تحریر: عمیرعلی انجم
قتیل شفائی نے کہا تھا کہ ”دنیا میں اس سا منافق نہیں قتیل ۔۔۔جو ظلم تو سہتا ہے پر بغاوت نہیں کرتا ۔۔ آج ہمارے میڈیا ہاؤسز جو کہ بیگار کیمپوں میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں پر مالکان کی جانب سے عظیم رہنماؤں کی مشاورت سے صحافیوں کی تذلیل اور ان کو نوکریوں سے نکالے جانے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں ۔۔پہلے ایک سگریٹ والے مالک نے لوگوں کو نکالنے کے لیے خود ہی استعفے تیار کروائے اور کہا گیا کہ اگر آپ ان پر دستخط کرکے خاموشی سے چلے جائیں گے تو ہم آپ کے واجبات ادا کریں گے اور اگر آپ کے سر میں مزاحمت یا بغاوت ایسے جذبات پل رہے ہیں تو ان کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہمارے پاس ”عظیم رہنماؤں” ایسے جانثار موجود ہیں ۔۔اب بے چارا غریب صحافی کیا کرتا ۔۔دو ماہ کے راشن پیسے تو مل رہے تھے اس نے غنیمت جانا اور خاموشی سے گھر کی طرف چل دیا اور وہاں عظیم رہنما اپنے مالک سے بغلگیر ہوگیا ۔۔سگریٹ والے مالک نے جو لائن اپنے ساتھی مالکان کو دکھائی تھی اس کو ”اتحاد مالکان و عظیم رہنماؤں” نے بے حد سراہا اور فیصلہ کیا گیا کہ اس طریقہ کار کو مزید اداروں تک وسعت دی جائے ۔۔اس کے بعد ایک صحافی زادہ مالک جو خود کو بزنس مین کہتا ہے وہ میدان میں کودا اور اس کے بعد چل سو چل ہوگئی ۔۔ایک چینل جو اپنے ڈراموں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا اس کو کسی نے لائن دی کہ بھائی کہاں ڈرامے بنانے میں لگے ہو ۔۔”نیوز” بذات خود ایک ڈرامہ ہے ۔آپ بھی اس میدان میں آئیں اور بالآخر وہ بھی میدان میں آگئے ۔۔اور اب انہوں نے بھی اپنے سینئرز مالکان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملازمین کو تنخواہوں کی کٹوتی کی نوید سنادی ہے جبکہ اس ادارے میں صحافیوں کو نکالنے کا سلسلہ پہلے سے ہی جاری ہے ۔۔یہاں میں اپنے صحافی بھائیوں کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ بس آپ نے عظیم رہنماؤں پر بہت تکیہ کرلیا ہے ۔اب ہر شخص اپنی ذات میں خود تحریک بن جائے ۔ آپ جبری استعفوں پر دستخط اور تنخواہوں میں کٹوتی سے انکار کریں ۔۔اپنی جنگ خود لڑیں کیونکہ بے شک آپ بہادر ہیں لیکن ہارے ہوئے لشکر میں ہیں ۔۔۔(عمیر علی انجم)
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔