adliya mein adam mudakhilat ansar abbasi ne hal btadia

خبریں، پریشر اور نیوز رپورٹر۔۔

تحریر: انصار عباسی

2006ء کے شروع میں مجھے اپنے ذرائع سے معلوم ہوا کہ اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کو قانون اور رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس سروس میں بھرتی کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ارسلان افتخار جو بلوچستان حکومت کے محکمہ صحت کے ملازم تھے، کو پہلے ایف آئی اے اسلام آباد میں ڈیپوٹیشن پر لایا گیا پھر اُنہیں پولیس اکیڈمی میں اے ایس پی کی ٹریننگ کے لیے بھیج دیا گیا۔ اب مشرف حکومت قانون اور رولز میں تبدیلی کرنے کی تیاری کر رہی تھی تاکہ اس سارے عمل کو قانونی شکل دی جا سکے۔ میں نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے دی نیوز کے لیے خبر دی لیکن وہ خبر شائع نہ ہوئی۔ میں اپنی خبر کی اشاعت کے لیے اپنے ایڈیٹوریل بورڈ پر دبائو ڈالتا رہا جس نے حکومتی پریشر کے باعث شروع میں ٹال مٹول سے کام لیا اور بعد میں یہ کہہ دیا کہ یہ خبر شائع نہیں ہو سکتی کیونکہ اس سے مشرف حکومت کے ساتھ ساتھ (اُس وقت کے) چیف جسٹس ناراض ہو جائیں گے اور اخبار کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس پر میں نے اپنی خبر کچھ دوسرے بڑے اخباروں کو اشاعت کے لیے بھیج دی لیکن کسی نے بھی یہ خبر شائع نہ کی کیونکہ میڈیا اس وقت کافی طرح کی پابندیوں کی زد میں تھا۔

اُسی سال (2006ء میں) چند ماہ بعد میں اسلام آباد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں کسی افسر کو ملنے جا رہا تھا تو رستے میں ایک سنیئر افسر نے مجھے سلام کیا اور کھڑے کھڑے جلدی جلدی مجھے سرگوشی کے انداز میں اطلاع دی کی ارسلان افتخار کی پولیس میں تعیناتی کے لیے متعلقہ قانون اور رولز میں ترامیم کا کیس منظوری کے لیے وزیراعظم سیکریٹریٹ کو بجھوا دیا گیا ہے اور منظوری کسی بھی وقت ہو جائے گی۔ یہ سنتے ہی میں وہیں سے فوراً اپنے دفتر کی طرف مڑ گیا۔ دفتر پہنچ کر اس بار بغیر چیف جسٹس اور ارسلان افتخار کے نام لیے ایک خبر بنا دی کہ پاکستان کے ایک اعلیٰ ترین آئینی ادارے میں تعینات شخص کے بیٹے کو پولیس میں بھرتی کرنے کے لیے حکومت قانون اور رولز میں ترامیم کرنے جا رہی ہے۔ میں نے اس خبر کو دی نیوز ڈیسک پر فائل کر دیا اور دفتر میں بھی کسی سےبات نہیں کی، نہ ہی ایڈیٹوریل بورڈ کو بتایا کہ یہ خبر دراصل وہی ہے جسے چند ماہ پہلے روک دیا گیا تھا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن خبر دی نیوز کے صفحہ اول پر شائع ہو گئی جس پر مجھے ادارہ کے ایک اعلیٰ ادارتی ذمہ دار کا فون موصول ہوا اورانہوں نے پہلی بات ہی یہ کی ’’عباسی صاحب! یہ آپ نے کیا کر دیا؟‘‘ میں نے کہا کہ میں نے خبر دی جو حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے لیے میں ہر فورم پر دفاع کے لیے تیار ہوں۔

اس خبر کی اشاعت کے اگلے سال (فروری 2007ء میں) مجھے خفیہ ذرائع سے افتخار چوہدری کے خلاف مختلف مواد ملنے لگا جس میں ارسلان افتخار کے کیس کے علاوہ کچھ غیر اخلاقی اور پٹرول وغیرہ کے غلط استعمال کے الزامات شامل تھے۔ جب مجھے یہ اطلاعات خفیہ انداز میں روزانہ ملنے لگیں تو میرے کان کھڑے ہو گئے۔ جس انداز میں مجھ پر خفیہ طریقہ سے یہ اطلاعات پلانٹ کی جا رہی تھیں تو اُس تناظر میں مَیں نے دی نیوز کے لیے ایک خبر لکھی کہ کس طرح مجھے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف خفیہ ذرائع سے الزامات پر مبنی مواد دیا جا رہا ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا کہ ممکنہ طور پر چیف جسٹس کے خلاف کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ سرکاری پابندیوں کے باعث میری اس خبر کو شائع نہیں کیا گیا تاہم مجھے بتایا گیا کہ حکومتی پریشر کے باوجود ایڈیٹوریل بورڈ اس کی اشاعت کے بارے میں سوچ بچار کر رہا ہے۔ میں چند دن اس خبر کی اشاعت کے حوالے سے ایڈیٹوریل بورڈ کے ذمہ داران سے پوچھتا رہا لیکن بورڈ کی اپنی فکر بجا تھی کہ خبر شائع ہوئی اور کوئی سازش چیف جسٹس کے خلاف نہ ہوئی تو نجانے اخبار کو کیا کچھ بھگتنا پڑے کیونکہ اس سے مشرف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کی ناراضی بھی لازم تھی۔ ابھی ایڈیٹوریل بورڈ کے پاس میری خبر اشاعت کے انتظار میں ہی تھی کہ 9مارچ 2007ء کو پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کر دیا۔ اُس کے بعد جو ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ اُسی شام مجھے ایڈیٹوریل بورڈ کے اعلیٰ ذمہ دار کا فون موصول ہوا ، وہ افسوس کرنے لگے کہ کاش ہم آپ کی خبر شائع کر دیتے۔ اب سب کھیل ہمارے سامنے آ گیا کہ پہلے خود چیف جسٹس کے بیٹے کی غیر قانونی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے مختلف انتظامی اقدامات کیے اور پھر جب ضرورت محسوس کی تو اُنہی اقدامات کی بنیاد پر چیف جسٹس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔

اُسی سال(2007ء) نومبر میں افتخار چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کو ججوں کو ایمرجنسی نافذ کرنے کے بعد غیر آئینی طریقہ سے نکال دیا گیا اور اُنہیں اُن کے اہلِ خانہ سمیت گھروں میں نظر بند کر دیا گیا کیونکہ مشرف کو ڈر تھا کہ عدلیہ اُن کی فوجی وردی میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے عمل کے خلاف فیصلہ سنا دے گی۔ اُس وقت ہمیں اطلاعات مل رہی تھیں کہ جنرل مشرف ایجنسیوں کے ذریعے کس طرح ججوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اُن کے خلاف فیصلہ نہ آ سکے۔ اسی دوران برطانوی اخبار دی ٹائمز نے ایک خبر شائع کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ کچھ ایجنسیوں نے گھنائونی چالیں چلتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ کے کچھ جج صاحبان اور اُن کے بچوں کی قابلِ اعتراض خفیہ وڈیوز بنا کر اُنہیں بلیک میل کرنے کو مبینہ کوشش کی ہے تاکہ پرویز مشرف کے حق میں فیصلہ لیا جا سکے۔

ماضی کے ان واقعات کے تناظر میں گزشتہ روز مریم نواز کی طرف سے جس وڈیو کو پریس کانفرنس میں دکھایا گیا، جس میں احتساب عدالت کے جج کو مبینہ طور پر تسلیم کرتے سنا گیا کہ اُنہوں نے دبائو میں آکر اور بلیک میلنگ پر نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، سیاسی اور قانونی اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ مبینہ وڈیو میں جج صاحب کو کہتے دکھایا گیا کہ اُن سے متعلق قابل اعتراض وڈیو موجود ہے۔ مریم نواز کے الزامات کے جواب میں جج صاحب نے آج اپنا تردیدی بیان جاری کیا۔ اُنہوں نے اس وڈیو کو جعلی کہا اور نہ ہی اس ملاقات سے انکار کیا بلکہ ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے یہ بھی الزام لگایا کہ اُن پر تو نواز شریف اور اُن کے خاندان کے نمائندوں کی طرف سے دبائو تھا اور اُنہیں رشوت کی بھی پیشکش ہوئی۔ ہمارے ہاں ماضی میں ایجنسیاں کیا کچھ نہیں کرتی رہیں، اس پر بحث کئے بغیر میری ذاتی رائے میں یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان کو فوری سوموٹو نوٹس لینا چاہئے تاکہ سچائی تک پہنچا جا سکے۔ ایک طرف مریم نواز سے مبینہ وڈیو کے متعلق شواہد لیے جانے چاہئیں، اُس کا فرانزک آڈٹ کرانا چاہئے تو دوسری طرف احتساب عدالت کے جج صاحب کے جواب اور الزامات کی بھی تحقیق کی جانی چاہئے۔ اگر جج صاحب کو واقعی رشوت اور دھمکیاں دی گئیں تو کس کے ذریعے ایسا کیا گیا، کیا جج صاحب نے اس کی شکایت متعلقہ فورم اور سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج صاحب سے کی تھی؟ اس معاملہ کو بجائے اس کے کہ کسی خفیہ انکوائری یا جے آئی ٹی کے حوالے کر دیا جائے، سپریم کورٹ کے فل بینچ کو سننا چاہئے تاکہ پوری قوم دیکھے کہ مریم نواز اور احتساب عدالت کے جج صاحب میں سے کس نے سچ بولا اور کس نے جھوٹ۔ بہتر ہو گا کہ اس معاملہ کے ساتھ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت صدیقی کے کیس کو بھی اکٹھا سن لیا جائے کیونکہ الزامات کی نوعیت ایک سی ہے۔ یہ سب کچھ کرنا اس لیے لازم ہے کہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ عدلیہ کی اپنی عزت اور ساکھ دائو پر لگی ہوئی ہے۔(بشکریہ جنگ)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں