تحریر: شہریارخان۔۔
ہم صحافی لوگ ۔۔ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ لوگ بس شو کیس میں سجی کسی ڈمی کی طرح ہوتے ہیں جن پر نئی نئی پوشاکیں آتی ہیں سجتی ہیں لوگ پسند کرتے ہیں اور وہ بکتی ہیں، اس ڈمی پر لباس تبدیل ہوتے رہتے ہیں، کپڑوں کی جھاڑ پونچھ بھی ہوتی ہے لیکن اس ڈمی کا اپنا کوئی چہرہ یا اپنا لباس نہیں ہوتا۔
وہ ڈمی بس پراڈکٹ کی فروخت کے لیے سجتی ہے ، پروڈکٹ کی سیل جتنی بھی ہو اس کا فائدہ مالک کو ہوتاہے، شاید سیلز مین بھی کوئی کمیشن لیتا ہو لیکن ڈمی کے نصیب میں اسی طرح کھڑے رہنا لکھا ہے جیسے دکاندار چاہے۔ اس کا ہاتھ ٹوٹ جائے تو بھی کیا اسے ایلفی سے جوڑ کر اس پر کپڑا باندھ دیتے ہیں نئے ملبوس کے نیچے اس ڈمی کے ہاتھ پیر ٹوٹے بھی ہوں تو کون دیکھتا ہے؟۔
یہی المیہ ہے ہماری انڈسٹری کا بھی۔۔ چوبیس گھنٹے کے ملازم یہ صحافی اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کوئی نہیں جانتا۔ ان کے کیا مسائل ہیں کوئی جانتا نہ ہی جاننا چاہتا ہے۔۔ بس ڈمی پر ملبوسات تبدیل کرتے رہو۔۔ وہ صحافی ہی کیا جس کی خبر میں اس کے جذبات دکھائی دے جائیں۔لوگ تو ان بڑے بڑے اینکرز کو دیکھ کر سوچتے ہیں یہ سب ایک جیسے ہیں، انہیں تمام صحافی بھی گند میں لتھڑے نظر آتے ہیں جبکہ یہ اینکرز تو صحافی بھی نہیں۔کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی فلم پروڈیوسر، کوئی فیشن ڈیزائنر تھا تو کوئی وکیل، کوئی سابق بیوروکریٹ ہے تو کوئی ناکام سیاستدان۔۔۔ یہ سب صحافیوں کی جگہ لے کر بیٹھے ہیں اور ان کے سیاہ کارناموں کو دیکھ کر لوگ صحافیوں کو بھی کرپٹ سمجھتے ہیں۔یہ لوگ نہیں جانتے کہ سب کے لیے آواز بلند کرنے والا صحافی۔۔اپنے حقوق کی بات تک نہیں کر سکتا۔ کوئی نہیں جانتا کسی وزیر سے کسی سیاستدان سے یا پھر کسی بیوروکریٹ سے سخت سے سخت سوال پوچھنے والا صحافی اپنے دفتر میں تنخواہ دو ، تین ماہ تک نہ ملنے پر بھی کسی سے کوئی سوال کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔
یہاں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ملازمت پر رکھنے کے ضوابط تو ہیں مگر انہیں برخاست کرنے کا کوئی قانون نہیں، کسی عدالت میں کوئی ریلیف نہیں ملتا۔کل ایک دوست نے مجھے بتایا کہ کئی اداروں میں تنخواہوں میں غیرمعمولی تاخیر کے باعث صحافی اپنے بچوں کی سکول فیس جمع نہیں کروا پائے، فیس جمع نہ ہونے پر ان کے رزلٹ روک لیے گئے، رزلٹ روکے گئے ہیں تو وہ اگلی کلاس میں نہیں جا سکتے۔
یہاں بات ختم نہیں ہوتی بلکہ ٹریجڈی اس سے آگے ہے یعنی کسی طرح ادھار پر اپنے گھر کے چولہے بمشکل گرم رکھنے والا صحافی بچوں کو اب تک یہ بتانے پر مجبور ہے کہ سکول ابھی تک بند ہیں کیونکہ فیس جمع کروا بھی دیں تو نیا یونیفارم، نئے بستے، نئی کتابیں، نئی سٹیشنری کہاں سے آئے گی؟۔۔کوئی بھی اپنے ساتھیوں کے ایسے حالات سن کر دکھی تو ہو گا مگر مجھے دکھ یہ بھی ہے ان دکھوں کا مداوا نظر نہیں آتا، مجھے ان ساتھیوں کے سروں پر کوئی سائبان دکھائی نہیں دیتا، کیا ان کے بدن صرف زمانے کی گرم دھوپ سے جھلسنے کے لیے رہ گئے ہیں؟۔۔ کیا کوئی ان کے بچوں کو سکول بھیج پائے گا؟ کیا دنیا بھر کے حالات پر ازخود نوٹس لینے والا کوئی منصف ہمارے حالات پر بھی ازخود نوٹس لے گا؟
نہیں جناب۔۔ مجھے نہیں لگتا۔۔ وہ جن سے حکومتیں کانپتی ہیں، وہ جن سے بیورو کریٹس گھبراتے ہیں، وہ مالکان ہر سال گرمیوں، سردیوں کی چھٹیاں بیرون ملک گزارتے ہیں کوئی انہیں روکنے والا نہیں ۔ وہ ریاست جو ہر شہری کے لیے ماں کی طرح ہوتی ہے اس نے صحافیوں کو سوتیلا بچہ سمجھ لیا ہے جبکہ ان کے اصلی بچے وہ ہیں جن سے انہیں فائدے ہیں۔حکومت کو بھی معلوم ہے انہیں کن سے ملنا چاہئے۔۔ مالکان کی تنظیموں سے ہی تو انہیں فائدہ ہے۔ ورکرز انہیں کیا دے سکتے ہیں؟۔۔ کبھی ان کی جمہوریت کو خطرہ درپیش ہو تو صرف جمہور کیمپ ہی تو لگا سکتے ہیں ناں؟ کبھی مارشل لا یا ایمر جینسی لگے تو جمہوریت کی بحالی کے لیے جیلوں میں ہی جا سکتے ہیں ناں؟۔۔اس کے علاوہ اور کیا دے سکتے ہیں یہ صحافی، یہ ہماری ہیڈلائنز نہیں لگا سکتے، یہ ہماری فوٹو نہیں چھاپ سکتے۔ فوٹو اسی کی چھپے گی، شہ سرخی اسی کی لگے گی جس کی منظوری مالکان اخبارات و ٹی وی چینلز دیں گے، اس لیے کیا ضرورت ہے پھر ورکرز سے ملنے کی؟۔پیسہ کمانے کے بعد ضروری تو نہیں کہ اس پیسہ کو ورکرز پر خرچ کیا جائے، بیرون ملک دورے، امپورٹڈ کپڑے، لمبی لمبی گاڑیاں ، بڑے بڑے فارم ہاؤس کے اخراجات اتنے ہوتے ہیں ورکرز کے لیے کچھ اچھا کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ انشورنس انشورنس کرتے ہیں بھئی کروا دی ہے ناں انشورنس، کیمرہ بھی، ڈی ایس این جی، گاڑیاں اور ہماری تمام بلڈنگز انشورڈ ہیں، بس تیس سال کے بعد ورکر کی انشورنس کی بھی بات کریں گے۔
ابھی تین سال پہلے ہی تو تنخواہ بڑھائی تھی۔ وہ نیا چینل آنے والا تھا اس کا ڈر تھا۔ اب تو ویسے ہی بہت نقصان ہو رہا ہے، پچھلے سال ماہانہ منافع جو پچیس کروڑ روپے تھا اب سکڑ کے بائیس کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ غضب خدا کا، اتنا نقصان ہو رہا ہے اور انہیں تنخواہ بڑھوانے کی پڑی ہے۔اس مرتبہ بھی عید پر ہم نے صرف دس اونٹ، دس بیل، دس بکرے ہی قربان کیے ہیں، ورنہ پہلے ہم بیس بیس جانور کرتے تھے، حالات خراب ہیں اس لیے اب ہم نے اخراجات بھی کم کر دیئے ہیں۔ مجھے کیا معلوم ورکر کیسے عید کرے گا؟۔ میں اپنی عید کروں یا ان کی عید دیکھوں۔ابھی پچھلے ماہ ہی تو تنخواہ دی تھی ان ندیدوں کو ، صرف تین ماہ کی تنخواہ تو بقایا ہے، پھر بھی شور کرتے رہتے ہیں۔ جو ورکر بھی کہتا ہے اسے تنخواہ نہیں ملی اسے لائیے میرے پاس، پوچھوں میں اس سے چار مہینے کی تنخواہ میں سے ایک ماہ کی ادا کر دی ہے ناں،اب اور کیا چاہتے ہیں یہ لوگ؟۔یہ ہے مالکان کا جواب۔
ان کو لفافہ صحافی کہنے والوں کو کوئی جا کر دکھائے ان ورکرز کے حالات جونوکری ہونے کے باوجود بکرا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔کوئی دکھائے انہیں وہ لوگ جنہیں کسی مالک نے اپنا نیا چینل ، اخبار شروع کرنے پر کسی چلتے ادارہ سے بھاری تنخواہ پر اٹھایااور پھر چھ ماہ بعد بے آسرا چھوڑ دیا۔
میں صرف ایک سوال رکھتا ہوں سب کے سامنے۔۔۔کئی میڈیا ورکرزاپنی نوکری کھو دینے کے بعد بچوں کے لیے کپڑے نہیں خرید پاتے، قربانی کے لیے جانور نہ لا سکنے کے لیے طرح طرح کے بہانے اپنے بچوں کے سامنے مناتے ہیں، بڑے سکولوں سے بچوں کو نکال کر سرکاری سکولوں میں ڈالتے ہیں،کیا یہ کرپٹ ہیں؟۔ جن کو مالک مکان سے چھپ کر گھر میں داخل ہونا پڑتا ہے، دکاندار سے ادھار سامان خریدتے رہنے پر کتنے طعنے سننے پڑتے ہیں، کیا یہ لفافہ صحافی ہیں۔اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے یہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔۔جن یونینز نے ان کے حقوق کا تحفظ کرناہے وہ تقسیم ہو چکی ہیں، کئی دھڑے بن چکے ہیں تو یہ کس کو منصف کریں؟۔ کوئی ہے ان کی سننے والا؟۔اگر جواب ہے تو دیجئے ورنہ پھر میری زبان واسطے تالہ خرید لیں،۔(بشکریہ شہریاریاں)۔۔