shartiya meetha | Imran Junior

پھر آپ کو پتہ نہیں۔۔

علی عمران جونیئر

دوستو،اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 22 ملین لڑکے اور لڑکیاں رشتہ ازدواج سے منسلک نہیں ہیں جس کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں، ہر خاندان اچھے رشتے کی تلاش میں ہے اور تقریبا پاکستان میں ہر گھر کا یہی ایک بڑا مسئلہ ہے، مناسب رشتے نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی شادیوں کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو جو اعداد و شمار اقوام متحدہ نے بیان کیے ہیں تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں لڑکیوں کے اپنے مطالبات بہت زیادہ ہوگئے ہیں کیونکہ زیادہ تر لڑکیاں اب نوکری کرتی ہیں یا گھر میں ہی کسی روزگار سے وابستہ ہیں۔ اگر کسی لڑکی کو رشتہ بتایا جائے تو سوال کیا جاتا ہے کہ لڑکے کی ڈگری اور تنخواہ کیا ہے کہیں میرے جیسی یا اس سے کم تو نہیں تو بات یہی آکر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ مطالبات بے شک جائز ہیں لیکن شادیاں نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں شادیاں نہیں ہورہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے مطالبات اور خواہشات کو بنیاد بنا کر خود شادیاں نہیں کررہے، یہی مسئلہ لڑکوں کے ساتھ بھی ہے۔ کچھ ایسے ہی مطالبات لڑکوں کے بھی ہیں کہ لڑکی کم عمر ہو، برسرروزگار بھی ہو، تاکہ اس مہنگائی میں ان کا ہاتھ بٹا سکے تاہم لڑکے کے گھر والے چاہتے ہیں کہ لڑکی کو ان سب خصوصیات کے ساتھ گول روٹی بھی بنانا آتی ہو۔

وطن عزیز میں دو کروڑ سے زائد نوجوان لڑکے لڑکیاں رشتوں کے خواہشمند ہیں وہیں دوسری جانب سعودی عرب میں بھی ایک ایسی ہی دلچسپ خبر سامنے آئی ہے جہاں ایک نوجوان کے لیے رشتہ لے کر جانے والے والد کو لڑکی کی بہن بھا گئی۔عرب میڈیا کے مطابق نوجوان، والد کو اپنی پسند کی لڑکی کے گھر لے گیا تھا جہاں دونوں خاندانوں کے درمیان رشتے کی بات کی جانی تھی تاہم حیرت انگیز طور پر نوجوان کی یہ دوسری شادی تھی اور پہلی اہلیہ سمیت والدہ بھی دوسری شادی کے حق میں نہیں تھے لیکن والد کے ساتھ نوجوان لڑکی کے گھر پہنچ گیا، دراصل والد بیٹے کی منگنی توڑنے کے لیے لڑکی والوں کے گھر پہنچے تھے، تاہم گھر پہنچنے پر ان کا ارادہ ہی بدل گیا۔صورتحال اس وقت مزید دلچسپ ہو گئی، جب 70 سالہ والد کو لڑکی کی بہن بھا گئی اور لڑکی کے والد سے دریافت کیا کہ چائے پیش کرنے والی یہ خاتون کون ہیں؟جس پر لڑکی کے والد نے بتایا کہ یہ ان کی بڑی بیٹی ہیں، جو کہ طلاق یافتہ ہیں۔ ساتھ ہی لڑکے کے والد نے لڑکے کے بجائے اپنے لیے طلاق یافتہ بیٹی کا ہاتھ مانگ لیا۔اس صورت حال پر بیٹے سمیت لڑکی کے گھر والے بھی ہکابکا رہ گئے کیوں کہ اب رشتہ طے ہونے کی صورت میں ایک بہن ساس ہوگی تو دوسری بہن بہو ہوگی۔۔ایک عالمہ سے دوسری شادی کے فضائل و برکات سننے کے بعد ایک عورت اُٹھ کر اس کے پاس آئی اور سرگوشی کی کہ۔۔ کیا آپ واقعی مرد کی دوسری شادی کے حق میں ہیں؟عالمہ نے مسکرا کر اس عورت کو دیکھا اور جواب دیا۔۔ جی بالکل۔۔اب مسکرانے کی باری اس عورت کی تھی، بولی۔۔ خدا کا شکر ہے۔ پہلے میں آپ سے بات کرنے سے جھجکتی تھی۔ دراصل میں آپ کے خاوند کی دوسری بیوی ہوں۔۔پھر سنا ہے کہ عالمہ بے ہوش ہوگئی اور اسپتال جا کر ہوش آیا۔۔

اس خبر کا بھی آپ کو شاید پتہ نہیں ہو کہ۔۔مصر میں شوہر نے شادی کی اگلی صبح ہی عجیب و غریب وجہ کی بنیاد پر نئی نویلی دلہن کو طلاق دے دی۔ ایک رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاتون مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے تعلق رکھتی ہیں اور قانون کی طالبہ ہیں، قاہرہ کی فیملی کورٹ میں متاثرہ خاتون کی وکیل نے واقعے سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ شادی کی اگلی صبح ہی خاتون کے شوہر نے ان کی آنکھوں کی رنگت کو وجہ بنا کر ان سے جھگڑنا شروع کردیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شادی کے بعد دلہن نے کانٹیکٹ لینز اتاردیے تھے جس کے بعد شوہر کو پتا چل گیا کہ ان کی بیوی کی آنکھوں کا اصلی رنگ سبز ہے۔۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ ۔۔جب میں بالکونی میں سگریٹ پیتا ہوں، میں سگریٹ کو نیچے نہیں پھینکتا ہوں ۔۔ہم نے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے۔۔کیوں کہ مجھے ڈر ہے کہ ہوا اسے اڑا کر کھڑکیوں کے راستے گھروں کے اندر پہنچا دے گی، اور آگ لگ جائے گی، گیس کے سلنڈر پھٹ جائیں گے، اور لوگ مر جائیں گے، اور تفتیش شروع ہو جائے گی، پولیس اس نتیجے پر پہنچے گی کہ میں قصوروار ہوں، اور پھر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر مجھے دکھایا جائے گا، اور میری بیوی مجھے دیکھے گی اور اسے پتہ چل جائے گا کہ میں سگریٹ پیتا ہوں۔۔ پھر میرے ساتھ جو ہونا ہے ۔۔ شاید آپ کو پتہ نہیں۔۔

گئے وقتوں کی بات ہے،کسی بادشاہ نے گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار سے پوچھا۔۔تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو؟۔۔کمہار نے جواب دیا کہ ۔۔جو بھی گدھا لائن توڑتا ہے، میں اسے سزا دیتا ہوں، بسی اسی خوف سے یہ سب سیدھا چلتے ہیں۔۔بادشاہ نے کہا۔۔کیا تم ملک میں امن قائم کر سکتے ہو؟۔۔کمہار نے حامی بھر لی، بادشاہ نے اسے منصب عطا کر دیا۔ پہلے ہی دن کمہار کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ لایا گیا۔ کمہار نے فیصلہ سنایا کہ ۔۔چور کے ہاتھ کاٹ دو۔۔۔جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور کمہار کے کان میں بولا کہ۔۔جناب یہ وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔۔کمہار نے دوبارہ کہا کہ۔۔چور کے ہاتھ کاٹ دو۔اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی کہ ۔۔جناب تھوڑا خیال کریں۔ یہ اپنا خاص آدمی ہے۔۔کمہار بولا،چور کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں اور سفارشی کی زبان کاٹ دی جائے۔اور کہتے ہیں کمہار کے صرف اس ایک فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن قائم ہو گیا۔ہمارے ہاں بھی امن قائم ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے چوروں کے ہاتھ کاٹنا پڑیں گے اور کچھ لوگوں کی زبانیں کاٹنا پڑیں گی!

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لیجنڈمزاح نگار مشتاق یوسفی لکھتے ہیں کہ۔۔وطن عزیز میں افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں