Shakeel Anjum Lashari

صحافی آخر کہاں جائے؟؟؟

تحریر ۔ شکیل انجم لاشاری

میڈیا کو کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون سمجھا جاتا ھے مگر پاکستان میں حکومتی پابندیوں اور میڈیا مالکان کے پیدا کردہ  مصنوعی بحران کے باعث یہ ستون خطرے میں دکھائی دیتا ھے،گزشتہ ایک برس کے دوران ہزاروں عامل صحافیوں کو جبری برطرفیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ان ہی اداروں میں غیر معمولی معاوضوں پر کئی ایسے لوگ بھی عہدوں پر براجمان ہیں جن کا عملی صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی چرب زبانی،کچھ بہترین اداکاری کے بل بوتے پر بقراط بنے ہوئے ہیں جن کا صحافت کے معیار اور اصولوں سے کوئی تعلق نہیں ۔

چند ماہ قبل حکومت کی جانب سے اشتہارات کی مد میں ادائیگیاں روکے جانے کو جواز بنا کر ملک کے بہت بڑے میڈیا گروپ نے اپنے بعض دفاتر بند کرکے ملازمین کو بیروزگار کردیا جس کا اصل مقصد وفاقی حکومت پر دباو ڈالنا تھا،یہ ادارہ چاہتا تھا کہ ان برطرفیوں پر صحافتی تنظیمیں حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گی جس سے حکومت پریشان ہوکر پچھلی حکومتوں کی طرح ان کی ہر بات مانے گی ۔ صحافتی تنظیموں نے احتجاج تو کیا مگر  ان بڑے مگر مچھوں کے منصوبے کے مطابق دال نہیں گلی اور یہ خوامخواہ اپنے منافع بخش اداروں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔

ملک میں مہنگائی میں ہوشربا اضافے کے بعد اب صورتحال کچھ ایسی ھے کہ کئی اداروں میں چھانٹی کے بعد باقی ماندہ عملے کی تنخواہیں بھی کم کردی گئیں اور سونے پر سہاگا یہ کہ تنخواہیں بھی کئی کئی ماہ تاخیر کے بعد ادا کی جارہی ہیں ۔ ان تمام حالات سے عامل صحافی انتہائی پریشانی کا شکار ھے جبکہ لفافہ صحافت اور میڈیا کے اداکار اینکرز کو کوئی سروکار نہیں ۔

حکومت صحافیوں کی کوئی بات سننے اور ان کے جائز مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی اور ان کے گھروں کا چولہا جلنا مشکل ہوگیا ھے ۔ ایسے میں رزق حلال پر یقین رکھنے والا صحافی آخر جائے تو جائے کہاں ۔(شکیل انجم لاشاری)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں