تحریر: منصور اصغرراجہ۔۔
گیارہ سال پہلے وہ جولائی کی ایک گرم صبح تھی جب ہم نے لاہورسے شائع ہونے والے ایک معروف ہفتہ وار جریدے کو سب ایڈیٹر اور فیچر رائٹر کی حیثیت سے جوائن کیا ۔صبح دس بجے ہم دفترمیں داخل ہوئے تو وہ پہلے سے ہی دفتر میں تنہا ایک کرسی پر بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی ۔شاہدہ ہماری نئی کولیگ تھی جو ہماری طرح اسی روز مذکورہ جریدے سے وابستہ ہوئی تھی ۔ہماراا اور شاہدہ کا مزاج چونکہ ملتا جلتا تھا ۔ہماری طرح اس نے بھی اردو ادب میں ایم اے کر رکھا تھا ۔کچھ عرصہ اپنے شہر گوجرانوالہ کے ایک نجی کالج میں پڑھا بھی چکی تھی ۔بڑی عمدہ نثر لکھتی تھی ۔ایک ابھرتی ہوئی افسانہ نگار جس کے افسانے پڑھ کر ہم اسے ازراہ تفنن چھیڑتے تھے کہ شاہدہ ! تم تو عصر حاضر کی عصمت چغتائی ہو ۔کچھ دنوں میں ہی ہم اچھے دوست بن گئے کہ اب ہم گاہے گاہے اپنے ذاتی معاملات اور مسائل بھی ایک دوسرے سے شیئر کر لیا کرتے ۔گاہے شام کا کھانا بھی اکٹھے کھاتے ،اور کتابوں کی دنیا کی سیر کرنے کے لئے لنچ کے وقفے میں فیروز سنز پر جانا تو اکثر ہمارا معمول تھا ۔اس دوران میں کئی قصے ،کئی حکایتیں ،کئی شکوے ،کئی شکایتیںبھی زیر بحث آتیں ۔گاہے وہ اپنے کسی نئے افسانے کا پلاٹ بھی ہم سے ڈسکس کرلیتی ۔یار لوگوں نے ہمارے اس دوستانہ تعلق میں دو ہنسوں کے جوڑے والے جذبات کھوجنے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں مایوسی ہوئی ۔نئے دفتر میں کام کرتے ہوئے ہمیں چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ہم نے نوٹ کیا کہ کچھ دنوں سے وہ شام کے وقت چھٹی سے کچھ دیر پہلے دفتر سے اٹھ جاتی تھی ۔تین چار دن ہم خاموشی سے اس کی نئی روٹین دیکھتے رہے ،پھر ایک روز موقع پا کر پوچھ لیا کہ مادام آج کل آپ چھٹی کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہی دفتر سے کیوں بھاگنے لگیں۔تووہ ہولے سے بولی ،پلیز شور مت مچاؤ ۔میں نے دراصل ایک ٹی وی چینل میں زیر تربیت نیوز پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا ہے ۔ہمارے نیوز ڈائریکٹر بہت اچھے آدمی ہیں ۔انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی ہے اور کہا ہے کہ میں پابندی سے شام کے وقت دو تین گھنٹوں کے لئے آیا کروں۔جب کام اچھی طرح سیکھ جاؤں گی تو وہ مجھے فل ٹائم نیوز پروڈیوسر کے طور پر اپنے چینل میں ایڈجسٹ کرلیں گے ۔فطری طور پر ہمیں یہ نئی خبر سن کر نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ ہم نے شاہد ہ سے یہ بھی فرمائش کر دی کہ بی بی پہلے تم ایڈجسٹ ہو لو ،پھر ہمارے لئے بھی اپنے چینل میں جگہ بنانا۔لیکن بمشکل ایک ہفتہ گزرا ہو گا کہ شاہدہ پھر پرانی روٹین پر آگئی ۔لیکن اب کی بار وہ کچھ اداس نظر آئی ۔ہمارے دریافت کرنے پر اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔کافی دیر تک و ہ خاموش بیٹھی اپنے ہونٹ کاٹتی رہی ۔ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ شاہدہ تو بڑے بڑے طرم خانوں کے ساتھ بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی عادی ہے ۔آج اسے کیا ہو گےا کہ ہمارے ساتھ آنکھ ہی نہیں ملا رہی ۔ہمارے اصرار پر اس نے بتایا کہ ”منصور ! وہ نیوز ڈائریکٹر تو بڑا کمینہ نکلا ۔چند روز پہلے اس نے مجھے اپنے آفس میں بلا کر کہا کہ اگر میں چینل میں فل ٹائم جاب کی خواہش مند ہوں تو پھر آنے والے ویک اینڈ پر فلاں ہوٹل میں اسے ملوں اور رات اس کے ساتھ گزاروں “۔۔۔”تم نے اسے کیا جواب دیا ؟۔۔۔ہمارے اس سوال پر وہی پرانی والی شاہدہ گرج کر بولی ،”میں نے مستقل جاب کی آفر اس کے منہ پر ماری ہے ۔میں نے اس سے کہا کہ میں غیر شادی شدہ ہوں ۔اگر تمہیں اتنی ہی زیادہ پسند آ گئی ہوں تو مجھے سے نکاح کر لو ۔اگرچہ تم عمر میں مجھ سے کم از کم 20سال بڑے ہو لیکن کوئی بات نہیں ،میں ایڈجسٹ کرلوں گی ۔اس پر وہ بے غیرت دانت نکال کر کہنے لگا ،میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔میری بیوی دوسری شادی کی اجازت دے گی نہ میرے بچے اس بات کو پسند کریں گے ۔تو میں نے کہا کہ جناب پھر میرا بھی آپ کی رکھیل بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔آپ چینل کی نوکری اپنے پاس ہی رکھیں ۔“ہمیں آج بھی یاد ہے کہ آخری جملہ کہتے ہوئے شاہدہ کی آنکھیں کیسے بھر آئی تھیں۔ہمیں بھی چُپ لگ گئی کہ شاید پہلی بار ایسا قصہ سن رہے تھے ۔یہ تب کی بات ہے جب ہمیں کوچہ صحافت میں قدم رنجہ فرمائے ابھی بمشکل سال ڈیڑھ سال ہی ہوا تھا ۔بعد میں تو میڈیا انڈسٹری میں گھسے ان بھیڑیوں کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملا ۔یہ وہ گدھ ہیں جنہوں نے جرنلزم جیسے نوبل پروفیشن کو بدنام کرنے میں مرکزی کردار اد ا کیا ہے ۔ہماری مشرقی روایات یہ کہتی ہیں کہ مائیں بہنیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں لیکن میڈیا انڈسٹری میں کلیدی عہدوں پر بیٹھے ایسے کتنے ہی گدھ ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ :
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اُس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
لیکن سوا ل یہ ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں شریف گھرانوں کی پڑھی لکھی بچیوں کے لئے مشکلات کھڑی کرنے والے ان صحافتی ناسوروں کا محاسبہ کون کرئے گا ؟( منصوراصغر راجہ)۔۔
(منصور اصغر راجہ گزشتہ تیرہ برس سے کوچہ صحافت کی بادیہ پیمائی میں مصروف ہیں ۔کئی قومی اخبارات میں کام کر چکے ہیں ۔آج کل کراچی سے شائع ہونے والے ایک معروف اردو اخبار سے وابستہ ہیں جہاں وہ تحقیقاتی رپورٹنگ کے علاوہ کالم بھی لکھتے ہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔