تحریر: عمیرعلی انجم
میں ایک مرتبہ پھر خالی ہاتھ گھر واپس جارہا تھا ۔۔محلے کے دکاندار نے صاف کہہ دیاتھا کہ جب تک پچھلا حساب چکتا نہیں کرتے وہ مزید ادھار نہیں دے سکتا ۔۔مجھے نوکری سے نکلے ہوئے کوئی چھ ماہ ہوگئے ۔۔جس ادارے کو اپنی ساری زندگی دے دی اس نے گھر بھیجتے ہوئے اتنا بھی نہ دیا کہ چھ ماہ گھر کا چولہا ہی جل سکے ۔۔ساری زندگی قلم چلاتا رہا ۔۔لوگوں کے دکھوں کو دنیا کے سامنے لاتا رہا اور آج جب میں خود تہی دامن ہوں تو آس پاس کوئی سایہ تک نظر نہیں آتا ۔۔گھر میں بچوں کے سوالات سے بچنے کے لیے شہر کی سڑکوں پر مٹر گشت کررہا تھا ۔۔ذہن تو جیسے بالکل ماؤف تھا ۔۔ اچانک ایک اخبار کے اسٹال پر نظر پڑی ۔۔چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں ۔۔قدم خود بخود اس جانب بڑھ گئے ۔۔مختلف اخبارات کی سرخیوں پر نظر ڈالتا رہا ۔۔وہی ہنگامہ خیز خبریں ۔۔وہی امیدیں ۔۔وہی دلاسیں ۔۔کبھی یہ سب میرے ہاتھوں کا کمال ہوتا تھا ۔۔کیسی کیسی سرخیاں میں نے نہیں نکالی تھیں ۔۔اچانک میری نظر ایک تصویر پر ٹک کر رہ گئی ۔۔میں نے آنکھیں کھول کر ایک مرتبہ پھر اس تصویر کو دیکھا ۔۔کسی بڑے ہوٹل کی تصویر تھی ۔۔اور وہاں جو افراد بیٹھے تھے وہ کبھی میرے اپنے ہی تھے ۔۔یہ وہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ ہم تمہارے رہبر ہیں ۔۔ہم تمہارے رہنما ہیں اور جب کبھی بھی تم پر برا وقت آیا تو ہم سب سے آگے کھڑے ہوں گے ۔۔لیکن یہ کیا جب آج میری جیب اور میرے بچوں کے پیٹ کے خالی ہیں تو پھر یہ عظیم رہنما ان پانچ ستارہ ہوٹلوں میں کیا کررہے ہیں ۔۔۔میں اس تصویر کے ساتھ منسلک خبر کی تلاش شروع کردی ۔۔۔اور بالآخر مجھے خبر نظر آہی گئی ۔۔علم ہوا کہ ملک بھر سے عظیم رہنماؤ ں کے عظیم” کارکن ”کسی اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں ۔۔نئے رہنماؤں کا انتخاب ہورہا ہے ۔ ۔لیکن یہ انتخاب ہو کیوں رہا ہے ۔۔ان کا مسئلہ میں اور میرے جیسے سیکڑوں بے روزگار صحافی ہونے چاہئیں ۔۔یہ کیا الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں ۔۔ یہ لاکھوں روپے کے اخراجات کیوں ہورہے ہیں ؟؟کیا یہ انتخابات چھ ماہ کے لیے موخر نہیں کیے جاسکتے تھے ؟؟کیا اجلاس کے لیے لٹائے گئے لاکھوں روپے بے روزگار صحافیوں کے گھروں کا چولہا جلانے کے لیے استعمال نہیں کیے جاسکتے تھے ؟؟ رمضان المبارک قریب ہے اور اس کے بعد عید کی آمد آمد ہوگی ۔۔کیا یہ عظیم رہنما ان لاکھوں روپوں کو ہمارے بچوں کے لیے وقف نہیں کرسکتے تھے ؟؟ سوالات تھے کہ میرے ذہن میں اٹھتے ہی جارہے تھے ۔۔میں جو پہلے ہی مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اترا ہوا تھا مجھے اپنا پورا وجود لرزتا ہوا محسوس ہوا ۔۔یہ کیا دھوکا ہوا ہے ہمارے ساتھ ۔۔۔میرے قدم یکدم واپسی کی طرف مڑگئے ۔۔شل ذہن کی طرف گھر کی بڑھ رہا تھا کہ کسی نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روک لیا ۔۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو میرا ہی ایک ساتھی تھا ۔۔آنکھیں تھیں کہ کسی خشک صحرا کا منظر پیش کررہی تھیں ۔۔میں نے پوچھا کیا ہوا ؟؟؟ نوکری ملی ؟؟؟گھر میں راشن کا کوئی انتظام ہوا ؟؟؟اس کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ رکنے کا نا م ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔اس نے میرا ہاتھ تھام لیا ۔۔اس کی گرفت بہت سخت تھی ۔۔اور پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا ۔۔کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے ہمارے ایک عظیم رہنما نے اسلام آباد میں بم پروف گھر بنالیا ہے ؟؟؟؟بم پروف گھر ؟؟؟میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا لیکن کیوں ؟؟؟جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا ۔۔جواب میرے پاس بھی نہیں ہے ۔۔فائیو اسٹار ہوٹلوں سے لے کر بم پروف گھروں تک ۔۔یہ ایک دنیا ہے اور ایک ہماری دنیا ہے جو ادھار سے لے کر بھوک پر ختم ہوتی ہے ۔۔میرے ساتھی نے ایک مرتبہ پھر میرے کاندھے پر ہا تھ رکھا اور کہا کہ ادھار راشن ملا ؟؟؟ میں نے کہا کہ نہیں ؟؟؟اس نے کہا بھوک سے آگے کون سی منزل ہے ؟؟؟میں نے بے ساختہ کہا موت۔۔۔(عمیر علی انجم)