تحریر: خرم علی عمران
ہمارے موجودہ بزرجمہر، دانشور “بلکہ دان شور”،گیانی دھیانی ،حرفوں کے بنے ہوئے اور آسمان پر تھگلی لگانے والے سیاسی، غیر سیاسی اور سماجی ماہرینمیڈیائی ارسطوؤں کے ایک مخصوص طبقے میں ایک عجیب ٹرینڈ یہ چل نکلا ہے کہ اپنے اور اپنے بڑوں یا قائدین کے ایسے بیانات و اقدامات کا دفاع کرنے کے لئے جن کو پڑھ اور سن کر کبھی ہنسی کبھی رونا آتا ہے اور کبھی کبھی کچھ بھی نہیں آتا ہے،باہمی چونچیں لڑانے کے مقابلے میں ترپ کارڈ کے طور پر قائد اعظم کو جھٹ سے بیچ میں لے آتے ہیں۔ الزامی جواب دینے کے یہ ماہرین فوری جواب دینے کی جلدی میں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداران اپنی جوش وفاداری میں اپنے سو کالڈ قائدین کے کہی ہوئی باتوں، لکھے گئے الفاظ کا دفاع کرنے کے لئے کچھ یوں گویا ہوتے اور رقم طراز ہوتےہیں کہ یقین کیجئے سر پیٹنے کا دل کرتا ہے اپنا نہیں انکا بھیا، یار جواب الجوب دینا ہے، کسی طنز کا، طعنے کا کسی الزام کا تو دو،شوق سے دو کون منع کرسکتا ہے آپ عالی مرتبت حضرات کو ویسے دل تو اس سے ملتا جلتا ایک اور قافیہ استعمال کرنے کا چاہتا ہے بجائے حضرات کے،مگر مجبوری ہے،کچھ حد ادب ضروری ہے ،مگر اکابرین اور خصوصا حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم المرتبت شخصیت کو اپنے یوں پگلاہٹ والے عجیب و غریب معاملات میں گھسیٹنا کہاں کا طریقہ ہے پالے پالے بھولے بھالے سےبھائی جانوں،
بس دو مثالیں برائے تفہیم عرض کرتا ہوں، اول یہ کہ عالی جناب نڈر و دلیر ہمارےپرویز مشرف صاحب کے دور پر از سرور و مخمورمیں جب گریجویٹ ہونے کی شرط برائے معززممبرانِ اسمبلی عائد کی گئی تو بجائے اپنی جعلی ڈگریوں کو ماننے کے کیسے دفاع کیا گیا کہ” یار یہ کیا شروع کردیا، گریجویٹ گریجویٹ، قائد اعظم بھی تو گریجویٹ نہیں تھے” یعنی عذر گناہ بدتر از گناہ،۔۔ اور جیسے ابھی کچھی ہی عرصے قبل حالیہ یو ٹرن پر ہمارے دانشمند اور باوقارجناب وزیرِ اعظم نے کیا خوب ارشاد فرمایاکہ جناب جو یوٹرن نہ لے وہ تولیڈر ہی نہیں، اور اس پر گرہ لگاتے ہوئے انکے ہمنوائے سیاست فورا ڈفلی بجانے لگے کہ قائد اعظم نے بھی تو یو ٹرن لیا تھا ،پہلے وہ بھی تو گانگریسی تھی،ہا ہا ہا، وہ مارا پاپڑ والے کو ،ملا ہاتھ،یار کیا دلیل دی ہے، واہ واہ۔ اب اگر میں ان دان شورانہ(یہ ایسے ہی لکھا ہے کہ زیادہ موزوں ہے،خوامخواہ دانشوری کی توہین کیا لکھنا) دلیل کا پوسٹ مارٹم کروں تو تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ جنابِ والا یہ سوال تو خود قائد سے بھی ہوا تھا کہ،سر،آپ پہلے گانگریس میں شامل تھےاور ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی تھے؟ توآپ نے فرمایا تھا کہ پہلے تو میں پرائمری میں بھی توپڑھتا تھا۔۔تو بھائی میرے اپنی سیاست نما حرکتیں کرو،شوق سے کرو، ٹالک شوز میں خوب رونقیں لگاؤ، خوب ناظرین،سامعین،حاضرین، کا دل بہلاؤ،عوام الناس کا کا دل دہلاؤ ۔انہیں جھوٹے سچے خواب خوب دکھاؤ،دکھاتے ہی جاؤ، سب کرو،مگر خدا کے لئے اپنی باتوں اور گھاتوں کے دفاع میں قائدِ اعظم کو تو یار بیچ میں نہ لاؤ کم از کم،،
جب آپ اپنے تئیں اپنے دلائل میں وزن پیدا کرنے کے لئے عظیم الشان سیاسی اداکاری کی بلندیاں چھوتے ہوئے اپنے سرخ و سفید چکمتے چہروں پر موقع کی مناسبت سے ہر قسم کے ت تاثرات لاتے ہوئے اپنی بات میں قائد اعظم یا دوسرے اکابرین کا ذکربڑے دان شورانہ انداز میں کرتے ہیں تو مجھے ایک چھوٹی سے لطیفہ نما حکایت یاد اتی ہے کہ” سینکڑوں برس پہلےحنفی اور شافعی مسلک کے دو بڑے عالم کسی فقہی بحث میں الجھے ہوئے اپنے اپنے دلائل پیش کررہے اور ایک دوسرے کے سامنے رکھ رہے تھے اور ایک معیاری مباحثہ جاری تھا ،کوئی مجھ جیسا جاہل بھی پاس بیٹھا بڑے غور سے اس بحث کو سن رہا تھا، جب گفتگو میں ذرا سا وقفہ آیا تو اس بندے نے کوئی بات کرتے ہوئےجھٹ سے کہا کہ جناب اس زیر بحث مسئلے میں ایک رائے یہ بھی تو ہوسکتی ہے نا! دونوں عالم چونکے اوربڑے حیران ہوئے،ایک نے پوچھا کہ یہ کون سے عالم کی اس مسئلے میں رائے ہے بھئی، ہماری نظر سے تو نہیں گزری، تووہ بندہ کچھ شرما کر بولا،،نہیں نہیں،یہ تو میری اپنی ہی رائے ہے! اس پر ایک عالم صاحب نے فرمایا کہ، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی کے درمیان زیر بحث مسئلے میں تیری رائے دینا ایسا ہی ہے کہ جیسے دو عظیم الشان دریا پہلو بہ پہلو بہہ رہے ہوں اور کوئی ان کے درمیان بیٹھ کر پیشاب کرے اور کہے کہ یہ تیسرا دریا ہے” توبصد ادب عرض ہے کہ آپ بھی اپنے اقدامات،بیانات،حرکات و سکنات کا دفاع مروجہ طریقوں سے ضرور کریں،حق نمک برائے قائدین بھی ادا ضرور کریں مگر اکابرین اور خصوصا قائدِ اعظم کو بیچ میں لاکر تیسرا دریا اگر نہ ہی بہائیں تو بہتر ہوگا۔
آپ کو ویسے ہی ماشااللہ بڑے ذہین، سرد و گرم چشیدہ،گرگِ باراں دیدہ قسم کے لوگ ہیں،بڑی معلومات کے حامل ہوتے ہیں،خوب دلائل جانتے ہیں،ٹیبل ٹاک کے فن میں مہارت تامہ رکھتے ہیں ، انگیزی بھی اچھی بولتے ہیں یا کم از کم کوشش ضرور کرتے ہیں ، مغربی مناطق برائے بحث و مباحثہ کے بھی زبردست شناور ہیں تو پھر ان ہی چیزوں سے کام چلائیں نا، بڑوں کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت، ۔۔ قائد اعظم نے ایسا کیا، علامہ اقبال نے بھی تو یوں کہا تھا، لیاقت علی خان بھی تو یوں کرتے تھے، کیسی باتیں کرتے ہیں بھائی ،کچھ تو خیال کیا کریں یار، کہاں آپ لوگ اور کہا وہ حضرات،چہ بہ نسبت خاک رابہ عالم پاک۔۔ تو بڑے ادب سے، لجاجت سے، محبت سے عاجزانہ سی گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ برائے مہربانی قائد اعظم کو بیچ میں نہ لائیں، عین نوازش ہوگی۔۔ ورنہ۔۔۔(خرم علی عمران )۔۔