علی عمران جونیئر
دوستو،آج بات ہوگی، نوجوان نسل پر۔۔۔ ”نو۔جوان نس لیں”کو اگر آپ ”نوجوان نسلیں” کے طور پر پڑھیں تو باقی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ایک نوجوان ہمیں بتارہا تھا کہ ۔۔ میں نے گھر والوں سے کہا کہ ۔۔ میری شادی کرا دیو، نئیں تے میں خود نوں گو لی مار لوں گا ۔۔گھروالوں نے جواب دیا۔۔ باھر جا کے ماریں، ایتھے کسے ھور نوں نا لگ جائے ۔۔۔ایک اور نوجوان شکل سے کافی پریشان نظر آرہا تھا، وہ بار بار اپنے موبائل کو دیکھ رہا تھا۔۔ ہم نے قریب جاکر پوچھا۔۔ خیریت، پریشان دکھائی دے رہے ہیں، سب ٹھیک تو ہے ناں؟؟ وہ کہنے لگا۔۔کوئی مہنگائی سے پریشان ہے تو کو ئی انٹرنیٹ کے سلو نیٹ ورک سے۔۔ میں تو صرف اس وجہ سے پریشان ہوں کہ ۔۔میرے موبائل میں لگا کیمرہ گول ہے،لیکن پھر بھی تصویر چوکور کیوں آتی ہے۔۔یہ تو انفرادی کیسز تھے، جن کے بارے میں آپ کو بتایا۔۔ نوجوان شادی شدہ جوڑے بھی اسی طرح سے نفسیاتی ہوتے جارہے ہیں۔۔ شادی کے تین ، چار ماہ بعد ہی شوہر کی سالگرہ آگئی۔۔ بیوی نے شوہر کو سرپرائزدیتے ہوئے کہا۔۔ میں آپ کی سالگرہ کے لیے سوٹ لائی ہوں۔ نوجوان شوہر ”ایموشنل” ہوکر بولا۔۔ جلدی سے دکھاؤ۔۔ بیوی نے بڑے رومانٹک انداز میں کہا۔۔میں ابھی پہن کر آتی ہوں۔۔ایک نوجوان شوہر جو تازہ تازہ بیوی کا ڈسا ہوا تھا۔۔ ہمیں بتارہا تھا کہ۔۔پہلے غامدی صاحب سے میرا صرف فِکری اختلاف تھا۔۔۔پھر ایک دن ان کا سوال جواب کا سیشن سنا جس میں وہ فرما رہے تھے ۔۔ حور ایک علامتی نام ہے۔جنت میں اپنی بیوی ہی حور کی صورت ملے گی ۔۔یہ سنتے ہی میرا ان سے فِکری اختلاف ختم ہوا اور اب معاملہ ذاتی دشمنی تک پہنچ چکا ہے۔۔
اس صدی کی کمزور ترین نسل۔۔وہ نسل جو 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہے اور آج 23، 24 سال اس کی عمر ہو چکی ہے۔۔ پوری دنیا میں یہ نسل انسانی تاریخ کی سب سے جسمانی طور پر کمزور لاغر اور ذہنی طور پر نفسیاتی مریض نسل سمجھی جاتی ہے۔۔ یہ جس دور میں بڑی ہوئی ہے وہ تاریخ انسانی کا سب سے زیادہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا دور ہے۔۔ انفارمیشن ایج۔۔ یہ نسل بڑی ہوئی ہے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے۔۔ اس کی دسترسس میں انٹرنیٹ، موبائل فون، ٹیبلٹ، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا ہے۔ اس نسل کی تربیت بزرگوں نے نہیں سوشل میڈیا نے کی ہے۔۔ پوری دنیا میں اس نسل کا ایک ہی مسئلہ ہے۔۔ ان میں صبر کم ہے غصہ زیادہ، ان کی گردنوں میں خم آ گیا ہے جھک کر ہر وقت موبائل فون استعمال کرنے کی وجہ سے۔۔ ہر وقت ا سکرین کے آگے بیٹھ کر گھنٹوں کام کرنے کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ہیں۔۔ سارا وقت بیٹھ کر ٹیکنالوجی سے کھیلنے کی وجہ سے ان کی جسمانی صحت انتہائی نحیف اور ناتواں ہے۔۔ اور انسانی تاریخ میں یہ نسل سب سے زیادہ وقت لے رہی ہے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں۔۔
پاکستان میں آپ ان کو ٹک ٹاک جنریشن کہہ سکتے ہیں۔۔ اور کسی پاکستانی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس جنریشن کا کیا حال ہے۔۔ کیا ان کے اخلاق ہیں، کیا ان کی تعلیم ہے، کیا ان کی تہذیب ہے، کیا ان کی زبان ہے، کیا ان کی تربیت ہے، اور کیا تاریک ان کا مستقبل ہے۔۔ ذرا سوچیں یہ ملک کی تقریبا 40 سے 50 فیصد آبادی ہے۔۔ یعنی تقریبا دس سے بارہ کروڑ۔۔ سوچیں اگر پاکستان کو غزہ، عراق، شام، لیبیا یا یمن جیسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تو اس نسل کا کیا حال ہوگا۔۔یہ لکڑی سے آگ نہیں جلا سکتے، ان کو نقشہ دیکھ کر مشرق اور مغرب کا علم نہیں ہے، ہتھیاروں کا استعمال اور سروائیول تو چھوڑ ہی دیں، یہ دھوپ میں آدھا گھنٹہ نہیں کھڑے رہ سکتے نہ پانچ کلومیٹر پیدل چل سکتے ہیں۔۔ یہ نسل نہ جسمانی سختیاں برداشت کر سکتی ہے نہ نفسیاتی سختیاں۔۔یہ گلی کے کونے پر موجود دودھ، دہی کی دکان سے دودھ اور دہی بھی لانے کے لئے موٹرسائیکل نکال کر جاتے ہیں۔۔معاشرے میں سب سے زیادہ شادیاں اسی نسل کی فیل ہو رہی ہیں، کیونکہ ان کو رشتوں کو نبھانا ہی نہیں آتا، چھوٹے بڑوں سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے، معاملات کو سلجھانے کا صبر نہیں ہے۔آج آپ ویڈیو گیم کھیلتے کسی بچے کا نیٹ بند کر دیں پھر دیکھیں کہ اس میں کس طرح جن گھستا ہے۔۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے اپنے پورے پورے خاندان قتل کر دیے صرف انٹرنیٹ بند ہونے پہ۔۔
اور آپ کو ایک کمال کی بات بتائیں،غزہ میں جو مجاہدین اس وقت مشرق وسطیٰ کی اتنی بڑی طاقت اور پوری دنیا کی طاقتوں کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں ان کا تعلق بھی جنریشن زی سے ہے۔۔ مگر غزہ والی وہ نسل ہے جو آگ اور خون کی بھٹی میں پک کر جوان ہوئی ہے۔۔ جس کی راتیں ایک راہب کی طرح اور جن کے دن ایک شہ سوار کی طرح ہوتے ہیں۔۔ جو صرف اس لیے زندگی گزارتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں سے آزاد کرا سکیں۔۔ پاکستان کی جنریشن زی میں کتنے کی خواہش یہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر مسجد اقصیٰ کو آزاد کرائیں یا غزوہ ہند میں شریک ہوں اور کتنوں نے اس مشن کے لیے تیاریاں کی ہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا تکلیف دہ اور خوفناک ہے کہ انسان کو ڈر لگنے لگتا ہے۔۔ جو نسل نہ اپنے کسی کام کی ہو نہ پاکستان کے کسی کام کی ۔۔نہ سیدی رسول اللہ کی امت کے کسی کام کی۔۔ پھر اللہ اس نسل کو کیوں رکھے گا؟ یا اگر اس نسل سے کام لینا چاہتا ہے پھر اس کو آگ اور خون کی بھٹی میں سے گزارے گا تاکہ یہ کندن بن سکے۔۔ موجودہ حالت میں تو یہ پاکستانی قوم اور اس کی نوجوان نسل کسی کام کی نہیں ہے۔۔اللہ بلا وجہ کسی قوم کو تبدیل کر کے اس کی جگہ دوسری قومیں نہیں لاتا۔۔ جب پچھلی فصل اجڑ جائے تو نئی فصل لگانے کے لیے کھیت میں پہلے ہل چلانا پڑتا ہے۔۔ گلی سڑی تہذیب یا قوم کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ہل چلا کر پھر نئی قومیں وہاں آباد کی جاتی ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نوجوان نسل کو ”ہواخوری” اور ”حوا۔خوری” میں فرق جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔