hakam ko social media ki waja se bukhaar charhta rehta haihakam ko social media ki waja se bukhaar charhta rehta hai

نوازشریف اب قصہ پارینہ بن گئے ہیں، ایاز امیر۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کو کسی مقتدرہ نے نہیں بلکہ پنجاب کے عوام نے سائیڈ لائن کردیا ہے۔ دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ پچھتاوا ہو رہا ہے لیکن اتنا جلدی؟ کل ہی اسی اخبار میں دو فرنٹ پیج رپورٹیں چھپیں۔ ایک ہمارے دوست سلمان غنی کی‘ دوسری حسن رضا کی‘ وہ بھی ہمارے دوست ہیں۔ موضوع میاں صاحب کا رونا دھونا تھا۔ حسن رضا کو میاں صاحب یہاں تک کہہ گئے کہ یہ حکومت بندھی ہوئی ہے اور ہم اس کی نوزل ہیں۔ کیا الفاظ کا چناؤ ہے‘ ساری کہانی اس ایک لفظ نوزل میں بیان ہو جاتی ہے۔ میاں جاوید لطیف نے کچھ دن پہلے یہی کچھ کہا تھا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں نواز شریف کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان جیسے نون لیگی اپنے سے یہ نہیں پوچھ رہے کہ سائیڈ لائن تو میاں صاحب ہو گئے لیکن انہیں ایسے کس نے کیا؟ اصل قصہ تو یہ ہے کہ میاں صاحب کو کسی مقتدرہ نے سائیڈ لائن نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ہاتھ پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام نے کر دیا۔ کرتے دھرتوں نے تو پھر بھی اتنی مہربانی کی کہ میاں صاحب کو اپنی سیٹ جتوا دی نہیں تو ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہاتھوں پِٹ گئے تھے اور ظاہراً جو عزت بچی وہ اندھیروں کے سبب بچی۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ اب یہ اور بات ہے کہ میاں صاحب کسی اور چیز کے عادی تھے کہ ہر چیز اُن کی گود میں ڈال دی جائے۔ ایسی صورتحال اب رہی نہیں‘ نہ (ن) لیگ کے پاس وہ عوامی پذیرائی رہی ہے جو ایک زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ پی ٹی آئی کے ہاتھوں (ن) لیگ اب پنجاب میں پِٹ کے رہ گئی ہے اور جوکچھ (ن) لیگ کو آٹھ فروری کی کرشماتی رات کو ملا وہ اندھیروں کے کمال کی وجہ سے ملا‘ اس رات کے کرشمات نہ ہوتے تو ان کے ہاتھ کچھ بھی نہ آتا۔ جتنی مہربانی ہوئی ہے اس کا شکر ادا کریں اور اسی پر قناعت کریں۔ یہ تو ہونے سے رہا کہ بدنامی کوئی اور اٹھائے اور آپ کی گود میں سب کچھ ڈال دیا جائے۔ لہٰذا میاں صاحب کا رونا دھونا بجا نہیں۔ ان کے دن گئے‘ سیاسی طور پر وہ قصۂ پارینہ ہو گئے ہیں۔ جتنی آکسیجن ان میں بھری جائے نوے کی دہائی کے نواز شریف نہیں بن سکتے۔ ہرایک کا وقت ہوتا ہے اور ان کا وقت گیا۔ اسی پر خوش رہیں کہ ان کی ہونہار بیٹی کو کچھ نہ کچھ مل گیا ہے ورنہ حق اور سچ پر بات ہوتی تو وہ شاید اسمبلی نہ پہنچ پاتیں۔ اس بات کا کسی کو شک ہے توکسی ایک حلقے میں صنم جاوید سے ان کا مقابلہ کرا لیا جائے۔ نون لیگیوں کی ایک فیورٹ اصطلاح ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ صنم جاوید کے ساتھ مقابلہ پڑے تو واقعی دودھ اور پانی الگ ہو جائے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں