naya saal or sahafati iqdar

نیا سال  اور صحافتی اقدار

تحریر: ارم لودھی۔۔

سال دوہزار چوبیس کی آخری شام تھی۔ سوشل میڈیا سانحہ پارا چنار کی حمایت میں دیئے جانے والے دھرنوں پرشور مچا رہا تھا،  اہم شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسی شہر قائدکی عوا م سڑکوں پر خوارہورہی تھی، دفتر سے گھر تک منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد میں نے شہر کے کشیدہ حالات سے باخبر رہنے کی غرض سے ٹیلیویژن آن کیا مگر وہاں سوشل میڈیا سے مختلف صورت حال تھی گویا راوی چین ہی چین لکھ رہاتھا۔ ہمارے نیوز چینلزوالوں کو اس وقت صرف سال کے آخری سورج کے غروب ہونے کی بڑی فکرستائے جا رہی تھی۔ تقریباََہر نیوز چینل ایک ہی راگ آلاپ رہا تھا ” سا ل دو ہزار چوبیس کا آخری غروبِ آفتاب ” بریکنگ نیوز کا درجہ لئے ہوئے سب نیوز چینلز کی اسکرین پر قابض تھا۔وہ آفتاب جسے سارا سال (خاص طور پر موسم گرمامیں) کوئی لفٹ نہیں دیتا وہ سالِ نو اور سال کے اختتام پرکسی دُلہے کی حیثیت سے خصوصی کوریج کا مستحق سمجھا جا رہا تھا۔اب بھلا کون سمجھائے اِن نیوز چینلز والوں کوسورج تو وہی عرصہ دراز پرانا ہے، صرف سال ہی تو بدلا ہے۔ایک زمانہ بیت چکا صحافت کو آزاد ہوئے،مگر بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ہماری صحافت میں نکھار تو نہ آسکا بلکہ مزید بگاڑ ضرور آتا جا رہا ہے، بے مقصد، بے ربط، بے لگام صحافت اتنی عام سی ہوگئی ہے کہ غیر ضروری باتوں تک کوخبر کا درجہ دینا لازم و ملزوم سمجھا جانے لگا ہے۔یہ والی صحافت تو ہمیں ہمارے اساتذہ اورسینئر صحافیوں نے بھی کبھی نہیں سیکھائی تھی مگر اب تولگتا ہے صحافت جدید دور سے بھی زیادہ جدید ترہوگئی ہے۔ سرحد پارشوبزشخصیات کی ذاتی رنجشیں ہوں یا منگنی، یہاں تک کہ شادی کی رسموں سے لے کر بچوں کی ولادت اور طلاق تک جیسے ذاتی معاملات کو ڈسکس کرنا ایک ٹرینڈبنتا جا رہا ہے۔ “فلاں نے فلاں کی شادی پر کتنی مالیت کے زیورات اور ملبوسات زیب تن کئے تھے” بھلایہ بھی کوئی نیوز ہے؟ اس طرح کی بے تکی باتوں سے عوام کا کیا لینا دینا،  سچ پوچھیں تو لائف اسٹائل کے نام پر چٹ پٹے مصالحوں کا ترکہ لگا کر صحافتی اقدار کی دھجکیاں اُڑائی جا رہی ہے جسے دیکھو صحافت کے نام پر اپنی اپنی پیکنگ میں ایک ہی طرح کا منجن بیچنے میں مصروف نظر آتاہے۔ ہر میڈیا ہربات کو خبر کا درجہ بنا کر عوامی مفاد سے بالا تر ہوکر اپنے اپنے مفادات کے مطابق خبریں دے رہا ہے جس میں عوامی مفاد تو دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا۔ صحافت جتنی آزادبیباک بے  لگام آج ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی بلکہ اب تو صحافت بھی سیاسی رنگ میں ڈھل گئی ہے جہاں ہر صحافتی ادارے کو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ معتدد ڈیجیٹل، پرنٹ صحافتی ادارے اور نیوز چینلز ہونے کے باوجود بھی نہ جانے کیوں معیاری صحافت کی جھلک کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی، جہاں  بیشترسیاسی خبروں کا موضوع ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے کرنا اور کیچڑ اُچھالنے تک محدود ہوں وہاں صحافتی اقدار تو ویسے بھی یونہی اپنی موت آپ مر جاتے ہے۔ (ارم لودھی۔ کراچی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں