تحریر: عمیرعلی انجم۔۔
میرے عزیز ساتھیوں! میں عمیر علی انجم آپ سے مخاطب ہوں ۔آپ کی طرح میرا بھی اوڑھنا بچھونا یہ قلم کی مزدوری ہی ہے ۔جس طرح آپ کچھ خواب لے کر اس شعبے میں آئے تھے اسی طرح میرے بھی کچھ خواب تھے ۔میں نے صحافت کو کبھی پیشہ نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک عبادت کے طور پر لیا ہے ۔ میں اس فیلڈ میں آنے والا کوئی پیرا شوٹر نہیں ہوں ۔میں اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کے مدارج طے کرتے ہوئے اخبارت کی سیڑھیاں چڑھا اور پھر استادوں کے قدموں میں بیٹھ کر ان سے صحافت کے اسرار و رموز سیکھے ۔آپ اسے میری خوش قسمتی سمجھیں یا بدقسمتی کہ میں نے اپنے بڑوں کے پڑھائے گئے سبق کو اپنی سب سے قیمتی متاع جانا اور وہ سبق یاد کرلیا ،جس کو یاد کرکے آپ کو کبھی مکتب سے چھٹی نہیں ملتی ہے ۔
قومی اخبار ،جرات ، میٹرو ون، روزنامہ ایکسپریس ،رونامہ نوائے وقت اور ہم نیوز ایسے ملک کے بڑے میڈیا ہاؤسز میں کام کیا اور اپنے آپ کو منوایا ۔میں چاہتا تو آج بھی کسی بڑے میڈیا ہاؤس کا حصہ ہوتا لیکن سر میں جو سودا سمایا ہوا تھا وہ مجھے بے چین رکھتا تھا ۔اپنا دکھ تو ہر کوئی محسوس کرتا ہے اصل میں انسان تو وہ ہے جو دوسروں کے دکھ کو محسوس کرے ۔ہم نیوز میں ایک اسمارٹ سیلری اور دیگر مراعات کے ساتھ نوکری کرتے ہوئے جب میں نے دیکھا کہ میرے ساتھیوں کو مختلف اداروں سے کس بے دردری کے ساتھ نوکریوں سے نکالا جارہا ہے اور ان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں انتہائی ناتواں ہیں تو مجھے اس وقت لگا کہ بدقسمتی سے ہمارے ساتھ آج جو کچھ ہورہا ہے اس میں نہ تو کسی میڈیا ہاؤس کے مالک کا ہاتھ ہے اور نہ ہی حکومت اس کی قصور وار ہے ۔اس کے اصل دوشی ہمارے وہ نام نہاد رہنما ہیں ،جن کے ہاتھوں میں ہم نے اپنی لگامیں دی ہوئی تھیں ۔یہ ایک اصول کی بات ہے کہ جب میں اپنا تحفظ کسی کے ہاتھ میں سونپ دوں تو پھر یہ اس کا فرض ہے کہ وہ میری حفاظت کرے لیکن جب میں اپنے محافظوں کی جانب دیکھتا تو میں حیران ہوتا کہ بے روزگاری کے اس سیلاب میں کسی رہنما کی نوکری پر کوئی فرق نہیں پڑا اور ان کی جانب سے جو اقدامات کیے جارہے تھے وہ محض نمائشی قسم کے تھے ۔
نیوز ایکشن کمیٹی کا قیام:ہم نیوز سے استعفیٰ دینے کے بعد میں نے ٹھان لی کہ بے شک میں اکیلا ہوں لیکن صحرا میں اذان مجھے ہی دینی چاہیے ۔سب سے پہلے میں نے اپنی تحریروں سے آپ لوگوں کو آگاہ کیا کہ آپ کے حقوق پر جو ڈاکا پڑا ہے اس کا اصل ذمہ دار کون ہے ۔ لوگوں کے لیے یہ ایک بالکل نئی چیز تھی ۔وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ میڈیا مالکان اور حکومت ان کا استحصال کررہی ہے لیکن اصل استحصالی قوت تو یہ صحافتی تنظیمیں تھیں جن کے رہنماؤں کو اپنی نوکریاں اور مراعات دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھیں ۔یہ صحافیوں کو کسی ”بیچارے” سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔کسی نے کوئی پروگرام کرکے کسی صحافی کو قرعہ اندازی کے ذریعہ موٹر سائیکل دے دی تو کسی نے ان کے لیے پکنک کا انتظام کردیا ۔ایک تنظیم کو ”ڈنرز ” کو بڑا شوق ہے ۔ان کو لگتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا دے کر انہوںنے اپنا فرض پورا کرلیا ہے ۔غیر سنجیدگی اس انتہا پر تھی کہ خود اپنے آپ پر رونا آتا تھا اور پھر میں نے سوچا کہ میں بھی دوسروں کی طرح روتا رہا تو میرے ساتھیوں کے آنسو پونچھنے کون آئے گا ۔پھر سوچ بچار کے بعد نیوز ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیااور اپنی بساط کے مطابق میں ان غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہا جو ہماری صحافتی تنظیمیں تواتر کے ساتھ کرتی آرہی تھیں ۔
میرے دوستوں!کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ وہ صحافی جو دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے سب سے آگے ہوتے تھے آج ان کے درد کا درماں بننے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے ۔کیا یہ افسوسناک صورت حال نہیں ہے کہ ”دینے والے ہاتھ آج لینے والے ہاتھ ” بن گئے ہیں ۔اگر آج کوئی صحافتی تنظیم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے اتنے راشن کے تھیلے صحافیوں میں تقسیم کیے ہیں تو کیا ان سے یہ سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ صحافیوں کو راشن کے تھیلے لینے تک پہنچانے میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے ۔کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اگر جس روز پہلا صحافی بغیر کسی وجہ کے اپنے ادارے سے نکالا گیا تھا اگر اس روز یہ صحافتی تنظیمیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس ادارے کے دروازے پر بیٹھ جاتیں اور مالک کے گریبان میں ہاتھ ڈالتیں تو کیا کسی دوسرے ادارے کو یہ ہمت ہوتی کہ وہ بلاوجہ کسی صحافی کو اس کے روزگار سے محروم کرتا ۔کیا آپ نے کسی نیوز چینل کا ایک بلیٹن بھی بطور احتجاج بند کروایا ۔آپ نے کیاتو بس یہ کیا کہ بے فیض قسم کے کیمپ لگائے ۔ٹرک یاترائیں کیں ۔ساتھیوں کو جھوٹے دلاسے دیئے اور اپنی نوکریاں بچالیں ،جس سے آپ کا مقصد پورا ہوگیا ۔آپ سے تو اتنا بھی نہیں ہوا کہ کوئی چھوٹا سا وکیل کرکے کسی ایک صحافی کا مقدمہ ہی عدالت میں لے جاتے ۔اگر ان سے کوئی اس بارے میں سوال پوچھے تو کہتے ہیں کہ ہم تو عدالت میں جانے کے لیے تیار ہیں لیکن لوگ خود ہی سامنے نہیں آتے ہیں جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ جب میں نے نیوز ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے بے روزگار صحافیوں کا مقدمہ عدالت میں لے جانے کی ٹھانی اور اس کے لیے ایک فارم کا اجراء کیا تو صرف چند دنوں میں ہی میرے پاس تقریباً دو درجن سے زائد صحافیوں نے اپنا ڈیٹا جمع کرایا اور وہ اس بات کے لیے تیار ہیں کہ میں ان کا مقدمہ عدالت میں لے کر جاؤں۔(میں انشاء اللہ اس سلسلے میں عدالت جارہا ہوں)۔ نیوز ایکشن کمیٹی ایک چھوٹی سی تنظیم ہے لیکن اس میں اتنی ہمت تو ہے کہ وہ صحافیوں کو مسائل کو ہر پلیٹ فارم پر اجاگر کرسکتی ہے ۔ڈبل سواری کی پابندی کے معاملے پر ہماری جدوجہد آپ کے سامنے ہے ۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس (نظریاتی ) کی تشکیل:میرے بھائیوں!مجھے کبھی بھی لیڈر بننے کا شوق نہیں رہا ہے ۔آپ سب کو علم ہے کہ میں خود ایک کے یو جے کا عہدیدار تھا۔میں چاہتا تھا تو ان روایتی رہنماؤں کی طرح روایتی انداز میں چلتا رہتا تو کل اس کے یوجے کا سیکرٹری یا صدر بھی بن جاتا ۔کسی اچھے ادارے میں نوکری بھی مل جاتی اور راوی چین ہی چین لکھتا لیکن جب اپنے ساتھیوں کی حالت دیکھتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ میں کسی گناہ کا مرتکب ہورہا ہوں ۔میں نے صحافتی تنظیموں میں احتساب کی بات کی تو ان کی نظروں میں سب سے بڑا مجرم ٹھہرا ۔میں نے کہا کہ چلو احتساب چھوڑو اس کو بات میں دیکھ لیتے ہیں پہلے اپنے بے روزگار ساتھیوں کے لیے تو کوئی عملی قدم اٹھاؤ۔ان کی نوکریوں کی بحالی اور نئے روزگار کے لیے تو کچھ کیا جائے لیکن ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی ۔یہ صحافیوں کو راشن کے تھیلے لینے والا بنانا چاہتے ہیں ۔مجھے نہیں علم کہ یہ کب صحافتی رہنما سے وڈیرے کا روپ دھا ر گئے ہیں ۔ان کے بدنما رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے نیوز ایکشن کمیٹی کا پلیٹ فارم انتہائی چھوٹا محسوس ہوا اور میں نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ ملک گیر سطح پر ایک نئی تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے ۔دوستوں اور سینئر ساتھیوں کی مشاورت سے طے ہوا کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں یوجیز کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس کے لیے سب سے پہلے کے یو جے (نظریاتی ) کی تشکیل کے لیے عبوری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس (نظریاتی ) کے مقاصد:میرے ساتھیوں!میرا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اپنے بھائیوں کو بھوک کے دلدل سے نکالوں اور ان کو راشن لینے والا نہیں بلکہ دوسروں کی مدد دینے والا بناؤں۔ مجھے علم ہے کہ میری منزل بہت دور ہے اور راستے میں بہت سی مشکلات ہیں لیکن اللہ کی مدد اور اس کی دی گئی ہمت سے مجھے امید ہے کہ وہ اس کٹھن سفر کو آسان بنائے گا ۔کے یو جے (نظریاتی) کوئی روایتی تنظیم نہیں ہے جو آپ کو جھوٹے دلاسے دے گی اور نہ اس کے رہنما آپ کو اپنی سیڑھی بنا کر اپنے ذاتی مفاد کو پورا کریں گے ۔ہماری نظر میں تمام صحافی برابر ہیں ۔ہم ہر اس جگہ جاکر کھڑے ہوں گے جہاں کسی صحافی کا استحصال ہوگا ۔ہمیں کسی بھیڑ کی ضرورت نہیں ہے ہمیں بس چند مخلص ساتھی درکار ہیں ۔ایسے دوست جن کے دل میں حقیقی طور پر صحافیوں کا درد ہو اور وہ بغیر کسی لالچ کے اپنی برادری کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہوں ۔اس تنظیم میں کوئی رہنما نہیں سب کارکن ہوں گے ۔ یہ سب کی سانجھی تنظیم ہے ۔ ہمارا مقصد ایک ہے ۔ہمارا راستہ ایک اور ہماری منزل بھی ایک ہے ۔ہمیں صرف نیک نیتی کی ضرورت ہے ۔نیت خالص ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی مدد ہر صورت میں آپ کے ساتھ شامل ہوتی ہے ۔مولائے کائنات حضرت علی ابن طالب کا قول ہے کہ” یہ دیکھو کہا کہہ رہا یہ نہیں دیکھو کون کہہ رہا ہے” تو اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میری باتوں میں تھوڑی بہت بھی سچائی ہے تو یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ آگے آئیں اور کے یو جے نظریاتی کاحصہ بنیں ۔ بقا کی اس جنگ میں ہمارا ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہی ہمارے تحفظ کا ضامن ہے اور اس سفر میں آپ کو جہاں لگے کہ میں اپنے راستے سے بھٹک رہا ہوں تو یہ آپ کا فرض ہے کہ اس کی نشاندہی کریں کیونکہ یہ آپ سب کی تنظیم ے ۔میں آپ کا منتظر ہوں۔۔(عمیرعلی انجم)۔۔
(عمیرعلی انجم کی اس تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔