز کے ڈیجیٹل شعبے سے کیوں فارغ کیا جاتا۔۔ایسے بندے پر اعتماد درید صاحب کا شاید ایک اور غلط فیصلہ ہے۔۔پپو کا کہنا ہے کہ ہم سلطانہ آپا اور درید صاحب کو جن مسائل کی نشاندہی کرتے آرہے ہیں اور جن غلط فیصلوں کا بتاتے آئے ہیں، آپ کا کام ہے ان غلطیوں کو سدھارنا، نہ کہ غلط فیصلوں پر عمل درآمد جاری رکھنا۔۔ غلط فیصلے ہمیشہ ادارے اور انسانوں کو ڈبودیتے ہیں۔۔ہمارا اب بھی کہنا ہے کہ وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، ہم نیوز اور اس کے ڈیجیٹل شعبے میں اب بھی جان باقی ہے، لیکن مسئلہ صرف درست فیصلوں کا ہے۔۔ ہم نیوز کی سب سے بڑی اور بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہاں بہت کم صحافی رہ گئے ہیں یہاں اب صرف ورکرز رہ گئے ہیں۔۔ درید صاحب کیلئے پپو کا مشورہ ہے کہ آپ ابھی فی الحال میر شکیل بننے کی کوشش نہ کریں،   ساتھ ہی فوری طور پر اپنے مشیر بدلیں۔۔ موجودہ مشیر آپ کو غلط فیڈبیک دے رہے ہیں جس کی وجہ سے غلط فیصلے سامنے آرہے ہیں اور غلط فیصلوں سے ادارہ تباہی کی جانب گامزن ہے۔۔

سینہ بہ سینہ کے لئے پپو کی مخبریاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔۔۔ پیر یا منگل کو نئی قسط کے ساتھ پھر حاضری دیں گے۔۔ کیوں کہ ابھی ہمارا خیال ہے کہ تحریر کافی طویل ہوچکی ہے۔۔ اور خدشہ ہے کہ آپ بورہورہے ہوں گے۔ ابھی اے آر وائی کی کچھ کہانیاں ہیں جو پپو نے ہمیں سنائی ہیں جسے سن کر آپ کو کافی حیرت ہوگی۔۔ آج نیوز میں چار کا ٹولہ کیا کررہا ہے ان کے کافی کرتوت پپو کے پاس ہیں وہ بھی بتانے باقی ہیں۔۔ ہم نیوز کی مزید مخبریاں لازمی ہوں گی۔۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ ،، جس کی آپ کو پپو سے توقع ہے۔۔ اس لئے اگلا سینہ بہ سینہ پڑھنا مت بھولئے گا۔۔

نوٹ:  یہ بلاگ عرصہ چار سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک  کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ  ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ ہم دانستہ یا ناداستہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ ہماری تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچے، ہمارا مقصد صرف اور صرف  میڈیا پر ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا  بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے،واضح رہے کہ یہ میڈیا انسائٹس کے حوالے سے ایک بلاگ ہے،جسے “خبریانیوز” نہ سمجھا جائے،  (علی عمران جونیئر۔۔)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں