سینہ بہ سینہ قسط نمبر۔۔103
دوستو، ایک بار پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔۔گزشتہ قسط کا بہت ہی زبردست اور توقعات کے برخلاف فیڈبیک آیا، ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہفتے کے روز نئی قسط دیں گے، اپنا وعدہ پورا کررہے ہیں۔۔ لیکن مخبریاں بے تحاشا موجود ہیں، پپو فل فارم ہیں اس لئے اگر ہم لکھتے لکھتے بور ہوگئے اور مخبریاں پوری نہ ہوسکیں تو پھر آپ کو دو روز بعد ایک اور قسط کا انتظار کرنا پڑے گا۔۔ چلیں پھر جلدی جلدی آج کے سینہ بہ سینہ کی طرف چلتے ہیں۔۔
اس بار سینہ بہ سینہ کا آغاز ہوگا، دنیا نیوز میں ہونے والے برطرفیوں سے۔۔ اس کا احوال ہم اپنی ویب سائیٹ عمران جونیئر ڈاٹ کام میں۔۔ تفصیل سے دے چکے ہیں۔۔ ایک دو دن پہلے ہی۔۔اس حوالے سے پپو کی تازہ مخبری سن لیجئے۔۔۔ دنیا نیوز سے ابھی مزید برطرفیاں ہوں گی، یہی نہیں جیونیوز، ڈان، جی این این، ٹوئنٹی فور سمیت کئی چینلز ایک بار پھر برطرفیوں کا نیا سیزن چلائیں گے۔۔ اس بار ایک ہزار سے پندرہ سو کی تعداد میں ورکرز کو نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔۔پپو کےمطابق یہ فیصلہ پی بی اے کی سطح پر کیاگیا، پی بی اے کے اراکین چینلز میں ہی ایسا ہوگا، پپو نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ صحافتی تنظیمیں برطرفی کرنے والےچینلز اور ان کے مالکان کا کچھ اکھاڑ بھی نہیں سکیں گی۔۔ ان کے احتجاج،مظاہرے اور دھرنے وغیرہ صرف لیپا پوتی کا کام دیں گے۔۔ ہمیں یاد ہے کہ گزشتہ سال جب جنگ گروپ نے اپنے پانچ یا چھ اخبار اچانک بند کرکے سینکڑوں کارکنوں کو بیروزگار کیا تھا تو اس وقت جنگ گروپ کی سی بی اے کے عہدیدار “سرکاری” خرچے پر ہالینڈ میں تفریحی ٹور پر تھے۔۔ جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صحافی تنظیموں کے لیڈران کو عام ورکرز کا کتنا دکھ ہے۔۔یہی نہیں اب کسی بھی ادارے میں ہونے والی برطرفیوں اور سیلری میں کٹ کے معاملات دیکھ لیں، وہاں موجود لیڈران خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔۔ بے حسی کی انتہا ہے۔۔ تیس اگست کو لاہور پریس کلب میں تمام صحافتی تنظیموں و گروپس کے قائد اور متاثرین کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں صحافتی دنیا کی معتبر شخصیت ڈاکٹر مہدی حسن نے خصوصی شرکت کی۔۔اجلاس میں آنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ آئے روز ہونے والی بے روزگاری ، تنخواہوں کی کٹوتیوں اور ذہنی ٹارچر کے خلاف میڈیا ہاﺅسز کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا جائے جس کیلئے حکومتی ذمہ داران، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز سے رابطے کرکے میڈیا انڈسٹری کے حالات سے آگاہی دی جائے گی جبکہ متاثرین کو قانونی معاونت فراہم کرنے کیلئے لیگل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جبکہ ہیومن رائٹس کمیشنزاور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں سے بھی رابطے کرکے صحافیوں کے معاشی قتل عام بارے آگاہی دی جائے گی۔جبکہ سوشل میڈیا کا میڈیا ہاﺅسز کی انتظامیہ کے حوالے سے بھر پوراستعمال کیا جائے گا۔ اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہاگر کارکنوں کی بحالی اور برطرفیوں کا سلسلہ نہیں روکا جاتا تو 3 ستمبر بروز منگل کو دوپہر 2 بجے سے دنیا نیوز کا لاک ڈاﺅن کیا جائے گا اور طویل دھرنا دیا جائے گا جبکہ سٹی42 اور24 نیوز سے ملازمین کی چھانٹیوں اور برطرفیوں کے خلاف 6 ستمبر کو لاک ڈاﺅن کیا جائے گا اور 6 ستمبر کو ہی آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا جس میں اداروں کے باہر مستقل دھرنے کا شیڈول دیا جائے گا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ اچھی بات ہے کہ مالکان کے ہر ایکشن پر ری ایکشن بہت ضروری ہے۔۔خالی لفظی گولہ باری، بیان بازی، اظہارمذمت، اظہار افسوس سے اب کام نہیں چلے گا، ورکرز کی بہتری کے لئے اور ورکرز کے مفاد کیلئے میدان عمل میں کودنا ہوگا،۔
گزشتہ قسط کو پڑھنے کے بعد ہم نے بھی محسوس کیا اور کئی احباب نے بھی اس جانب توجہ دلائی کہ پپو تو چیئرمین پی ایم سی کے پیچھے پڑا ہوا تھا پھر کیا وجہ ہے کہ سینہ بہ سینہ میں اس کا تذکرہ غائب تھا، واقعی ایسا تھا۔۔ لیکن چونکہ گزشتہ قسط کی اشاعت تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی اس لئے ہم نے اس پر لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔۔ چیئرمین پی ایم سی کے حوالے سے پپو نے ہمیں کوئی اپ ڈیٹ ایسی نہیں دی کہ آپ کو بتائی جائے لیکن ہمارے بہت محترم دوست اور سینئر صحافی طارق حبیب نے اس حوالے کافی دلچسپ انکشافات کئے ہیں، طارق حبیب لکھتے ہیں کہ ۔۔۔پی ایم سی کے چیئرمین ضیاخان نے کیماڑی،کراچی میں جماعت اسلامی کے ایک رکن کی ٹریول ایجنسی کو جسے ان کا بیٹا چلارہاتھا، اکیانوے لاکھ روپے کا چونا لگایاتھا، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جماعت اسلامی کراچی کے ایک عظیم رہنما کی ضمانت پر کیماڑی کی ٹریول ایجنسی نے بڑی تعداد میں ٹکٹ جاری کردیئے تھے، ابتدائی طور پر چند لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد ضمانت کی بنیاد پر مکمل ٹکٹ جاری کردیئے گئے تھے، ضیا خان نے کئی ماہ گزرنے کے باوجود ادائیگی نہیں کی،پھر ایک بائیس لاکھ روپے کا چیک جو ٹریول ایجنسی والے کو دیاگیا تھا وہ باؤنس ہوگیا۔۔یہاں سے ایک اور دلچسپ موڑ آیا۔۔ضمانتی صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بڑے شاندار تاریخی الفاظ کہے۔ان محترم نے جواب دیا کہ ضیاء اللہ سے میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہٹ کر ہے ۔ اس لیے آپ مجھے جماعت کے ذمہ دار کے طور پر اس معاملے میں شامل نہ کریں۔۔ بہرحال ایجنسی نے ضمانتی کو نظر انداز کرتے ہوئے ضیا خان کے خلاف کراچی کے جیکسن تھانے میں ایف آئی آر درج کرادی۔۔ اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کے بعد ۔اسے کی گرفتاری تک کیس کو فالو کیا۔۔عدالت نے ملزم کو جیل بھیج دیا جس کے بعد ۔۔ ضیاء خان لانڈھی جیل منتقل کردیا گیا ۔یہاں سے کہانی نے دوسرا رخ اختیار کیا۔۔ٹھگ کی ضمانت کے لیے وکیل کی جانب سے کل رقم کا دو فیصد طلب کیا گیا تھا۔ وکیل سے کہا گیا کہ اس شخص کی لانڈھی جیل سے ضمانت و رہائی کے معاملات کو حتی الامکان پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ اسلام آباد کی جماعت اسلامی کی ایک شخصیت (نام نہیں بتایا گیا) سے رقم کا بندوبست کیا گیا جس سے وکیل کی فیس ادا کی گئی جبکہ ۔ضمانت کیلئے دو لاکھ روپے کے بانڈز ضیاء اللہ کی سسرال کی جانب سے ادا کیے گئے۔۔ ان کی ساس کی جانب سے ادائیگی کی گئی۔ یہ سارے معاملات خاموشی سے انجام دینے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ بڑے مگر مچھوں کے کے ناموں پر پردہ پڑا رہے۔بہرحال لانڈھی جیل سے اس کی ضمانت پر رہائی کا آرڈر جاری کردیا گیا۔ اس کے بعد کیس کی سماعت جاری رہی اور حسب معمول یہ ایک بار پھر فرار ہوگیا اور پیشیوں سے غیر حاضر ہوگیا جس کے بعد عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں۔۔یہ طارق حبیب نے ایک ایسا واقعہ بتایا جو سامنے نہیں آسکا، اب اسی حوالے سے طارق حبیب صاحب کے مزید انکشافات بھی سن لیجئے۔۔ طارق حبیب کا کہنا ہے کہ ۔۔پی ایم سی کے چیئرمین نےصرف صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ہی نہیں لوٹا بلکہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی چونا لگایا۔ خواتین اراکین اسمبلی اور اراکین اسمبلی کے اہل خانہ بھی اس فراڈئے کے ہاتھوں متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں ۔اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام کی انتہائی قابل احترام خاتون رکن اسمبلی شاہدہ اخترعلی بھی متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں ۔ محترمہ شاہدہ اختر علی نے ابتدائی طور پر جماعت اسلامی کی خاتون رہنما ۔۔محترمہ عائشہ سید سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ ۔۔ ضیااللہ خان سے جو اپنا تعلق تاحال جماعت اسلامی کراچی سے اور جماعت اسلامی کراچی کے اہم رہنمائوں سے ظاہر کرتا ہے ۔۔ پیسے واپس دلوانے میں مدد کریں تاہم پیسوں کی واپسی ممکن نہ ہو سکی ۔جس کے بعد محترمہ شاہدہ اختر علی اور ایک اور خاتون محترمہ ڈاکٹر شازیہ اسلم نے ۔۔پارلیمنٹ لاجز کے سیکٹریٹ تھانے میں مقدمہ درج کرادیا۔ اب آپ اس سے آگے پپو کی زبانی سنیں، پپو کے مطابق لاہور کے تھانہ غالب مارکیٹ پولیس نے گرفتاری کے بعد اس کا ایک روزہ ریمانڈ لیا،تھانے میں جہاں اس سے پیسے لینے والوں کی لائن لگی ہوئی تھی وہیں اس کے سرپرست بھی اس کی رہائی کیلئے سرتوڑ کوششیں کررہے تھے،اسے تھانے میں تسلیاں دے رہے تھے کہ فکر نہ کرو باہر آجاؤگے۔۔عدالت میں پیشی کے دوران اس کی جم کر دھلائی کی گئی۔۔عدالت نے اسے ضمانت پر رہا تو کردیا لیکن رہائی ملتے ہی اسلام آباد پولیس اس کے استقبال کے لئے کھڑی تھی جو اسے اپنے ساتھ لے گئی۔۔غالب مارکیٹ پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران ایک دلچسپ لطیفہ بھی ہوا، بقول طارق حبیب کہ۔۔ضیااللہ نے جس شخص کی ذمہ داری لگائی تھی کہ فوری طور پر وکیل اور ضمانت کا بندوبست کرے ۔۔ ۔ ۔ جب اس شخص نے کہا کہ پولیس کو اس سارے کام میں پیسے دینے پڑینگے تو ۔۔چیئرمین پی ایم سی نے نے تاریخی جملہ کہا کہ ۔۔تحریکی لوگ رشوت نہیں دیتے۔۔ تھانہ سیکرٹریٹ کے تفتیشی افسر اشتیاق شاہ نے بتایا کہ صوابی کے رہائشی ضیا اللہ کے خلاف لاہور میں بھی ایک اینکر پرسن کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا ہے ،لاہور پولیس نے ضیاءاللہ کو گرفتار کیا تھا جہاں سے ہم اسے حراست میں لے کر ٹرانزٹ ریمانڈ پر اسلام آباد لے آئیں ہیں ملزم نے پارلیمنٹ لاجز میں رہائش پذیرجے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی شاہد ہ اختر علی اورپیپلز پارٹی کی ڈاکٹر شازیہ صوبیہ سے دورہ ترکی کیلئے ایک ایک لاکھ روپے لئے تھے، دورہ نہ ہونے کی وجہ سے رقم واپسی کیلئے چیک دیئے تھے جو بنک سے ڈس آنر ہو گئے ۔ جس پر انہوں نے ضیا اللہ کے خلاف چیک ڈس آنر ہونے کا مقدمہ درج کرایا تھا ۔۔اس کے علاوہ اسلام آباد کے تھانہ سبزی منڈی میں خیبر ٹی وی کے ایک پرڈیوسر، اور پشاورکے تھانہ شرقی میں ایک خاتون صحافی نے بھی ضیا اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔۔جن کے نقول پپو کو موصول ہوگئی ہیں۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ موصوف کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح ضمانتیں کراکے ملک سے فرار ہوجائے اور ترکی میں سیٹ ہوجائے لیکن شاید وہ جانتا نہیں کہ ان مقدمات سے ان کی جان اتنی آسانی سے چھوٹنے والی نہیں۔۔ پپو کی چیئرمین پی ایم سی کےمعاملات پر گہری نظر ہے، جیسے ہی کوئی اپ ڈیٹ ملتی ہے ہم آپ تک ضرورشیئر کریں گے۔۔
چلیں بات کرتے ہیں ہم نیوز کی، جہاں سے پچھلی قسط میں رابطہ منقطع ہوا تھا، بات وہیں شروع کرتے ہیں۔۔لیکن آپ کو پہلے یہ بتاتے چلیں کہ ہم نیو ز کے حوالے سے جو کچھ بھی ہم نے لاسٹ ایپی سوڈ میں تحریر کیا تھا وہ نہ صرف آپا اور درید صاحب تک پہنچا بلکہ اس کے کچھ اثرات دیکھے بھی گئے ہیں، گزشتہ قسط سے ہم نیوز کے ورکرز کو کم سے کم یہ تو یقین ہوگیا کہ عمران جونیئر کو منیج نہیں کیا جاسکتا۔۔بات پھر وہی ہے ہم نیوز میں سارا معاملہ مینجمنٹ کا ہے عمران جونیئر کو مینیج کرنے کا نہیں۔۔ نئی انتظامیہ نے پپو کے چکر میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ورکرز کو یکے بعد دیگر ے نکالنا شروع کردیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ہزار بار سمجھا چکا ہوں، پپو اب ایک سوچ کا نام بن چکا ہے، ہر میڈیا ورکر جو بیچارہ مظلوم اور ناانصافی کا شکار ہے وہ ہمیں اپنے شانہ بشانہ پائے گا۔۔آپ کسی کو نوکری سے نکال تو سکتے ہو لیکن اس سوچ کو کیسے ختم کروگے جو عمران جونیئر اپنی تحریروں کے ذریعے میڈیا ورکرز کو دے رہا ہے؟مالک صاحب کے بعد اب کچھ ذکر ایسی ہستی کا جو حادثاتی طور پر اسائمنٹ ایڈیٹر سے سی یا ڈی کیٹگری چینل کا شفٹ انچارج بنا پھر وہاں تنخواہ دینے کے پیسے نہیں لوگ چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے تو اندھوں میں کانے راجہ کی انہیں کنٹرولر بنا دیا گیا اور انہوں نے بھی مان لیا کہ وہ کنٹرولر نیوز ہو چکے ۔ پپو کےمطابق گزشتہ ہفتے اک میٹنگ میں مالک صاحب نے بھری میٹنگ میں یہ کہا تھا کہ ان کی طرف سے نیوز کے تمام معاملات دیکھیں گے ۔ انہیں سابق ڈائریکٹر نیوز ندیم رضا کے کمرے میں بیٹھنے کی ہدایت بھی دے دی گئی تھی ۔ اب آگے کیا ہوگا اس کے لیے سلطانہ آپا کو ہی سوچنا چاہیے کیوں کہ ندیم ملک کے شو پر آنے والے پی پی رہنما کے ساتھ جھگڑے والا کیس زیادہ پرانا نہیں اور اس وقت تو موصوف صرف مالک کے شو کے صرف پروڈیوسر تھے۔پپو کے مطابق یہ سارا معاملہ سلطانہ آپا کے علم میں ہیں انہوں نے اس کی اطلاع ملنے پر نہ صرف اپنے طور اس واقعہ کی تحقیقات کرائی بلکہ اپنے ایک خاص ہرکارے کے ذریعے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی طلب کی۔۔پھر اس معاملے پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی۔۔
ہم کے کریڈٹ پر یہ بات تو تھی کہ یہاں خواتین کونوکری میں زیادہ حصہ ملتا ہے اور یہاں ان کے کام کے لیے ماحول دیگر چینلز سے کافی بہتر ہے ۔ لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہورہا، ہم نیوز کے حوالے سے ، سینٹرل نیوز روم اور ڈیجیٹل ڈپارٹمنٹ میں کچھ خواتین نے ریزائن کئے اور باقاعدہ اپنے ریزائن میں وجہ بھی لکھی، لیکن سوائے ڈیجیٹل سے ایک برطرفی کے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔۔سلطانہ آپا اور درید صاحب کے علم میں پپو یہ بات لانا چاہتا ہے کہ یہاں آئے دن کسی نہ کسی انٹرن شپ یا اینکر بنانے کی خواہشمند لڑکیوں کی “ملاقاتیں” کرائی جاتی ہیں اور “یار کی یاری” نبھائی جارہی ہے۔۔گزشتہ قسط میں ہم نے ذکرکیا تھا ایک پینل ہیڈ کا جسے پروڈکشن ہیڈ کہہ کر ہم نیوز میں ایڈجسٹ کیاگیا، جن کا تجربہ پروڈکشن میں خاصا کم ہے اور ان کی ساری توجہ پینل کے بجائے پروف ریڈنگ اور چینلز مانیٹرنگ پر زیادہ ہوتی ہے ۔ موصوف سارا دن نیوز روم میں فیس بک اور ٹوئیٹر کی ٹیوشن دینے کے ساتھ ساتھ دیگر چینلز بھی اچھی طرح دیکھتے ہیں اور مانیٹرنگ کی ذمہ داریاں بھی نبھارہے ہیں ، حالانکہ یہ کام ان کا نہیں۔۔ ان کا ایک اور بنیادی کام یہ ہے کہ وہ کنٹرولر صاحب کے ساتھ سگریٹ کے لئے کمپنی دیں یا پھر انہیں سوشل میڈیا چلانے کی ٹیوشن دیں۔۔دلچسپ مگر افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وہ سارا دن یہاں تک کہ بلیٹن کے وقت بھی پینل پر نہیں جاتے، نہ ہی کسی اسپیشل ایونٹ یا خاص موقع کے لئے بلیٹن کیلئے کوئی خاص پلاننگ کرتے ہیں، ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ رات نو بجے کے بلیٹن کے لئے ہونے والی میٹنگ میں اپنا بھرپور فیڈبیک کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ فلاں چینل نے فلاں خبر لی تھی یا اس خبر کو اس طرح لے لو۔۔رن ڈاؤن پرڈیوسر اور شفٹ انچارج،جن کا کام بلیٹن کی “لاج” رکھنا ہوتا ہے وہ بیچارے خاموشی سے یہ فرمائشی پروگرام صرف اس لئے سن لیتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ موصوف ڈی فیکٹو کنٹرولر نیوز کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ انہی کی لائی ہوئی اک خاتون اینکرکو گزشتہ دنوں پرائم ٹائم سے اٹھا کر نائٹ شفٹ میں لایاگیا کیوں کہ ان کی غلطیاں اور فمبل قابو ہی نہیں آرہے تھے ۔ پینل ہیڈ عرف پروڈکشن ہیڈ کی پروڈکشن کی جانب توجہ صرف اتنی ہے کہ اینکر کا روسٹر اچھی طرح مینیج کر لیتے ہیں ۔ شاید یہی ٹھیک مینجمنٹ ہے کہ طاقت ور لابی بنائیں من پسند بندے لائیں چینل کوالٹی اور اپنا کام جائے بھاڑ میں صرف تنخواہ لیں اور گھر کا رستہ لیں۔ڈی فیکیٹو کنٹرولر نیوز المعروف پروڈکشن ہیڈ کے بعد اب کنٹرولر نیوز سے متعلق پپو کی اطلاعات بھی سن لیجئے،مارکیٹ میں ان کی شہرت صرف اک اسائمنٹ ایڈیٹر اور کاپی ایڈیٹر کی ہی ہے (کسی کو یقین نہیں آتا ہے تو ذرا آبپارہ کی بلڈنگ سے باہر نکلیں اورتحقیق کریں زمینی حقائق تسلیم کرلیں گے۔۔) پر ہم نیوز نے جہاں منہ سے شکار کرنے والے بڑے بڑے طرم خانوں کو جگہ دی ہوئی ہے وہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہیں ۔ جنھیں ہمارے پرانے بلاگ کے بعد بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کم از کم ٹائپنگ کے لیے اب دو انگلیوں سے زیادہ چلا لیں۔ کنٹرولر نیوز صاحب کو آج تک نا تو یہ معلوم ہے ہم نیوز کا سوفٹ وئیر کیسے کام کرتا ہے اوربے چارے نا ہی یہ خود سے چیک کرسکتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے رن ڈاون میں لگانے کو کہا تھا وہ ویسا لگا بھی ہے یا نہیں ۔ ان کی شرافت کے گن چاہے ہر اک گائے پر کام شریف نہیں با ہنر چلاتا ہے ۔ نیوز کے آپریشنز آج تک ان سے مینج نہیں ہو پارہے ۔ لیکن اپنا آفس کا وقت خوب مینج کر رہے ہیں کہ صبح گیارہ بجے آتے ہیں اور دوپہر بارہ کے بلیٹن کے بعد کسی بھی وقت کسی ضروری کام سے روزانہ باقاعدگی سے آفس سے شام چھ بجے تک کے لیے نکل جاتے ہیں اور واپسی پر رات نو بجے کے بلیٹن کی میٹنگ کرتے ہیں۔ ہم نیوز کی تمام تر آپریشنل ذمہ داریاں انہی کے مضبوط کاندھوں پر ہیں اور حالات یہ ہیں کہ اسلام آباد ، لاہور میں نائٹ شفٹ ہوتی ہی نہیں ۔ بالکل کسی اچھے شاپنگ مال کی طرح نیوز چینل کے بیورو آفسیز رات کے بعد بند ہوجاتے ہیں اور صبح ساڑھے آٹھ بجے کھل جاتے ہیں ۔ کوئٹہ اور پشاور کو تو ویسے ہی کوئی پوچھتا نہیں۔ نیوز کے معاملات پر ان کی دسترس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ پلاننگ تقریباً زیرو ہو گئی ہے ۔ پالیسی سے متعلق ایک واضح فیصلہ ہے کہ جو نیوز جیو نے بریک نہیں کی وہ ہم نیوز نہیں کرے گا۔ اسی لیے نیوز روم میں جیو نیوز کو رہبر چینل بھی کہا جاتا ہے ۔ غرض یہ کہ اگرجیو نے کسی ایشو پر نشریات کردی ہے تو فوری طور کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ جمع کیا جائے گا اور بھان متی کے کنبے کی طرح ٹرانسمیشن کی شکل تیار کر دی جائے گی ۔پپو کے مطابق بیوروچیف اسلام آباد سے کہ دیاگیا ہے کہ ان کی سیلری میں بھی کٹ لگے گا۔۔شاید اسی لئے انہوں نے اب ہجرت کے لئے پر تولنے شروع کردیئے ہیں۔۔کٹ تو تمام کارکنوں کے لگ رہے ہیں، جس کی تفصیل اگلی بار بار بتائیں گے۔۔ لیکن آپ لوگ بھی ذہنی طور پر تیار رہیں کیونکہ دنیانیوز میں برطرفیاں ہوچکی ہیں اب یہاں بھی امکان ہے۔۔
ہم نیوز کے حوالے سے پپو کی مخبریاں ابھی مزید اور بھی ہیں، ڈیجیٹل شعبہ، پروگرامنگ اور بیوروز کے کئی معاملات پر پپو کی گہری نظر ہے، اگلی بار ہم آپ کو کچھ مزید حقائق سے آگاہ کریں گے۔۔اور ہاں اندرون سندھ کےعلاقے پیرجوگوٹھ میں درج ہونے والی ایک ایف آئی آر پر بھی ڈسکس کریں گے کہ وہ کہانی اصل میں کیا تھی۔۔ چلیں پپو کی مزید خبروں کی جانب چلتے ہیں۔۔
ابتک نیوز کافی عرصے سے رہ جاتا تھا، اس بار کچھ باتیں ابتک نیوز کی بھی کرلیتے ہیں۔۔ یہاں کے ایک شعبہ ہے “پی ڈی” یعنی پراڈکٹ ڈویلپمنٹ ڈپارٹ جہاں اقرباپروری عروج پر ہے۔۔اس شعبے میں ایک خاتون ایسوسی ایٹ پرڈیوسر کئی سال سے اپنے فرائض خاموشی سے سرانجام دے رہی تھیں لیکن شاید ڈپارٹمنٹل ہیڈ اور ان کے چہیتوں کویہ محترمہ ناقابل برداشت تھیں ،شاید اس کی بڑی وجہ خاتون کی شرافت اور بڑھتی عمر تھی، خاتون کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا رہا۔۔تاکہ وہ تنگ آکر نوکری چھوڑ جائیں یا غصے میں کسی سے جھگڑ پڑیں جس کے بعد ڈسپلنری ایکشن لے کر انہیں فارغ کردیاجائے۔۔وہ شریف خاتون طلاق یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آٹھ سالہ بچی کی ماں بھی ہے جو اپنے بوڑھے والدین کے ہمراہ رہتی ہے اور اپنے گھر کی واحد کفیل ہے، قصہ مختصر یہ کہ ۔۔تنخواہ میں پندرہ فیصد کٹ کے بعد محترمہ کی پک اینڈ ڈراپ بھی بند کردی گئی، جس کے باعث خاتون کا دفتر آنا جانا وقت پر نہیں ہوپارہاتھا،گلستان جوہر سے کورنگی کازوے گودام چورنگی کے پاس روزآنا جانا کسی عذاب سے کم نہیں، لیٹ ہونے کی وجہ سے آفس کی جانب سے کئی بار سرزنش کی گئی تو مجبورا خاتون نے استعفا دے دیا۔۔اب محترمہ کی جگہ اقرا یونیورسٹی کی تھرڈ ائر کی طالبہ کو لایاگیا جو ایک بڑے صاحب کی پرچی ہیں، دفتر والے بتاتے ہیں کہ وہ کافی آزاد خیال اور گلیمرس گرل بھی ہیں۔۔بڑے صاحب کی خصوصی ہدایت پر اس گلیمرس گرل کو باقاعدہ پک اینڈ ڈراپ بھی دیاجارہا ہے، اور وہی تنخواہ اور مراعات دی جارہی ہیں جو مستعفی خاتون کو دی گئی تھی۔۔حسن اتفاق دیکھئے مستعفی خاتون اور ان کی جگہ لینے والی محترمہ دونوں گلستان جوہر کی رہائشی ہیں لیکن ایک کے لئے پک اینڈ ڈراپ بند کردی گئی دوسری کو دی جارہی ہے۔۔
ایک یا ڈیڑھ ماہ پہلے کی بات ہے ابتک نیوز میں ایک سی سی ٹی وی کا بڑا چرچا ہوا، جب پپو نے اس کی کھوج لگائی تو ساری کہانی سامنے آگئی۔۔ سی سی ٹی وی کے مطابق ایک لڑکی اور ایک لڑکا نازیبا حالت میں پائے گئے۔۔ انتظامیہ نے فوری ایکشن لیا لڑکے کو فائر کردیا لیکن وہ لڑکی اب بھی ڈیوٹی کررہی ہے۔پپو نے لڑکی اور لڑکے کا پورا شجرہ بتایا ہے لیکن ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ سب کچھ کھل کر بیان کریں۔۔پپو نے انتظامیہ سے سوال کیا ہے کہ جب ایک جرم میں دو مختلف جنس کے افراد پکڑے جاتے ہیں تو کیا سزا صرف ایک کو دینا ناانصافی نہیں؟؟ یا پھر لڑکی کی “سپورٹ” مضبوط ہے؟؟اگر ابتک نیوزکی انتظامیہ نے فوری طور پر نوٹس نہیں لیا تو پھر ہم سپورٹرز کے ساتھ ساتھ لڑکی کے حوالے سے مزید تفصیل شائع کریں گے۔۔
لاہور کے بڑے میڈیا گروپ سی این این یعنی سٹی نیوزنیٹ ورک کے حوالے سے پپو کی تازہ اپ ڈیٹس لے لیں۔۔ سٹی فورٹی ٹو کے مالک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب کراچی کا رخ کریں۔۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات کراچی شفٹ کرنا چاہ رہے ہیں ، ان کی توجہ بھی اب چینلز سے ہٹ کر کراچی میں ایک یونیورسٹی بنانے اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں ریسٹورینٹس کی چین کھولنے کا ہے، لاہور کے پوش علاقے ایم ایم عالم روڈ پر ان کا ایک ریسٹورینٹ پہلے ہی کامیابی سے چل رہا ہے ،دوسرا بھی جلد کھولے جانے کا امکان ہے۔۔ پپو کے مطابق انہوں نے اپنے خاص اعتماد کے بندے جی ایم آپریشنز،فنانس اور سابق سی ایف او کو کراچی میں یونیورسٹی کے پراجیکٹس پر لگادیا ہے اس کے ساتھ ساتھ حیدرآباد میں کافی عرصے سے پنجاب گروپ آف کالجز کی کچھ برانچیں پہلے ہی ان کے پاس ہے۔۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنا چینل یوکے فورٹی فور بھی بیچنے کے چکر میں لگے ہیں۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ عاشورہ کے بعد سٹی گروپ میں ایک بار پھر چھانٹیاں ہوں گی اور سو کے قریب ورکرز کو نکالاجائے گا، جن کی فہرست تیار کی جاچکی ہے۔۔پپو کے مطابق محسن نقوی صاحب جب کراچی اپنے معاملات شفٹ کریں گے تو مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو کراچی بھیجنے کی آفر ہوگی جو مان جائے گا وہ ساتھ چلے گا، جس نے انکار کیا وہ فارغ کردیاجائے گا۔۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سندھ گورنمنٹ کا کچرا اٹھانے کے لئے ڈنمارک سے ہونے والا کنٹریکٹ بھی انہیں ملنے والا ہے ، اور یہ کنٹریکٹ انہیں دلانے میں ایک اہم شخصیت کی رضامندی شامل ہے۔پپو کےمطابق لاہور میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے زیراستعمال بم پروف کروزر بھی ان صاحب کے پاس ہی ہوتی ہے، بلاول ہاؤس لاہور کی طرف سے اہم شخصیات کو بھیجنے جانے والے آموں کی پیٹیاں تقسیم کرنے کا بھی کام انہی کا تھا لیکن اس بار یہ کام کسی اور سے لیا گیا۔۔
سینہ بہ سینہ کے لئے پپو کی مخبریاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔۔۔ پیر یا منگل کو نئی قسط کے ساتھ پھر حاضری دیں گے۔۔ کیوں کہ ابھی ہمارا خیال ہے کہ تحریر کافی طویل ہوچکی ہے۔۔ اور زیادہ طوالت کے باعث خدشہ ہے کہ کہیں آپ بور نہ ہوجائیں۔۔ ابھی اے آر وائی کی کچھ کہانیاں ہیں جو پپو نے ہمیں سنائی ہیں جسے سن کر آپ کو کافی حیرت ہوگی۔۔ آج نیوز میں چار کا ٹولہ کیا کررہا ہے ان کے کافی کرتوت پپو کے پاس ہیں وہ بھی بتانے باقی ہیں۔۔ ہم نیوز کی مزید مخبریاں لازمی ہوں گی۔۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ ،، جس کی آپ کو پپو سے توقع ہے۔۔ اس لئے اگلا سینہ بہ سینہ پڑھنا مت بھولئے گا۔۔
نوٹ: یہ بلاگ عرصہ چار سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ ہم دانستہ یا ناداستہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ ہماری تحریر سے کسی کو تکلیف پہنچے، ہمارا مقصد صرف اور صرف میڈیا پر ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے، (علی عمران جونیئر۔۔)