تحریر: عابد عبدللہ
وفاقی حکومت نے نیوز پرنٹ پر عائد ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کر دی ہے. وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے 23 جنوری 2019 کو منی بجٹ پیش کرتے ہوئے نیوز پرنٹ پر عائد ڈیوٹی مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ڈیوٹی ختم کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل خبریں تحریک انصاف کے حق میں نہیں ہوتیں اور زیادہ تر ایڈیٹوریل ہمارے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں کرنا چاہتے لیکن حکومت یقین رکھتی ہے کہ حقیقی جمہوریت کے لیے آزاد صحافت چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ صحافت کو ایسی انڈسٹری بنانا چاہتے ہیں جو منافع بخش ہو۔ اس انڈسٹری کو منافع بخش لفافے دے کر نہیں بلکہ سب کا کاروبار بڑھا کر بنائیں گے۔اس سے پہلے اکتوبر 2018 میں وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں کی نمائندہ تنظیم اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے کے وفد سے ایک ملاقات میں اخبارات کے نیوز پرنٹ پر عائد پانچ فیصد ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملکی اقتصادی مسائل کی وجہ سے میڈیا کو بھی مشکلات درپیش ہیں، توقع ہے کہ اپنی پالیسیوں سے بہت جلد مسائل پر قابو پا لیں گے۔
لیکن ایک طرف ملاقات میں وزیراعظم عمران خان اپنے ان مثبت خیالات کا اظہار کر رہے تھے تو دوسری جانب ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات بند جبکہ سینکڑوں کارکن بے روزگار ہو رہے تھے۔الزام حکومت وقت کے سر آیا کہ سرکاری اشتہارات کے کوٹے میں کمی اور سرکاری واجبات کی عدم فراہمی سے ادارے مالی دباؤ کا شکار تھے جن کی وجہ سے انہیں مزید چلانا ممکن نہ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مختلف اداروں سے تین ہزار کے لگ بھگ اخباری کارکن فارغ اور کئی میڈیا ہاؤسز بند کر دیے گئے۔احتجاج ہوئے، مظاہرے کیے گئے حتیٰ کہ بعض کارکنوں نے خود سوزیوں کی کوشش بھی کی لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور ان اداروں کا نقصان پورا کرنے یا کارکنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے حکومت نے یک طرفہ طور پر سرکاری اشتہارات کے نرخ کم کر دیے جس نے میڈیا کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
اشتہارات کے نرخوں میں یک طرفہ کمی کا باقاعدہ ایک مسودہ تیار کیا گیا جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ عمران خان حکومت، میڈیا پر ان دیکھی بے جا پابندیوں، اشتہارات کی بندشوں، اشتہارات کے کوٹے اور ان کے نرخوں میں کمی اور یک طرفہ ایڈورٹائزمنٹ پالیسی کے نفاذ کے ذریعے میڈیا کے خلاف کوئی جنگ لڑ رہی ہے۔اس سے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ پی ٹی آئی حکومت اور اس کی پشت پر کھڑے بعض ادارے میڈیا پر قبضے یا اسے اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے اور چلانے کے خواہش مند ہیں۔اشتہارات کے نرخوں پر کند چھری چلانے پر وزارت اطلاعات نے پہلے تو چپ سادھے رکھی لیکن جب سپریم کورٹ نے دو ہفتوں میں وزارت اطلاعات سے رپورٹ طلب کر لی تو گویا وزیر اطلاعات بھی جاگ اٹھے۔ انہوں نے 11 جنوری 2019 کو ایک ٹویٹ کے ذریعے اطلاع دی کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان اشتہارات کے نرخوں کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا ۔اس کے ساتھ ہی پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کا ایک مختصر بیانیہ بھی سامنے آیا جس کے مطابق وزیراطلاعات چوہدری فواد حسین کی ہدایت پر سیکرٹری اطلاعات شفقت جلیل نے کراچی میں پی بی اے کے عہدے داروں سے ملاقات کی اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے اشتہارات کے نرخوں کا معاملہ احسن انداز سے حل کر لیا گیا ہے۔اعلامیے کے مطابق پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے ساتھ طے ہونے والے اشتہارات کے نرخوں کی نئی سلیبز سے حکومت کو 70 فیصد بچت ہو گی، اشہتارات کے سرکاری نرخوں کا اطلاق پیک آورز پر ہو گا جبکہ تمام وفاقی و صوبائی محکمے اور خود مختارادارے نرخوں کے اطلاق کے پابند ہوں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات کی ٹویٹ کے مطابق اشتہارات کے نرخوں کے تعین سے میڈیا انڈسٹری کو فائدہ ہوگا، ان کے بقول اشتہارات کے سرکاری نرخوں کا تعین میڈیا کو مضبوط بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے اور حکومت میڈیا اور اظہاررائے کی آزادی کے لیے پرعزم ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت، میڈیا کو اپنی اپوزیشن جماعت سمجھتی ہے چنانچہ اس ٹویٹ اور اعلامیے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ حکومت اپنے ایک مخالف دھڑے کے ساتھ نمٹنے میں کامیاب ہو گئی ۔ یہ مذاکرات کن شرائط پر کامیاب ہوئے، فی الحال ان کی تفصیلات دستیاب نہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بھی سامنے آجائے گا کہ ان مذاکرات میں دباؤ کتنا تھا اور خیر سگالی کتنی۔پاکستان میں حکومت کی طرف سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کا معاملہ نیا نہیں۔ اس طرح کی کوششیں قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع کر دی گئی تھیں اور یہ تحفہ ہمیں انگریز آزادی کے ساتھ ہی دے گئے تھے۔
ہندوستان کی انگریز حکومت تو ان قوانین کے استعمال کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کو روکنا چاہتی تھی مگر آزادی کے بعد برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اپنے اقتدارکو طول دینے کے لیے یہ اختیارات استعمال کرتی رہیں۔ جمہوری دور ختم ہونے کے بعد مارشل لا ادوارکی سیاہ تاریخ شروع ہوئی تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا مارشل لا ہو، جنرل یحییٰ خان کا ہو یا پھر جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا، ان سب نے کسی بھی اور اقدام سے پہلے اخبارات کی آزادی پر قدغن لگائی اور انہیں اپنی خواہشات کا غلام بنایا۔جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں تو صحافیو ں کو کوڑے تک مارے گئے اور قیدوبند کی سزاؤں اور ملازمتوں کی برطرفی کے ساتھ اخبارات پر کئی سال تک سنسرشپ کا عذاب بھی نازل رہا لیکن صحافیوں نے سیاہ قوانین کی منسوخی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔1963 میں جنرل محمد ایوب خان نے پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس نافذ کیا۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس آرڈیننس کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ صحافیوں، ایڈیٹروں اور اخباری مالکان کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں جنرل محمد ایوب خان نے اس قانون میں جزوی ترامیم کیں مگر آرڈیننس اپنی بعض سیاہ شقوں کے ساتھ بدستور موجود رہا۔صحافیوں کی طویل جدوجہد بالآخر رنگ لائی اور 1980 کی دہائی میں فیڈرل شریعت کورٹ نے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس (پی پی او) کی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت نے اس قانون کے متبادل قانون کی تیاری کا کام شروع کیا مگر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تا ہم بعد میں غلام اسحاق خان کی عبوری حکومت نے پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کو منسوخ کیا اور رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس (RPPO) نافذ کیا، یوں نئے اخبارات کے لیے ڈیکلریشن کا حصول آسان ہوا اور پریس ایڈوائسز کا سلسلہ ختم ہوا ۔
پیپلزپارٹی کی دوسرے دور حکومت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے نیوز پرنٹ کے کوٹہ سسٹم کا نظام ختم کیا اور نیوز پرنٹ کو کسی اجازت کے بغیر درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس سے اخبارات کو حقیقی آزادی حاصل ہوئی۔ اسی زمانے میں یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ اخبارات کے احتساب کے لیے ایک خودمختار ادارہ قائم ہونا چاہیے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز قائم ہوئے۔ جب شیخ رشید وزیر اطلاعات تھے تو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) قائم ہوئی جس کے ساتھ ہی ایک نئے قانون کے تحت پاکستان پریس کونسل بھی قائم کی گئی۔پیمرا کا کام لائسنس دینا، الیکٹرانک میڈیا سے نشر ہونے والے مواد کا تجزیہ کرنا اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکٹرانک چینلز کے خلاف کارروائی کرنا تھا، اگرچہ ہائی کورٹ کے سابق جج کی قیادت میں پریس کونسل قائم ہوئی مگر پریس کونسل نے حقیقی طور پر اخبارات کے احتساب کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ پریس کونسل پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر عرفان عزیزکا کہنا ہے کہ حکومت کے قانون میں خامیوں کی بنا پر پریس کونسل حکومت اور اخباری صنعت کے دباؤکا شکار رہی۔ اسی طرح پیمرا کے ادارے میں لائسنس جاری کرنے، الیکٹرانک میڈیا کے خلاف استغاثہ کا کردار ادا کرنے اور پھر سزا دینے کے اختیارات یکجا ہو گئے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نیوز ون کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو حقائق کے برخلاف پروگرام نشر کرنے پر تین ماہ کے لیے پروگرام کرنے پر پابندی لگا دی ورنہ اس طرح کے سینکڑوں مقدمات اب بھی زیرِ سماعت ہیں، پھرگزشتہ دو برسوں کے دوران اخبارات اور ٹی وی چینلز کو نامعلوم قوتوں نے نشانہ بنانا شروع کیا ۔سابق حکومت میں 1963 کے پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کا ایک مسودہ پریس کونسل کو بھیجا گیا اور کونسل کے چیئرمین کو ہدایت کی گئی کہ اس مسودہ قانون کو اپنی کونسل کے اجلاس میں اراکین سے منظور کرا کر وزارت اطلاعات کو بھیجا جائے تاکہ اسے قانون کے طور پر نافذ کیا جا سکے۔ اس مسودے میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس میں شامل تمام سیاہ شقوں کو شامل کیا گیا تھا۔پریس کونسل کے اراکین کے احتجاج پر اخباری صنعت کی تمام تنظیموں نے اس مسودے کو قانون بننے سے روکنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا تو اس وقت کی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے وضاحت کی کہ اس مسودے کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک افسر کی اپنی تخلیق ہے جس کو معطل کر کے تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ پھرکچھ ہی عرصے بعد اسی طرح کا مسودہ سندھ کی وزارت اطلاعات کے افسروں کو ملا، جس کی نقل صحافیوں کے ہاتھ لگ گئی، یوں پورے ملک میں جب بھرپور احتجاج ہوا تو اس وقت کے سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر شاہ نے وضاحت کی کہ اس مسودے کا حکومت سندھ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد میڈیا پر دباؤ کی شکایتوں میں مزید اضافہ ہوا۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز کے پروگراموں کو ‘محکمہ زراعت’ والوں نے کنٹرول کرنا شروع کیا۔ اس دوران انتخابات ہوئے۔ اگرچہ نئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر سنسر کی پابندی کو ختم کیا جس سے نئے پاکستان میں اچھا آغاز تو ہوا مگر انسانی حقوق کی تنظیم کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور میڈیا کی آزادی سے متعلق نئے قوانین کے ذکر سے ہر باشعور فرد کو تشویش ہوئی۔ایک جانب نئے وفاقی وزیر اطلاعات نے پیمرا اور پریس کونسل ختم کر کے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا نیا ادارہ بنانے کا اعلان کیا تو دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن کی جامع رپورٹ سامنے آگئی جس میں میں کہا گیا کہ پاکستان میں آزادئ صحافت پر لگائی جانے والی پابندیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کے ذمے دار ریاستی ادارے ہیں ۔
ایچ آر سی پی نے آزادئ صحافت پر پابندیوں کے واقعات کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ملک بھرکے میڈیا ہاؤس کا سروے کرایا اور تحقیق کاروں نے ایڈیٹروں اور صحافیوں سے معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بعض اخبارات کی اشاعت میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں اخبارات کی تقسیم میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں مگر کسی تنظیم یا ادارے نے ان کارروائیوں کی ذمے داری قبول نہیں کی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پریس ایڈوائس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کے دوران ٹیلی فون پر ہدایات جاری کرنے کے شواہد ملے اور مبینہ تشدد کے واقعات اور ان پر احتجاج کی خبروں کا بلیک آؤٹ ہوا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ ٹیلی ویژن اور اخبارات کے کچھ صحافیوں کو بعض مذہبی انتہا پسندوں نے دھمکیاں دیں۔ان صحافیوں نے مذہبی انتہا پسندوں پرکبھی تنقید نہیں کی تھی مگر یہ صحافی بعض ریاستی اداروں کے نقاد کے طور پر ضرور مشہور تھے۔ اسی طرح ناقدانہ رائے رکھنے والے بعض اینکر پرسنز کی کردار کشی کی مہم میں شدت آئی ۔ سوشل میڈیا پر ان اینکر پرسنز کو توہین آمیز انداز میں تذلیل کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کے اہل خانہ بھی اس مہم کا شکار ہوئے۔اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی نئے وزیر وفاقی اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان نے آزادئ صحافت کے علمبرداروں کو چوکنا کردیا کہ پریس کونسل پاکستان اور میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) ختم کرکے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جائے گا ۔
اخباری تنظیموں نے نئے وزیر اطلاعات کی اس تجویز پر سخت ردعمل کا اظہارکیا۔ پاکستان میں آزادئ صحافت پر قدغن کی پرانی تاریخ کے باعث محسوس ہونے لگا کہ برطانوی ہند دور کے قوانین نئی شکل میں نافذ ہونے جا رہے ہیں۔ انگریز حکومت سیاہ قوانین کو آزادی کی تحریک کچلنے کے لیے استعمال کرتی تھی جبکہ تحریک انصاف کی حکومت انہیں اظہار رائے کی آزادی کچلنے کے لیے استعمال کرے گی۔وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بارہا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا لیکن بدقسمتی سے اس حکومت کے ابتدائی اقدامات کے باعث صحافتی حلقے ان کی کسی یقین دہانی پر مطمئن نظر نہیں آتے۔اخباری کارکنوں کی برطرفی کے زخم ابھی مندمل نہیں ہو پائے اور جمعہ کے روز بھی ڈیوس روڈ لاہور پر ان برطرفیوں کے خلاف صحافیوں نے مظاہرہ کیا اور برطرف کارکنوں کی بحالی کا مطالبہ کیا لیکن فوری طور پر ان مظاہروں کے مثبت نتائج نکلنے کی امید دکھائی نہیں دیتی۔ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی معاندانہ کارروائیاں جاری تھیں تو دوسری جانب پاکستان کی اخباری صنعت کو اس وقت مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ستمبر 2018 میں عالمی منڈی میں نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں پونے دو گنا اضافہ ہو گیا۔
نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے باعث اخبارات کو اپنی لاگت سنبھالنا مشکل ہو گیا اور صف اول کے بعض اخبارات نے 16 صفحات کے بجائے ہفتے میں چند روز صفحات کی تعداد 12 کر دی تاہم مارکیٹ میں کم فروخت ہونے والے اخبارات، جو پہلے ہی اصل قیمت سے کم پر فروخت ہو رہے تھے، نے اپنے صفحات میں کمی نہیں کی۔صف اول کے اخبارات کے لیے قیمت اور صفحات کا تناسب برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں اکثر اخبارات روس سے درآمدہ نیوز پرنٹ KONDAPOGA استعمال کرتے ہیں جو مارکیٹ میں 140 روپے فی کلو گرام دستیاب تھا۔ ایک کلوگرام کاغذ سے 52 سنگل شیٹس نکلتی ہیں اور 16 صفحات کے ایک اخبار کے لیے 4 سنگل شیٹس درکار ہوتی ہیں یعنی ایک کلو گرام کاغذ سے 16 صفحات کے 13 اخبارات تیار ہوتے ہیں۔ قیمت میں اضافے کے بعد صفحات کی تعداد کم ہو کر 12 ہو گئی اور ایک کلو گرام کاغذ سے 17 اخبارات تیار ہونے لگے۔ لیکن اس کے باوجود اخبارات کا خسارہ کم نہ ہو سکا چنانچہ ان حالات میں نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی میں خاتمے نے اخبارات کے لیے بے شک آکسیجن کا کام کیا ہے لیکن یہ بھی ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ’ ہی ہے کیونکہ ایک جانب سرکاری اشتہارات کا کوٹہ کم کیا جا چکا ہے تو دوسری جانب نجی شعبے نے بھی پرنٹ میڈیا کے اشتہارات میں خطرناک حد تک کمی کر دی ہے جس کی وجہ سے صورت حال جوں کی توں رہنے کا خدشہ ہے۔
دوسری جانب بعض حلقے اس حکومتی اقدام کو اخباری مالکان کے لیے تو منفعت بخش قرار دیتے ہیں لیکن یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا مالکان یہ فائدہ ملنے کی صورت میں برطرف ملازمین کو بحال کر دیں گے جس کا جواب بہرحال نفی میں ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف حکومت کی یہ رعایت عام اخباری کارکن کے لیے تو کسی بھی طرح سودمند نہیں اور وہ پہلے کی طرح اب بھی اپنی ملازمت کے لیے سرگرداں اور اپنے بچوں کے رزق کے لیے پریشان ہی رہے گا۔حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہو گا کیونکہ مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے اور روزگار کے مواقع تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر میڈیا ورکرز کے گھروں میں اس صورت حال سے فاقوں تک کی نوبت آچکی ہے۔
قومی میڈیا نے ایک ذمہ دار ادارے کی حیثیت سے ملک میں جمہوریت کی عمل داری، آئین و قانون کی حکمرانی، انصاف کی بلاامتیاز فراہمی اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے ہمیشہ فعال کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا کو اپنے اس کردار کی ادائیگی کے لیے بالخصوص آمرانہ ادوار اقتدار میں کٹھنائیوں، قدغنوں، اشتہارات کی بندش اور سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ قید، کوڑوں، لاٹھی، گولی سمیت مختلف سزائیں اور صعوبتیں بھی برداشت کیں مگر اظہار رائے کی آزادی پر کبھی مفاہمت نہیں کی۔ایسے میں بعض کاروباری طبقات نے جائز ناجائز طریقے سے سمیٹے ہوئے اپنے دھن دولت کے زور پر پروفیشنلزم کی بنیاد پر استوار میڈیا انڈسٹری کو اپنے کالے دھن کے تحفظ کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنالیا اور اپنے اصل کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے میڈیا گروپس بھی قائم کر لیے جن کے ماتحت انہوں نے حکومت اور ریاستی اداروں کو بلیک میل کرکے ان سے مفادات سمیٹنا اور اپنے کالے دھن پر جوابدہی سے خود کو مبرا سمجھنا شروع کر دیا۔
سابقہ حکومتوں کو بھی اسی صورت حال میں میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور اس سے انکاری میڈیا گروپس کو اشتہارات اور کاغذ کے کوٹہ میں کٹوتی اور ان کے واجبات کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر سزا دینے کا موقع ملا تھا۔اس صورت حال میں میڈیا کا موجودہ دور پروفیشنلزم کا دامن تھامنے والے میڈیا گروپس کے لیے کڑی آزمائش کا دور ہے جس سے گزرتے ہوئے انہیں اتنے زیادہ مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ ان کا خود کو زندہ رکھنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس کے باوجود قومی میڈیا بلاشبہ آج بھی جمہوری اقدار و روایات کے فروغ، ملک میں آئین و انصاف کی حکمرانی اور راندہ درگاہ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بلاخوف و رغبت اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس تناظر میں مسائل حل کیے بغیر میڈیا کو زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح ماضی میں بھی میڈیا کو اپنا دشمن سمجھنے کی سوچ سے ہی خرابیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ اگر حکمران طبقات ایک اہم ریاستی ستون کی حیثیت سے میڈیا کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے قومی مفادات و مقاصد کے لیے اس کی معاونت حاصل کرنے کا کلچر پروان چڑھائیں تو یہی میڈیا تعمیر و استحکام وطن کے لیے حکومت کی ڈھال بنا نظر آئے۔یہ امر واقع ہے کہ قومی میڈیا نے آئین پاکستان کے تحفظ اور اس کے ماتحت ملکی اور قومی مفادات کی وکالت و ترجمانی ہی کو ہمیشہ حرزِجاں بنایا ہے اور اس راہ میں ہاتھ قلم ہونے کی بھی کبھی پروا نہیں کی۔امید ہے کہ موجودہ حکمران بھی بہترین قومی مفادات کی ملکی اور عالمی سطح پر وکالت کے لیے میڈیا اور بہ طور خاص اخبارات کو اپنا دوست بنائیں اور سمجھیں گے تو اس سے ملک کی بنیادیں مزید مضبوط بنانے میں ہی مدد ملے گی۔ موجودہ حکومت کو روایتی رطب اللسانوں کا دامن بہرصورت جھٹکنا اور پروفیشنلزم کا دامن تھامے ہوئے میڈیا گروپس کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ قومی تعمیری صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے لیے محض نیوز پرنٹ میں ڈیوٹی کا خاتمہ ہی تمام مسائل کا حل نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ایسے لاتعداد اقدامات بھی کرنے ہوں گے جن سے ان میڈیا ورکرز کے ٹھنڈے چولہوں کا کوئی مناسب بندوبست ہو سکے جو اسی حکومت کے نام پر بجھائے جا چکے ہیں۔(عابدعبداللہ)۔۔