تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔۔
حسب توقع پیارے پاپا اور دلاری پھپھو گرفتار کیئے جاچکے ہیں لیکن ایک بلاول ہے کہ گرفتاریوں کے وقت بھی مسکرا تا دیکھا جا رہا تھا اور اب بھی اسکے چہرے پہ تبسم رقصاں ہے ۔۔ لیکن اسکی یہ مسکراہٹ کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔؟؟
کیا بات صرف اتنی ہی ہے کہ ملک سے بےتحاشا لوٹی گئی دولت اور حرام کے مال پہ پلی اولاد کو اتنا ہی ڈھیٹ اور بیشرم ہونا چاہیئے یا پھر یہ کہ اس تبسم میں کوئی پیغام بھی مستور ہے ۔۔ آئیے ذرا اس بارے میں کچھ غور و فکر کرلیتے ہیں ۔۔ ایک پہلو سے تو یہ دکھائی پڑتا ہے کہ بلاول خود کو بہت بہادر ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ نیچے کارکنوں کو بھی اعتماد اور حوصلہ دے کر کھڑا رکھ سکے کہ وہی اس وقت اسکی اصلی طاقت ہیں جو اگر بکھرنے کے بجائے جڑکے کھڑے رہ گئے تو شاید کسی ڈیل کے لیئے مطلوب وزن بھی بن سکتے ہیں ۔۔ دوسرے زاویئے سے دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ تاریخ سے واقفیت کے زعم میں حکومت اور اداروں کا منہ چڑا رہا ہے کہ پہلے ہماری ننگی کرپشن پہ تم ہمارا کیا بگاڑ سکے ہو جو اب بگاڑ لو گے ۔۔۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستانی سیاست کا سب سے گھناؤنا پہلو ہی یہ ہے کہ اسکی بنیاد کسی ارفع اصول پہ نہیں بلکہ محض ذاتی مفاد کے گھٹیا وصول پہ ہے اور اسی وجہ سے وقت پڑنے پہ کسی بھی وقت کوئی کل کا مردود آج کا محبوب بنایا جاسکتا ہے ۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسکی یہ مسکراہٹ ، دولت کی بے پناہ طاقت پہ یقین رکھنے کا مظہر ہو کہ جسکے انبار کے بل پہ کھڑا اسکا باپ ایشیا کے چند امیر ترین افراد میں نمایاں مقام رکھتا ہے اور اپنے زعم کے تئیں تمام اداروں اور کل پارلیمنٹ کو ہی خرید لینے اور ہر معاملے میں صورتحال کو اپنے مفاد میں موڑ لینے کی بے لگام قؤت رکھتا ہے۔۔
اسی غلیظ ذہنیت اور متعفن طرز سیاست کے یہ نمونے ہمیں جابجا بکھرے نظر آتے ہیں اور اسی کے تحت تاریخ کے جھروکوں سے کبھی وردی پوش کمانڈو بکری بن کر جانے مانے مجرموں سے این آراو کرتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر اسے سڑکوں پہ گھسیٹنے کی بڑھکیں مارتا شہباز شریف سیاسی دستگیری کی امید میں گھگھگیا کے اسی زرداری کے جوتے چاٹتا اور غلامانہ اسکے شانہ بشانہ کھڑا نظر آتا ہے اور ایسی گھٹیا سیاست پہ لعنت بھیجنے کے نعرے مارتا عمران خان کمال بیغیرتی سے الیکٹیبلز کی سیاست کرتا اور جانے پہچانے کرپٹ لوگوں کو کابینہ میں شامل کرتا دکھائی دیتا ہے اور اسی پہ بس نہیں کرتا بلکہ جسے پنجاب کا سب بڑا ڈاکو کہتے نہ تھکتا تھا تو پھر اسی پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر لگانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتا ۔۔۔۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آکسفورڈ سے پڑھےلکھے اور ‘ڈارلنگ آف دی ویسٹ’ بیظیر بھٹو کے فرزند بلاول کی نظر اس عالمی اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی پہ بھی ہو کہ جسکے اشارے پہ شیر ممیانے لگتے ہیں اور چوہے شجیع و زور آور بن جایا کرتے ہیں اور اس بار اسے یہ آشیر باد میسر آتی دکھائی دے رہی ہو ۔۔
کچھ ناقدین بہرحال ایسے بھی ہیں کہ جنکے نزدیک اس وقت بلاول کا یہ تبسم ( دراصل اسکے یوں اور یکایک خودمختار ہوجانے سے ) دراصل اسکے دل میں بھرے ان لڈوّؤں کا عکاس ہے کہ جو نجانے کب سے پھوٹنے کے منتظر تھے اور اب اسکے یکایک خودمختار ہوجانے کی آشا پوری ہونے کی شادمانی اس سے چھپائے نہیں چھپ رہی ۔۔۔ اس طبقہء خیال کے افراد کے مطابق بلاول کو اب آئے گا اس چیئرمینی کا اصل مزہ کہ جو بیںظیر کی موت کے کئی دن بعد ایک گھریلو ملازمہ مس جمعراتن کے پلو سے بندھے اس وصیتی خط سے پراسرار طور پہ برآمد کی گئی تھی کہ جس پہ لکھی کمزور انگریزی اور اسپیلنگ کی متعدد غلطیاں بلاول کے پپا کی عملی استعداد کے غماز ہیں نہ کہ ہارورڈ سے پڑھی بینظیر کی علمیت کی عکاس۔۔۔ خیر جو بھی ہو اب پپا اور پھپھو تو پکڑی جاچکی ہیں اوربلاول کوئی پاگل تو نہیں کہ اسکے گھر والے جس دولت کے بل پہ دو دہائیوں سے جوڑ توڑ کی یہ سیاست کرپارہے ہیں وہ اسے نیب اور حکومت کو دے کے ان چلے ہوئے کارتوسوں کو بچالے ۔۔۔ اسی لیئے پاپا کی گرفتاری کے اس موقع پہ بلاول کا دیا گیا یہ بیان بھی بڑا دلچسپ مگر اندازوں کے عین مطابق ہے کہ ” جتنے چاہیں کیسز بنالیں، مجھے، میرے پورے خاندان، پوری پارٹی کو گرفتار کر کیں، مگر ہم اٹھارویں ترمیم، جمہوریت، آزادیِ رائے، انسانی و معاشی حقوق، فوجی عدالتوں اور گمشدہ افراد پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ۔۔۔ ہم اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔ خیر یہ ہوئی کہ اس موقع پہ کسی نے بلاول سے یہ نہیں پوچھ لیا کہ آپکے اصول ہیں کیا ،،، ورنہ وہ یہی کہنے پہ مجبور ہوتا کہ آپنے پہلے ہی یہ سوال کیوں نہیں پوچھ لیا ۔ میں پاپا اور پھپھو سے پوچھکر بتادیتا ۔۔۔۔(سیدعارف مصطفیٰ)۔۔۔
مصنف کے خیالات اور تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔