سینہ بہ سینہ 102
دوستو، ایک طویل عرصے بعد پھر آپ لوگوں سے ملاقات ہورہی ہے، ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ یہ آپ کو موسٹ فیوریٹ سلسلہ ہے، جس کا آپ کو بڑی بے چینی سے انتظار بھی رہتا ہے،آئے روز آپ لوگ انباکس میں ،بالمشافہ اور واٹس ایپ کے ذریعے فرمائش کرتے رہتے ہیں کہ سینہ بہ سینہ لکھیں، سینہ بہ سینہ کب آرہا ہے؟ سینہ بہ سینہ ہر ہفتے لکھا کریں۔۔ ہماری ویب ٹیم بھی کئی بار اصرار کرچکی ہے کہ سینہ بہ سینہ ہر ہفتے لکھا کریں کیوں کہ اس کا بہت زبردست فیڈبیک ملتا ہے۔۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سے سینہ بہ سینہ کی سینچری ہوئی ہے ، ہمارا دل نہیں کرتا کہ اسے لکھیں، لیکن پپو نے جب سے دھمکی لگائی ہے کہ اگر سینہ بہ سینہ نہ لکھا تو وہ مخبریاں دینا چھوڑ دے گا تو ہم واقعی میں ڈر گئے، کیوں کہ اس بزم کی ساری رونق پپو کے دم سے ہی ہے، خود پپو کا کہنا ہے کہ وہ جتنی مخبریاں ہمیں دیتا ہے اس میں سے آپ (یعنی میں بقلم خود عمران جونیئر) جو مخبریاں سینہ بہ سینہ میں لکھتے ہیں وہ بہت شوق سے پڑھتا ہوں،باقی چھوٹی موٹی مخبریوں کو پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔۔ خیر پپو کو ہم نے اس عید پر یعنی بڑی عید پر بھرپوریقین دہانی کرائی تھی کہ ہم بہت جلد اگست کے مہینے میں ہی سینہ بہ سینہ کی تازہ قسط لکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ مہینے میں دو بار تو لازمی اسے لکھا کریں۔۔ چار مہینے کے بعد لکھی جانے والی اس قسط میں مخبریاں بہت زیادہ ہیں اس لئے آپ لوگوں کو بوریت سے بچانے کے لئے ممکن ہے ایک دو روز میں نیا سینہ بہ سینہ بھی لکھنا پڑجائے، بس آپ کا فیڈبیک ضروری ہے۔۔
ہمارے کچھ احباب اور مستقل قاری اب یہ سوال بھی کرنے لگے ہیں کہ آپ میڈیا کے خلاف ہی کیوں لکھتے ہیں اس کے حق میں کیوں نہیں لکھتے؟ ان سب کو ہمارا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ ویب سائیٹ ورکرز کیلئے بنائی گئی ہے، مالکان کے ترجمان بننا ہوتا تو کسی صحافتی تنظیم کا لیڈر بن جاتا اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل پر لگ جاتا ۔۔ آپ کو ہماری یہ بات انکشاف لگے گی کہ حالیہ میڈیا بحران میں جب کہ ملک بھر میں کئی اخبارات بند ہوئے، چینل بند ہوئے، ہزاروں ورکرز کو نکالا گیا، آپ کو حیرت ہوگی کہ کسی ایک صحافتی لیڈر کی نوکری اس بحران میں نہیں گئی۔۔ سب خوشحال ہیں اورمزے سے اپنی نوکریاں کررہے ہیں۔۔ فی الحال صحافتی تنظیموں کے لیڈر ہمارا موضوع نہیں، کبھی موڈ ہوا اور ٹائم ملا تو اس پر تفصیلی الگ سے بات ہوگی۔۔
پانچ جولائی سے گیارہ اگست تک ہم سپرہائی وے سہراب گوٹھ کراچی پر لگنے والی ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی کے میڈیا سیل میں زیادہ ٹائم دیتے رہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ایک بہت اچھے دوست یاور چاؤلہ صاحب کواس کا کنٹریکٹ ملا تھا۔۔یہ کام ان کے لئے اور ہمارے لئے بھی نیا تھا، بہرحال اس دوران ویب سائیٹ کو ہماری ٹیم چلاتی رہی اور ہم بالکل بھی کسی معاملے کو نہیں دیکھ سکے، ہاں اتنا ضرور تھا کہ جو کچھ ویب اور ہمارے پیج پر شیئر ہوتا تھا ہم اپنی فیس بک کی ٹائم لائن پر شیئر کردیتے تھے۔۔ میڈیا سیل میں کام کرنا بالکل الگ ہی قسم کا تجربہ تھا، جن لوگوں سے خار کھاتا تھا، جن کے متعلق ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ انتہائی کرپٹ ہیں، ان سے بھی مسکرا کر بات کرنا پڑرہی تھی، بڑے بڑے”شرفا” بے نقاب ہوئے۔۔ایک صاحب نے تو عشا کی نماز ہمارے ساتھ باجماعت پڑھی اور بالکل ہمارے برابر ہی کھڑے تھے، وہ ہم سے لفافے کی فرمائش کررہے تھے۔۔ ایسی درجنوں کہانیاں ہیں، ایک رپورٹر جس کی میڈیا میں پیدائش ہمارے سامنے کی ہے لیکن اس کے بھرم دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں پروفیشنل ازم پر لیکچر دے رہے تھے، اور وہ کتنے پروفیشنل تھے اس کا اندازہ ان کے “ایزلائیو” سے لگایاجاسکتا تھا کہ وہ منڈی میں کھڑے ہوکر دعوی کررہے تھے کہ منڈی بارش میں ڈوب گئی، عوام یہاں نہ آئیں۔۔ دوپہر کو وہ یہ کام دکھا کر گئے شام کو انہی کا چینل منڈی کی رونقیں دکھا رہا تھا ۔۔ یہی رپورٹر صاحب میڈیا سیل میں بڑے بھرم سے پانی مانگ رہے تھے، انہیں آفس بوائے نے ڈسپنسر سے نیسلے کا پانی گلاس میں نکال کر پیش کیا تو منہ بناکر کہنے لگے یہ پانی نہیں پیتا مجھے منرل واٹر کی بوتل دو، پھر آفس بوائے نے اسے لوکل منرل واٹر کی بوتل تھمائی۔۔ایسے درجنوں واقعات ہیں جن کے ہم عینی شاہد ہیں اورہر اسٹوری دوسری سے زیادہ دلچسپ ہے۔۔ اس پر بات کی تو سارا سینہ بہ سینہ اسی میں ختم ہوجائے گا۔۔ اس موضوع کو پھر کبھی کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔۔
ذکر اب کچھ ہم نیوزکا۔۔ منڈی کی مصروفیات کی وجہ سے ہماری توجہ ویب سائیٹ پر بالکل نہیں تھی تو ہم نیوز کے اسلام آباد ہیڈ آفس میں یہ مشہور کردیاگیا کہ ۔۔ عمران جونیئر کو مینیج کرلیا گیا ہے۔۔ اس دوران ہم نیوز کی کوئی نیوز نہیں لگی ہماری ویب سائیٹ پر ، تو اس دعوے کو درست مان لیا گیا ۔ ۔مینیج والی بات کسی چلتے پھرتے نے نہیں کی، اگر کی ہوتی تو ہم اس کا نوٹس بھی نہیں لیتے ، جب ایسے دعوے ہم نیوز کے وہ لوگ کریں جو بااختیار ہوں اور جن کا شمار باسز میں ہوتا ہو تو پھر پپو کو حرکت میں آنا پڑتا ہے۔۔کیونکہ جب بااختیار اور باسز ٹائپ لوگ اس قسم کے دعوے کریں تو عام ورکر بیچارہ اسے سچ سمجھ لیتا ہے،پپو نے تو یہ بھی بتایا کہ چائے کے وقفے میں نچلے درجے کے ملازمین ایک دوسرے کے کانوں میں یہ سرگوشیاں تک کرتے پائے گئے کہ ۔۔عمران جونیئر بک گیا ہے۔۔ ایسی باتیں کرنے والوں کو شاید ہمارا بیک گراؤنڈ نہیں معلوم۔۔ ایک بار پھر سن لیں۔۔ ہم نیوز کے بااختیار لوگوں اگر مینیج والا ہوتا تو آج کرائے کے گھر میں نہ ہوتا، بے کار یعنی پیدل نہ ہوتا، بیروزگار نہ ہوتا۔۔ مینیج وہ بھی تم کروگے ، جن کی اوقات ، جن کی اہلیت، جن کا پورا شجرہ نسب پپو نہ صرف اچھی طرح جانتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو ڈیل کرنا بھی جانتا ہے۔۔ تم لوگوں سے ایک چینل تو “مینیج” ہوکر نہیں دے رہا تم لوگ عمران جونیئر کو مینیج کروگے؟ تم لوگ جس چینل کو چلانے کے بدلے لاکھوں میں سیلریاں لے رہے ہو وہ تم سے مینج نہیں ہورہا چلے ہو عمران جونیئر کو مینیج کرنے۔۔پپو نے اب مینیج والی کوئی بات ہم نیوز ہیڈ آفس میں سنی تو پھر ایسی باتیں کرنے والوں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے گا، بلکہ ان کا شجرہ نسب اور کرتوت بھی کھل کر بیان کئے جائیں گے۔۔اسے پہلی اور آخری وارننگ سمجھیں ہماری جانب سے۔ ۔ ہم نیوز سے متعلق پپو کی کچھ تازہ اپ ڈیٹس بھی سنتے جایئے۔۔درید صاحب اور سلطانہ آپا تک ہماری یہ تحریر ضرور پہنچے گی ، ہماری ان دونوں سے التماس ہے کہ برائے کرم ہماری گزارشات پر غور ضرورکیجئے گا۔۔
سب سے تومسئلہ یہ ہے کہ ہم نیوز کے مسائل کیا ہیں؟؟ پپو کے مطابق ۔۔ہم نیوز کی ناکامی کی تین بڑی بنیادی وجوہات ہیں۔۔ نمبرایک، غیرضروری افراد کی ہائرنگ۔۔نمبر دو، آپریشن کا ٹھیک سمت میں نہ چلنا، نمبر تین، کانٹینٹ اور اسکرین پریزنٹیشن کا ہم آہنگ نہ ہونا۔۔ اب سلسلے وار ان وجوہات کی گہرائی میں جاتے ہیں اور مسئلے کی جڑ تک پہنچتے ہیں۔۔غیر ضروری افراد کی ہائرنگ:ہم نیوز کی موجود ہ یعنی نئی انتظامیہ کی ٹیم سلیکشن میں یہ کوتاہیاں رہیں کہ ایک تو ایچ آر کی چیکنگ کے بغیر من پسند لوگ ہائر کئے گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں کانیوز روم میں کوئی بہتر مصرف ہے اور نہ ہی ان کی ہائرنگ کو عقل مندی کہا جارہا ہے ۔ پینل ہیڈ کو پروڈکشن ہیڈ کہہ کر لایا گیا جن کا تجربہ پروڈکشن میں خاصا کم ہے اور ان کی اپنی ساری توجہ پینل کے بجائے پروف ریڈنگ اور چینلز مانیٹرنگ پر زیادہ ہوتی ہے ۔ فیاض راجہ جو جیو کے ساتھ کافی عرصے تک ایکسکلوسو اور ڈاکیومنٹری پر کام کرتے رہے انہیں اک کونے میں صرف بٹھا دیا گیاہے ۔ ان سے ان کے کام کی ان پٹ کے علاوہ سب کچھ لیا جارہا ہے ۔ نئی اینکرز جن کا ٹیسٹ اگر آج خود انتظامیہ لے تو ایک دم فیصلہ ہونے کی اُمید ہے کہ یہ وہ میٹریل نہیں جس کی مانگ ہم نیوز نے کی تھی ۔پپو کا کہنا ہے کہ ایک خاتون اینکر کے متعلق تو ہم نیوز آفس میں یہ مشہور ہے تو کہ کاش یہ کوئی ایک جملہ بنا کسی غلطی کے پڑھ لیں۔۔ جب یہ اہلیت اور معیار ہوتو چینل کہاں کھڑا ہوگا خود سوچیں۔۔ یہی حال کنٹرولر نیوز کا بھی ہے جنھیں شاید پہلی بار مین نیوز روم بیٹھنے کا موقعہ ملا ہے ۔ اس سے قبل وہ اسلام آباد میں ہی جیو نیوز کے بیورو آفس میں رہے ہیں ۔ان صاحب کا تجربہ بھی نیوز چلانے کے بجائے اسائمنٹ اور کاپی کا ہے۔
آپریشنز کا ٹھیک سمت میں نہ چلنا: نیوز کے آپریشنز کو ٹھیک سمت میں چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپریٹر کو آپریشنز سمجھ آتے ہو اور کسی بھی ناکامی کی صورت میں متبادل فوری طور پر دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آپریشنز کی بہتری یہیں سے دیکھی جاسکتی ہے کہ نیوز روم کے آدھے سے زیادہ فیصلےکنٹرولر نیوز کی غیر موجودگی اور واٹس ایپ نہ دیکھنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں یا فیصلے ہو ہی نہیں پاتے ۔ کنٹرولر نیوز کی حیثیت ڈائریکٹر نیوز کی غیر موجودگی میں شیڈو نیوز ڈائریکٹر کی ہوتی ہے جو ہمہ وقت جاب ہے ۔ جب کہ کنٹرول نیوز روزانہ پرائم ٹائم کی خبریں بننے کے دورانیے میں تین سے چار گھنٹے اپنی نوکری کے پہلے دن سے غائب رہتے ہیں۔۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ صبح گیارہ سے بارہ کے دوران آفس میں داخل ہونے والے رات کو آفس سے جارہا ہے لیکن جب ایک بجے کی ہیڈلائن کے بعد وہ اچانک نکلتے ہیں تو تین سے چار گھنٹے میں واپسی ہوتی ہے، اس دوران نیوزروم لاوارث چل رہا ہوتا ہے۔ دورِ جدید کے تیزی بدلتے تقاضوں کی وجہ سے کنٹرولر نیوزبہت ہی متحرک رہنے والی سیٹ بن چکی ہے ۔ جس کے ذمے پورے نیوز کے آپریشنز کا ٹھیک ٹھیک چلانا اور سب سے زیادہ اس کی بتائی لائنز پر چینل کا ریٹنگ کمانا ہوتا ہے۔ ریٹنگ کے لیے یہ کہنا کہ موجودہ ملازمین ہی وہ ملازمین ہیں جو پہلے نمبر سات یا چھ پر ہم نیوز کو لے کر کھڑے تھے اب ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ کہنے والوں کوپھراپنی ہی اداوں پر غور کرنا چاہیے کہ ٹیم سے اچھی طرح کام کون نہیں لے پارہا ؟ کیوں کہ ٹیم بھی وہی ہے سیٹ اپ بھی وہی ہے بس انتظامیہ اور چند پالیسیاں بدلی ہیں ۔
کانٹینٹ اور اسکرین میں ہم آہنگی نا ہونا: پپو کے مطابق ہم نیوز کے پاس رپورٹرز کم نہیں ، رپورٹس کم نہیں، بس ٹھیک طرح کام کرنے والے لوگ کم ہیں ۔ کانٹیٹ کی اسکرین پر بہتر پریزینٹیشن کی ذمہ داری تمام نیوز روم کی ہوتی ہے پر اس کا سہرا جاتا ہے پروڈکشن ہیڈ یا آوٹ پٹ ہیڈ کے سر۔ اگر کانٹینٹ میں جاذبیت نا ہو تو ان پٹ ذمہ دار اگر اسکرین پر نیوز کا کانیٹنٹ ٹھیک نا ہو تو آوٹ پٹ کا کیا دھرا ہوتا ہے ۔ آج کل تمام نیوز چینلز کے پاس خبریں کم و بیش ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں بس انہیں اگر کوئی شے عوامی قبولیت تک لے جاتی ہے وہ ہے اس کی پریزنٹیشن جو کہ ہم نیوز کی پہلے سے کافی کمزور ہے ۔ اینکرز اسکرین پربیٹھے بالکل کورے لگتے ہیں ۔ جن خبروں پرکھیلنے کا مارجن ہوتا ہے بسا اوقات انہیں صرف بریکنگ یا او سی وی او کرکے خانہ پری کر دی جاتی ہے ۔ اگر موجودہ انتظامیہ چینل میں کچھ بہتری لانا چاہتی ہے تو آوٹ پٹ پر توجہ دے کیوں کہ پرنٹ کے زمانے کے اک آدمی کے ہاتھ ایک الیکٹرونک چینل دے دینا بھٹا بٹھا دے گا جس سے سیکڑوں لوگوں کی روزی روٹی پر فرق پڑے گا۔
یہ تو تھیں چند موٹی موٹی گزارشات جو پپو نے ہم نیوز انتظامیہ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔۔ اب ہم نیوز سے متعلق پپو کی مزید مخبریاں بھی سن لیجئے۔ گزشتہ دنوں ہم نیوز کے سی ای او درید صاحب اسلام آباد پہنچے ۔ انہوں نے آتے ہی عید کے شوز اور پرائم ٹائم سے متعلق اک رپورٹ مانگ لی۔ رپورٹ دیکھ کر سی ای او نے کافی دکھ کا اظہار کیا کہ ایک اینکر جس سیاست دان کو صبح انٹرویو کر رہا ہے اسی سیاست دان یا سلیبریٹی کو شام کو اسی چینل کا دوسرا اینکر انٹرویو کر رہا ہے ۔ عید شوز کی میزبانی کے فرائض نورِ نظر اینکر کو سونپے گئے جن کا اندازولہجہ بالکل عید شو والا نہیں تھا۔ مہمانوں کی فہرست میں ان شخصیات کے نام تھے جو روزانہ ٹاک شوز پرصرف اک مس بیل پر بھی آ جایا کرتے ہیں۔ ہم نیٹ ورک کے ڈرامہ چینل سے بھی سپورٹ لے لی جاتی تو شوز میں ہم نیٹ کے گلیمروالے عنصر کی ہی لاج رہ جاتی ۔۔پپو کے مطابق ہم نیوز کی اسکرین دیکھو تو ہر طرف “نورنظر” اینکر ہی دکھائی دیتی ہے، چاہے کوئی بھی پروگرام ہو، خصوصی نشریات یا پھر رات نو کا بلیٹن، لگتا ہے دیگر سارے اینکر نااہل ہی بھرتی ہوگئے۔۔ جبکہ دیگر اینکرز جو ہم نیوزکے فلسفے، ٹیم، اور اسکرین سے گھل مل گئے ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔۔انہیں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی میں سے سات گھنٹے فارغ بٹھا کر آٹھویں گھنٹے صرف اک بلیٹن دیاجاتا ہے ۔وہ بیچارے اس پر بھی خاموش ہی رہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ جو بولے گا وہ باہر کا راستہ پکڑے گا۔۔پپو کے مطابق حیرت تو اس بات پر ہے کہ جیونیوزکے پروگرام رپورٹ کارڈ کا ٹوٹل چربہ ہم نیوز کی اسکرین پر ویوزمیکرز کے نام سے چل رہا ہے، یہ شو شروع ہی اس وقت کیا جاتا ہے جب جیوشروع کرے، کیونکہ جو جیودے گا وہی ہم نیوز دے گا،شاید اب یہ فلاسفی ادارے کی بنیادی پالیسی بن چکی ہے، حیرت انگیز طور پر جو جیونیوز کا پہلا سوال ہوگا وہی اس شو کا بھی پہلا سوال ہوگا۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نیوز کے مالکان بڑے مہمان نواز اور ورکرز دوست ہیں لیکن اس وقت کیا کیا جائے جب عید شوز میں مہمانوں کا قحط ہی پڑجائے پھر اسلام آباد کے بیوروچیف کو مہمان بننا پڑجائے۔۔
پلٹ کر آتے ہیں ہم نیوز کی بات پر جہاں یہ بھی ذکر ہے عمران جونیئر کو اچھے سے مینیج کر لیا گیا ہے اسی لیے اب ہم نیوز سے متعلق خبریں نہیں آرہی۔ یہاں اپنے دوست کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مینیج کرنے کے لیے مینجمنٹ کا ہونا ضروری ہے جو کہ آپ کو نہیں آتی ۔ یہی مسئلہ ہم نیوز کو تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ ہم نیوز کے تمام ملازمین اپنے مالکان کے حق میں مخلص اور قدر دان ہیں کیوں کہ ان ملازمین میں سے اکثریت ان چینلز سے آئی ہے جہاں کئی کئی ماہ انہیں تنخواہ کے بنا ہی بیگار دینی پڑتی تھی ۔ جہاں تک بات ہے نئی مینجمنٹ کی وہ عمران جونیئر کو تو کیا اپنے ورکرز کو بھی اب تک ٹھیک سے مینیج نہیں کرپارہی۔۔ملازمین کی تنخواہیں آپ کاٹ رہے ہیں جو کہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مردے کے بال اتار کر کہہ دیا جائے کہ اب وزن کم ہو جائے گا۔ریٹنگز آپ کی بہتر نہیں ہو پارہی جس کے لیے ہم نیوز کے سی ای او ذاتی حیثیت میں کبھی سینٹورس میں میٹنگ کرتے ہیں کبھی پی ایم سیکٹریڑیٹ میں تو کبھی کسی اورسے ۔۔ہمارا درید صاحب کو انتہائی ہمدردانہ مشورہ ہے کہ وہ ایک ریٹنگز بڑھانے والی میٹنگز کے علاوہ بھی ان عناصر کو دیکھ لیں جو چینل کے اندرون چل رہے ہیں ۔ آپ کا ایچ آر اب نئی انتظامیہ کے سامنے ہم نیوزکی پالیسوں کو روزروندتے ہوئے دیکھتا ہے، اور خاموش رہتا ہے ۔ا ٓپ کا کریٹو اب اس طرح متحرک نہیں جس طرح گزشتہ سال تھا اسکرین پران کا ان پٹ 70 فی صد سے 20 فیصد تک بمشکل رہ گیا ہے ۔ ہم نیوزکی اپنی الگ شناخت اس کی ڈیٹا جرنلزم تھی جو اسے دیگر چینلز سے اوپر لارہی تھی۔۔وہ اب بالکل نہیں دکھائی دیتی ۔ ہم نیوز پشاوراور کوئٹہ کے آفسزمیں جو تبدیلی لائی گئی کیا اس پر بیورو چیف صاحبان سے بات کیجیے کہ کیا بہتر ہوا ۔بیورو چیفس سے اک بار براہ راست فیڈ بیک تو لیں ہو کیا رہا ہے؟ ۔ان کے کون سے معاملات کی ای میلز ہیں جو کئی کئی ماہ سے رکی رہتی ہیں ۔ کون کون سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے آپ کی اسکرین مسلسل متاثر ہو رہی ہے ۔ اگر جیو کی نقل ہی کرنی ہے تو اس کے ماڈل سیٹ اپ کریں جہاں اس قدر شفافیت ہوتی تھی ہر اک کو یقین ہوتا تھا کہ اگرکسی کا باس اس کے خلاف ہے تو بھی اس کا کام اور محنت رکارڈ پر ہے اس صرف کام پر دھیان رکھنا ہے بے یقینی کی کسی افواہ پر نہیں ۔ چاہیں تو اپنے ایچ آر سے اک سروے کر الیں جو ہم نیوز کے تمام ملازمین سے رازداری سے فیڈبیک لے،تاکہ آپ کو بھی معلوم ہوسکے کہ آپ کے چینل کے ملازمین کی آگے کی سوچ کیا ہے ۔
ہم نیوز کی باتیں بے شمار ہیں،پپو کی مخبریوں کے ڈھیر ہیں۔۔ دریدصاحب کے بعد اب مالک صاحب سے متعلق بھی کچھ ذکر ہوجائے، ہم نیوز کےصدر جناب محمد مالک صاحب جو اپنے عہدے اور پروگرام کی وجہ سے ہمہ وقت نیوزروم کی سرپرستی نہیں کرسکتے، اس صورت میں ان کے جو ماتحت ہیں انہیں اپنا کام کرنا چاہیئے،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ایسا قطعی نہیں ہورہا، پپو کے مطابق خود مالک صاحب کی ٹیم کے افراد انہیں بھی اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں ۔ پپو کے مطابق مالک صاحب کی دی گئی ہدایات اور تجاویز پر عمل درآمد ہی نہیں کرایا جاتا اور زبانی خرچ کر دیا جاتا ہے کہ ہو گیا، کردیا ہو جائےگا ، ابھی پراسسس میں ہے ۔اگر مالک صاحب اپنی ڈائری کھولیں یا یاد داشت پر زور دیں تو شاید جان سکیں کہ ہم نیوز میں انہوں نے جس جس تبدیلی یا کمزوری پر قابو پانے کا کہا وہ کس حد تک عملی شکل میں سامنے آئی ۔ مالک صاحب کے لئے بھی پپو کا اک مشورہ ہے کہ اپنی پرانے سنگی دوستوں کے علاوہ ان لوگوں سے بات کر لیا کریں جو اس فیلڈ میں آپ کے سنگی یاروں سے کافی ماہر یا پرانے ہیں، اور ہم نیوز میں ہی ملازم ہیں، کم از کم حقیقت حال تو سامنے آجایا کرے گی ۔ مالک صاحب آپ کی موجودہ ٹیم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے ہم نیوز کی ریٹنگز میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا اور اگر اب نہیں کر پارہی تو آپ کو سوچنا ہے کہ ریس میں دوڑنے والے گھوڑے کب سے خچر ہوگئے ،کہیں معاملہ یہ تو نہیں کہ آپ کی ویژن اور ہدایات کو ان تک ٹھیک پہنچایا نہیں جارہا یا جو ہدایات آپ دیتے ہیں اس میں کسی اور کے فیڈ بیک سے وہ ویژن دھندلا دیا جاتا ہے ۔
ابھی ہم نیوز کا ٹاپک ختم نہیں ہوا، ہم اگلی قسط میں ہم نیوز سے متعلق اور بھی کئی انکشافات کریں گے۔۔پپو کی مخبریاں بے شمار ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس بار سینہ بہ سینہ کو ہم نیوز نامہ نہیں بنانا چاہتے، اس لئے مزید کیلئے آپ کو صرف جمعہ گزارنا ہوگا، ہفتے کی رات دس بجے مزید بہت کچھ پڑھیئے گا، فی الحال ہم نیوز کے بااختیار لوگوں کے لئے صرف اتنا ہی پیغام ہے کہ پہلے اپنا کام مینیج کرلیں، عمران جونیئر کو مینیج کرنے کا خیال دل سے نکال دیں۔۔
پشین میں سی آئی اے پولیس نے کامیاب کارروائی کے بعد لوگوں کو بلیک میل کرنے والے صحافی کو گرفتارکرلیا۔۔ گرفتار صحافی محمد عیسیٰ فون پر لوگوں کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے کی ڈیمانڈ کرتا تھا، متاثرین نے اس کے خلاف ایف آئی اے کو بھی درخواست دے رکھی تھی، ملزم کے قبضے سے نجی ٹی وی کا پریس کارڈ اور موبائل سم بھی ملی ہے، ملزم پشین کا رہائشی جب کہ کارڈ میں رپورٹنگ اسٹیشن کچلاک تحریر ہے، انچارج سی آئی اے اسد مندوخیل کے مطابق گرفتار صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔۔مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔۔
اب ذکر ایسے اینکر کا جسے انتہائی دھوم دھام بلکہ دھوم دھڑکے اور واہ وا کے شور میں رکھاگیا لیکن جب اسے نکالا گیا تو کافی بے عزت کرکے۔۔جی ہاں، پپو کا کہنا ہے کہ کوہ نو ر چینل میں مارویہ ملک پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کی پہلی ٹرانس جینڈر(خواجہ سرا) اینکر تھی، جس نے ادارے کی شہرت کو چارچاند لگادیئے،اسی اینکر کی وجہ سے کوہ نور کو عالمی میڈیا میں پذیرائی ملی، بی بی سی، سی این این اور دیگر عالمی چینلز کے علاوہ ملک بھر کے چینلز اور اخبارات میں اس کی دھوم مچی، غیرملکی سفیروں اور انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندوں نے کوہ نیوز چینل کے دورے کئے اور مبارک باد پیش کی، اسی مارویہ ملک کو میڈیا انڈسٹری کے بڑے ناموں والے اینکرز نے اپنے ٹاک شوز اور مارننگ شوز میں بلا کر ریٹنگ میں اضافہ کیا۔کوہ نور کے مالک نے جوکہ ایک نان پروفیشنل بندہ ہے دیکھا کہ اس کا چینل شہرت کی بلندیوں کو چھورہا ہے تو اس نے بہانے بہانے سے لوگوں کو نکالنا شروع کیا ،آخر میں باری ہوئی مارویہ ملک کی۔۔ٹرانسجینڈر اینکر کو جب بتایاگیا کہ اسے نکال دیاگیا ہے تو اس نے جبری استعفے پر احتجاج کیا، اس تنازع سے بچنے کے لئے چینل مالک کا بیٹا پہلے ہی بیرون چلاگیا کیوں کہ وہ جانتا تھا شور مچنا ہے۔۔مالکان کے بعد ادارے کے معاملات کو دیکھنے والا ایچ آر ہیڈکی عقل کو داد دیجئے کہ اس نے معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹانے کے بجائے اینکر کو دھمکانا شروع کردیا، بھرے نیوز روم میں اسے سب کے سامنے گندی گندی گالیاں دی گئیں، اینکر نے جب یہ حالات دیکھے تو اس نے اپنی ہی جنس کے “گُرو” کو فون کرکے بلوالیا،سارے معاملات اس کے سامنے رکھے، پپو کو اس دوران یہ پتہ چلا کہ اینکر کو ماہانہ ایک لاکھ روپے سیلری اور چالیس ہزار روپے فلیٹ کے کرائے کی مد میں دیاگیا، گرو کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایچ آر ہیڈ نے یہ شرط رکھی کہ ایک لاکھ روپے کی سیلری جواب کم کر کے صرف بیس ہزار کی جائے گی اور مارویہ ملک اپنے رہائش کا انتظام خود کرے گی. اس گومگو کی کیفیت میں مارویہ ملک نے اپنی وہ تمام آفرز جو اس کو دیگر چینلز کی طرف سے دی گئی تھی گنوائی لیکن ایچ آر ہیڈ کے کان پر جوں تک نہ رینگی. آخرکار مذاکرات کا بہانہ بنا کر صرف ایک مہینہ مزید مارویہ ملک کو ایکسٹینشن دی گئی. اور پھر مہینے کے آخر میں ایک لاکھ روپیہ دے کر اس کو چینل سے نکال دیا گیا۔۔پپو کے مطابق اس دوران اینکر نے مانیٹرنگ روم کی اکیس ایل سی ڈیز کی اسکرین توڑ ڈالیں۔۔
آج نیوز کی اپ ڈیٹس بھی پپو سے لے لیں، پپو کا کہنا ہے کہ بروز منگل یعنی بیس اگست کو جب کرکٹر حسن علی کی شادی کا دن تھا، رات نو والے بلیٹن میں بھارتی گیت چلادیاگیا، ایک طرف کشمیر پر بھارتی مظالم کے خلاف ملک گیر احتجاج کو ابھی صرف چار روز ہی گزرے تھے کہ چار کے ٹولے میں شامل ایک صاحب نے اپنے نام نہاد ڈی ڈین کے کہنے پر یہ حرکت کرڈالی، اس سے پہلے ہم نیوز کے مالک صاحب نے اپنے پروگرام میں بھارتی کو فون پر لیا تھا جس کی وجہ سے پیمرا نے جواب طلبی کرلی، پیمرا کی پابندی کے باوجود پرائم ٹائم کے مین بلیٹن میں بھارتی گانا چل جانے پر نیوز ون سے آنے والے نئے کنٹرولر نے اپنا سرپکڑ لیا،وجہ صاف تھی کہ اس کی نوکری داؤ پر لگ گئی تھی، اس نے فوری طور پر اس حرکت کے ذمہ دار چار کے ٹولے کے ان صاحب کو بلوایا اور فلور پر کھڑے ہوکر سب کے سامنے کھری کھری سناڈالی، پپو کی زبان میں ذلیل کرڈالا۔۔ چار کے ٹولے کی حرکتیں جاری ہیں، ان کے کرتوت سے پچھلی کچھ تحریروں میں پردہ بھی اٹھاچکے ہیں، یہ ٹولہ نئے کنٹرولر کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے، پروڈکشن اور اسائنمنٹ پر چار کے ٹولے نے اپنے اعتماد کے لوگ بٹھائے ہیں۔۔وہ محترمہ اینکر جنہیں اینکرنگ کی الف بے کا نہیں پتہ، خیر سے دو لاکھ سیلری کے قریب پہنچ چکی ہیں لیکن جب بھی کوئی بڑا دن آجائے ، کوئی بڑی بریکنگ آجائے تو اسے فوری آگے پیچھےکردیاجاتا ہے کیوں کہ اسے رکھنے والوں کو پتہ ہے اسے یہ کام نہیں آتا، بلکہ جو کام آتا ہے وہی کام کررہی ہے۔آج نیوز کی چار کے ٹولے کے حوالے سے پپو کی مزید مخبریاں اگلی قسط میں دیں گے، جو آپ ہفتے کی رات پڑھ سکیں گے۔۔
نیوزون میں سیلری کے منتظر ورکرز کا برا حال ہے، اپریل کی سیلری بقرعید سے قبل دی گئی جس کے بعد مئی ،جون اور جولائی کی تنخواہوں کا انتظار ہے ، ورکرز کو یہ تک نہیں بتایاجارہا ہے کہ کب تک سیلری دی جائیں گی۔۔ ایک ورکر نے ہمیں رابطہ کیا اور اپنا دکھڑا سناتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ رودیا، جس سے اندازہ ہوا کہ واقعی ورکر بیچارہ مشکل میں ہے، پپو نے نیوزون کی انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ کم سے کم اتنا تو کرلیں کہ کم تنخواہوں والے غریب ورکرز کی تنخواہ ہر ماہ دینے کی کوشش کریں کیوں کہ بیچارے سیلری نہ ملنے پر فاقہ کشی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے۔۔
تحریر لمبی ہوجائے تو آپ لوگ بھی بوریت کا شکار ہونے لگتے ہیں، اس لئے آج کے لئے صرف اتنا ہی، لیکن مایوس ہونے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں، اگلی قسط ہفتے کی رات دس بجے ضرور آئے گی، جس میں آج نیوز کے چار کے ٹولے سے متعلق کچھ مزید انکشافات، ہم نیوز کی نئی انتظامیہ کا مزید پوسٹ مارٹم، ہراسمنٹ کے کچھ واقعات،بول نیوزپر بھی ہوگی بات، کس چینل کی ڈی ایس این جی کرانے لگی غیرقانونی تعمیرات، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ، پپو آپ کے لئے وہ سب لائے گا جس کی آپ اس سے توقع کرتے ہیں۔۔ (علی عمران جونیئر)۔۔
نوٹ: یہ بلاگ عرصہ چار سال سے پڑھا جارہا ہے، میڈیا انڈسٹری کے سب سے مقبول سلسلے میں دی گئی مخبریاں کافی چھان پھٹک کے بعد دی جاتی ہیں، پھر بھی اگر کوئی متاثرہ فریق یہ سمجھتا ہے کہ اس بلاگ میں اس کے خلاف لکھ کر زیادتی کی گئی ہے تو وہ انباکس میں ہم سے رابطہ کرکے اپنا موقف دے سکتا ہے، ہم اگلے سینہ بہ سینہ میں اس کا موقف لازمی دیں گے۔۔ اس بلاگ کا مقصد کسی بھی میڈیا پر ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی،ظلم اور ناانصافی کو سامنے لانا ہے جب کہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں اور کرپٹ و نااہل عناصر کو بے نقاب کرنا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے، علی عمران جونیئر