shartiya meetha | Imran Junior

سب ” بیچ” دے۔۔۔۔

علی عمران جونیئر

دوستو،عشروں پہلے لاہور میں ایک بھوکا ننگا مجذوب شاعر کملی پہنے قریہ قریہ آوارہ پھرا کرتا تھا۔ کسی نے روٹی دی کھا لی، چرس دی پی لی۔۔ گالی دی لے لی غرضیکہ ہر اعتبار سے ”واجب القتل” تھا۔ لیکن فتوے سے اس لیے بچا رہا کہ ہر قسم کے ”سوداگروں” کے لیے بے ضرر تھا۔ اور تو اور اپنے وقت کے مہان فلم پروڈیوسر اس کے پاس آتے چرس کے ہیرے موتی پیش کرتے، اور اس سے لازوال نغمے بٹور کے لے جاتے۔ وہ گنہگار اس قدر معصوم تھا کے اپنے ہی لکھے ہوئے گیتوں سے سرشار ہوتے ہوئے بھی کبھی نہ جان پایا کہ یہ گیت اسی کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس شاعرِ خانہ خراب کا نام تھا ساغر صدیقی۔ کیا عجیب کامبینیشن ہے ایک طرف ساغر دوسری طرف صدیقی۔ اسی ساغر کے اس شعر پر غور کریں۔

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

لوگ واقعی بڑے ظالم ہوتے ہیں کہ اپنے اپنے ظالموں کو کندھوں پہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اور روشنی تقسیم کرنے والوں کو اندھیروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ کہ یہی بد نصیب معاشروں کا المیہ ہوتا ہے۔ اپنے بہترین قسم کو لوگوں کو مختلف قسم کی موتوں کے گھاٹ اتار کر ان پر ماتم کرنے والے ظالم لوگ۔ اسی ساغر صدیقی نے لکھا تھا۔۔جس شہر میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے لیکن ہمارے سلطان تو براہِ راست خود لوٹتے ہیں، سرکاری طور پر لوٹتے ہیں۔ دن دیہاڑے لوٹتے ہیں۔اور رونے بھی نہیں دیتے کیوں کہ ہر قسم کے رونے پرپابندی بھی لگائی ہوئی ہے۔۔

نوے کی دہائی کی بات ہے۔۔نیوز روم میں غالباً ہمارے ابتدائی ایام تھے۔ ہمیں ٹیلی پرنٹرز سے خام خبریں ملتیں کہ اسے مشرف بہ اردو کرکے قابل اشاعت بنادیں۔ ایک خبر میں ”pia” دیکھ کر ہم نے اسے ”پیا” پڑھا اور سینئر سے پوچھا کہ یہ پیا کیا ہے۔۔؟ واضح رہے کہ ٹیلی پرنٹرز سے نکلنے والی انگریزی تمام اسمال لیٹرز پر مبنی ہوا کرتی تھی اور اس میں رموز و اوقاف بھی نہیں ہوتے تھے۔ ہمارے منہ سے ”پیا” کا لفظ سنتے ہی سب ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ بھئی یہ پیا نہیں بلکہ ْ”پی آئی اے” ہے۔ اب ہم نے تو ہمیشہ پی آئی اے کو کیپیٹل لیٹرز ہی میں PIA پڑھا تھا ہمیں کیا خبر تھی کہ pia کیا بلا ہے۔باکمال لوگوں کی لاجواب سروس والی یہ قومی ائیرلائن اب ”باکمال ” لوگوں کی وجہ سے ” لا” جواب بنی ہوئی ہے۔( واضح رہے کہ یہ ”لا” ہم نے عربی کا استعمال کیا ہے)۔۔پی آئی اے سمیت ائیرپورٹس، موٹروے، پاکستان اسٹیل، اور پتہ نہیں کیا کچھ۔۔ نجکاری کے نام پر بیچا جارہا ہے؟ یہ سب دیکھ کر ہمیں ٹی وی کا وہ اشتہاریاد آجاتا ہے جس میں ایک صاحب تنگ آ کر کہتے ہیں۔۔ سب بیچ دے۔۔ہوائی جہاز کے سفر میں ائیر ہوسٹس نے ایک مسافر کو بتایا۔ اگر آپ خاتون مسافروں کو تنگ نہ کریں تو سگار پی سکتے ہیں۔۔۔مسافر نے خوش ہو کر کہا ۔۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرے لیے دو راستے کھلے ہیں۔ ایسی صورت میں سگار پینا بھلا کون پسند کرے گا۔

ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ بڑے بڑے واقعات اور سانحات پیش آتے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔۔ایسی بھی کوئی بات نہیں ایک جماعت ہے جو ہر واقعہ کی ذمہ داری بلاجھجھک قبول کرتی ہے۔۔اب آپ پوچھیں گے وہ کون سی جماعت ہے۔۔بھائی پاکستانی نہیں ہوکیا؟ جو اتنی سی بات نہیں جانتے۔۔۔ کالعدم تحریک طالبان والے ہرواقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں چاہے کسی نے بھی کیا ہو۔۔اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر نو مئی کی ذمہ دار ی اب تک کسی نے قبول کیوں نہیں کی؟؟آپ نے اکثر دیکھا ہوگا اور یہ تجربہ خود بھی کیا ہو گا کہ جب آپ کوئی پھل خریدتے ہیں تو فروٹ والے سے لازمی پوچھتے ہیں، بھائی جی یہ میٹھا توہے؟ وہ آگے سے پھل کے میٹھا ہونے کی سو فیصد نہ صرف گارنٹی اور وارنٹی دیتا ہے بلکہ آپ کو ٹیسٹ کرانے کی آفر بھی کرتا ہے، لیکن ہماری قوم دنیا کی شاید واحد قوم ہے جو امرود خریدتے وقت پوچھتے ہیں کہ میٹھے ہیں یا نہیں اور بعد میں نمک لگالگاکرکھاتے ہیں۔۔لوجی، پھلوں کا ذکر آیا ہے تو چونکہ گرمیوں کی آمد ہورہی ہے اور اس موسم میں پھلوں کے بادشاہ کو ہم سب مل کر خوش”آم۔دید” کہتے ہیں تو اسی حوالے سے ہمارے پیارے دوست نے کیا خوب کہا ہے کہ ، عام آدمی بھی ”آم” کی طرح ہوتا ہے، کوئی آکر چوس لیتا ہے تو کوئی کاٹ لیتا ہے۔۔جہاں پیارے دوست کا ذکر آجائے اور باباجی کی بات نہ ہو،ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے، باباجی فرماتے ہیں،زندگی ہمیشہ عجیب و غریب سبق دیتی ہے جن میں سے اکثر میں بھول جاتا ہوں۔۔آپ لوگوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ پہلے ڈاکٹرز کی پرچی پہ ”اللہ ھوالشافی” لکھا ہوتا تھا اور آج کل کے ڈاکٹرز کی پرچی پہ ”کْلّْ نَفسٍ ذَائقة المَوتِ ”لکھا ہوتا ہے۔۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ ہر انسان کو اللہ پاک نے سوچنے سمجھنے،تجزیہ کرنے، مشاہدے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی ہے لیکن بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو درست وقت پر درست فیصلہ لیتے ہیں،انسان اور جانوروں کے درمیان جو فرق رکھا گیا ہے وہ صرف اور صرف ”عقل” کا رکھا گیا ہے، جو انسان عقل سے کام لیتا ہے عقل مند کہلاتا ہے اور جو شادی کرلیتا ہے اسے عقل”بند” کہتے ہیں۔ شادی کے بعد انسان عقل کا ہی نہیں درحقیقت اندھا ہوجاتا ہے، اسی لئے وہ اتنی باتیں نوٹ نہیں کرسکتا جتنا شادی شدہ حضرات کی زوجہ ماجدہ کرلیتی ہیں۔کسی بھی تقریب سے گھر واپسی پر بیگمات ہی شوہروں کو دوران گفتگو باربار کہہ رہی ہوتی ہیں، آپ نے نوٹ کیا، آپ نے فلاں بات نوٹ کی، آپ نے اس پوائنٹ کو نوٹ کیا۔۔شوہر بے چارے کی ساری توجہ سلامی میں دیے جانے والے ” نوٹ” پر ہوتی ہے،کیونکہ وہ نوٹ اس کی جیب سے گیا ہوتا ہے۔۔باباجی اسی حوالے سے کہتے ہیں کہ شادی کے بعد اگر انسان عقل کا ہی نہیں درحقیقت اندھا ہوجاتا ہے تو پھر مان لیجیے ، سیاست دان بھی حکومت میں آنے کے بعد اندھا، بہرہ اور گونگا ہوجاتا ہے۔ اسے غریب عوام پر ظلم نظر نہیں آتے، اسے غریبوں کی چیخیں اور سسکیاں سنائی نہیں دیتیں۔۔ اور اگر اسے ظلم نظر بھی آجائے یا چیخیں اور سسکیاں سنائی دے رہی ہوں تو پھر بھی وہ گونگا رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگرآپ ون وے روڈ پر دونوں اطراف دیکھ کے بڑے محتاط انداز میں اسے پار کررہے ہیں تو مان لیجیے آپ پاکستان میں ہیں اور آپ کا انسانیت پر سے یقین اٹھ چکا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں