Sahafat Bachhon ka Khel Nahi by Aftab Hussain

صحافت بچوں کا کھیل نہیں

تحریر: آفتاب حسین

سولہ اگست میری زندگی کا غمگین ترین دن ہے، یہ کرب صرف وہی محسوس کرسکتے ہیں جن کے والدین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔یہ ایک مہینے میں کیا سے کیا ہوگیا،میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، وہ بیمار ہوتیں ، اکثر والدہ سے ناراض بھی ہوجاتا کہ گولیاں  باقاعدگی سے استعمال کیوں نہیں کرتیں اور ٹھیک ہونے کے بعد انکا مسکراتا چہرہ ديکھتا۔۔ميرے حوصلہ مند فوجی  والد جنہوں نے انتہائی مشکل حالات ميں ميری تعليم سميت ہرضروريات زندگی کوپورا کيا انکا انتقال کوئی معمولی صدمہ نہيں تھا ليکن والدہ کی آغوش ميں ليٹتا توگويا والد کی بھی کمی پوری ہوجاتی، برداشت کرہی گياتھا دن ہنسی خوشی گذررہے تھے۔۔ صحافتی کام دماغ سے ہوتا ہے۔  شائيں شائيں کرتے دماغ سے گھرپہنچ کر والدہ کے ساتھ کچھ ديربيٹھ کرکافی سکون ملتا اوردن بھرکی تھکاوٹ اترجاتی۔۔ميڈيا ہاؤسز ميں تنخواہوں میں تاخيرايک فيشن بن چکی ہے ليکن برے سے برے حالات ميں بھی والدہ کا بڑا سہارا تھا، وہ حوصلہ بڑھاتيں ہميشہ محسوس کرلیتیں  کہ تنخواہ ليٹ ہے اورانکی پوٹلی سے پانچ سويا ہزار کا نوٹ ميری مٹھی ميں ہوتا۔۔ بچوں کے اسکول کی چھٹياں ختم ہونے کوتھيں سوچ ہی رہا تھاکہ اس باربچوں کوانکی نانی سے ملوانے جانا ہے کہ اچانک  خوش دامن کی بيماری کی خبرسن کرانہيں بذريعہ کوچ روانہ کيا وہ سفرميں ہی  تھيں کہ  خوش دامن کے انتقال کی خبرآگئی اوردوسرے دن مجھے بھی جانا پڑا ۔۔اسی دوران چھوٹے بيٹے منتظرمہدی کی شديد علالت کي وجہ سے بھی کافی پريشان رہا ليکن والدہ کے چہرے کوديکھ کرساری پريشانياں دورہوجاتيں، ايک ماہ ميں ہی واپسی والدہ کے ساتھ ٹرين کا سفراسٹيشن پررکنا انہيں کھانا کھلانا گويا ہرجگہ سے کوئی نہ کوئی ياد جڑی ہوئی، والدہ کی شديد علالت ميں بھی اسپتال کے حوالے سے برادررضوان بھٹی ، شعيب بھائی ، آصف جے جا بھائی کی کاوشيں ڈی اين حافظ طارق محمود، راجہ طارق بھائی ،عرفان صديقی بھائی ، طلعت حسين ،  مريم بول ٹی وی۔برادرعمران احد،شاہدانجم ، محمدعلی حفيظ ، راشدقرار، خاورحسين ، امتيازفاران بھائی   کامسلسل رابطے ميں رہنا ڈھارس بندھانا۔خون کی بوتليں ارينج کرانا۔ ميرے ليئے وہ دن خوشی سے کم نہيں تھا جب چودہ اگست کوجشن آزادی کی کوريج کے بعد گھرپہنچا توميری والدہ اسپتال سے گھرآچکی تھی، مسکراتے ہوئے ميرا ہاتھ پکڑا اورمسکرائیں،میں نے شکوہ کیا، امی پلیز دوا باقاعدگی سے ليا کريں دوا ليتی رہيں تو ايسی نوبت نہ آئے۔۔ ہنسی خوشی 16اگست کوگھرچھوڑکرآيا،پہلے والدہ کی بيماری ميں چھٹياں کرلی تھيں۔ والدہ نے خود رخصت کيا عين اس وقت ميری والدہ جب موت سے زندگی کی آخري جنگ لڑرہی تھی ميں چند فرلانگ کے فاصلے پرہی ککری گراؤنڈميں ڈی ايم سی جنوبی کی تقريب کی کوريج کررہا تھا بس اتنا فاصلہ تھا کہ روڈ کے دوسری طرف ميرا گھر،ليکن صحافتی فرائض اورپھراچانک اسائمنٹ ايڈيٹرفريد کی کال آئی کہ بھائی کوريج کے فوری بعد وفاقی اردو يونيورسٹی چلا جاؤں وہاں مئيرکراچی آرہے ہيں کچھ ديرسوچ ہی رہا تھاکہ والدہ کو ديکھتا چلا جاؤں ليکن وقت کم تھا گھرکے سامنے سے گذرا اوراب ميرا رخ وفاقی اردو يونيورسٹی کی طرف تھا جہاں کوريج کے بعد دفترپہنچا،اسائمنٹ سے باربار شورمچ رہا تھاکہ بھائی جلدی پيکج ديں نيوز چلنی ہے۔ اچانک گھرسے آنے والی کال پرفوری جلدی گھرآنے کا کہا گيا نہ جانے دل دھک دھک کرنے لگا ڈيسک پربتايا رخ گھرکی طرف تھا ،گھرپہنچا تواميديں دم توڑ چکی تھيں اوروالدہ خالق حقيقی سے جاملی تھيں۔۔ اکلوتا ہونے کی وجہ سے جذبات پرقابوبھی کرنا تھا ،کفن دفن کا بندوبست بھی کرنا تھا کانپتے ہاتھوں سے فيس بک پر اسٹيٹس رکھا کہ والدہ کا انتقال ہوگيا۔۔ کچھ ہی ديرميں چئيرمين سينٹرل ريحان ہاشمی کی کال اور اسکے بعد چئيرمين کورنگی نيررضا کی کال اورپھرکالز کا تانتا بندھ گيا ،ميرا بيٹا اوربيٹی اسکول سے آچکے تھے، انکي چيخيں دل کوپھاڑرہی تھيں کہ اسی دوران ميرے صحافی بھائی رضاجعفری ، سيدعباس نقوی ، اورطلعت حسين بھی ميرے گھرپہنچ گئے۔ خاورحسين، راشدقرار، لالاسلمان سعادت ، فيصل ترين ، برکت علی، ظہيراعوان  بھی رابطے ميں تھا۔ بڑا مشکل تھا آنسوکنٹرول کرنا ،ليکن کرنا بھی تھا ۔جنازہ ميں برادرسينئرجرنلسٹ عرفان علی ٹھٹوي ،سيداظہرعباس کنٹرولرجی نيوز،خاورحسين آج ٹی وی ، رضاجعفری ڈان نيوز۔ زين بھائی اب تک ، ناصر بٹ بھائی ايکسپريس ، بلال جتوئی ، ايس ايم عرفان بھائی ، شوکت کورائی ، گويا ميرے بازوبن چکے تھے۔ رات تدفين کے بعد گھرپہنچا دوست احباب تسلی ديتے رہے ليکن جب سربسترپررکھا توايک نظربيٹے اوربيٹی پرپڑی جوتکيے ميں سررکھ کررورہے تھے اورپھرميں بھی بہت رويا واقعی بہت رويا والدہ کے انتقال پرکے بعد مسلسل اسٹيٹس کوديکھ کرعام طورپرصحافتی حوالے انتہائی سخت مزاج ليکن ورکرجرنلسٹس کاحوصلہ بڑھانے والے عمران احمد بھائی بيوروچيف جاگ ٹی وی جواس کرب سے گذرچکے تھے مسلسل پندرہ منٹ مجھ سے فون پربات کرتے رہے باربار دل بڑا کرنے کا کہتے رہے انتہائی سينئرصحافی محترم سجاد عباسی ايڈيٹرروزنامہ امت ، سعيدخاورايڈيٹرروزنامہ نوائے وقت ،اورخاص طورپرجاويد چوہدری بھائی کے تسلی والے فون ڈھارس بنے رہے، مجھے احسان کوہاٹی بھائی المعروف سيلانی کا وہ جملہ بھي ياد ہے جب وہ ميرے گھرپہنچے اوراپنا اے ٹی ايم ميرے حوالے کرتے ہوئے کہا، شہزادے جانتا ہوں والدہ کے علاج اورانتقال تک کيا معاشی کيفيت ہے آپکی۔ جاؤ،جتنے پيسے نکالنےہيں آپ نکال لواورميں ادھاردے رہاہوں واپس لے لوں گاہوسکتا ہے اس پوسٹ ميں کئی دوستوں کا ذکرنہ ہوسکا ہو ليکن ورکرجرنلسٹسوں کے ليئے يہ مراحل بڑے کٹھن ہوتے ہيں بس جنکے والدين زندہ ہيں دوستو انکی قدرکرو ،بہت ياد آتے ہيں وہ جب نہيں ہوتے۔۔(آفتاب حسین،عام صحافی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں