تحریر: شکیل بازغ
صحافت کو عبادت سے عبارت کرنے والے یا تواحمقوں کی جنت میں رہتے ہیں یا پھر وہ جانتے ہیں کہ اس شعبے کی حقیقی تصویر کسی پر کھلنے نہ پائے۔۔ صحافتی ادارے بنیادی طور پر مالکان کے منافع و مفادات کے ترجمان ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ تاثر برقرار رکھنے کا ڈھونگ رچانے پر مُصر ہوتے ہیں کہ وہ اقدار کی صحافت کے قائل ہیں۔ خم ٹھونک کر طاقتور یا کزور کی حمایت یا مخالفت میں کھڑے ہونے کی صحافت بھی دراصل سرمائےکی مقدار پر منحصر ہے۔ جس کے پاس جتنا زیادہ پیسا اسکی صحافت اتنے زیادہ چیلنجز سے نبرد آزما ہونے پر کاربند۔ صحافی ایک بھی کلمہ ادارے کی بنیادی پالیسی کے خلاف سکرین پر بولنے کا مجاز نہیں ایسا کرگزرے تو باز پرس ہوتی ہے۔بھلے وہ بعد میں تاویلات سے وقتی قائل کرلے لیکن کھٹکتا ضرور ہے۔ کامیاب صحافی اپنا رزق کسی نظریئے یا نظریئے کے حامی گروہ کی ترجمانی یا مخالفت کے میدان میں کود کر کماتا ہے۔
میں یہ بات نہیں مان سکتا کہ صحافت میڈیا مالکان کے منافع سے اعراض کرکے عوام کو جنت کی جانب ہانکنے پر کاربند ہے۔ پوری دنیا کے میڈیا کا رُخ اگر anti christکے استقبال کی تیاریوں میں مصروف اور نیو ورلڈ آرڈر سے فیضیاب ہورہا ہو تو وہاں آپکی کتابی صحافت کا عَلَم لہرانا پاگل پن ہے۔ لوگ آپکو نان پروفیشنل کہیں گے۔
لہٰذا صحافت کو عبادت سمجھنا چھوڑکر بکنے سنے دیکھے جانےوالا کوئی نظریہ پکڑیں اس کا بھرپور مطالعہ کریں اس راستے کے معرکے سر کرتے چلے جائیں اگر آپ خود کا چورن اور ادارے کی عبادت پر گامزن کا تاثر برقرار رکھنے کے اہل ہو گئے ہیں تو آپ اچھے صحافی بھی ہیں وکیل بھی ہیں اور دانشور بھی۔۔اور اگر ایسا نہیں تو عزت سے پرچون کی دکان کھولیں اس پر وقفہ برائے نماز کا پلے کارڈ لٹکائیں شام کو بچے ٹی وی بی وی دیکھیں اور زمانہ خراب ہے کا راگ الاپتے رہیں۔ کیونکہ آپکو سکرین پر اگر کہنا پڑجائے کہ زمانہ خراب ہے تو یہ بھی دراصل آپکے چورن کا ایک جزو ہوگا ۔سکرین پر تو چورن ہی بکتا ہے آپکے پاس کونسا چورن ہے بیچنے کو؟
نوٹ: میرا چورن ۔۔کسی کا میری تحریرسے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔(شکیل بازغ)۔۔