علی عمران جونیئر
دوستو،جیسا کہ آپ احباب کے علم میں ہے کہ ہم غیرسیاسی لکھیں۔ ۔ایک زمانے میں ایک معروف کالم نویس کئی دہائیوں تک کثیرالاشاعت اخباروں میں اپنا کالم بعنوان ”غیرسیاسی باتیں” لکھتے رہے، اور ان کے یہ کالم اپنے عنوان کے برعکس ننانوے فیصد سیاست کے موضوع پر ہوتے تھے۔ لیکن ہمارے ساتھ ایسا قطعی نہیں۔۔ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ غیرسیاسی کالم لکھا کریں اور آپ کو اس حبس زدہ ماحول میں کچھ دیر تفریح کے لمحات فراہم کرنے کی کوشش کریں لیکن آخر کو ہم بھی انسان ہیں، اسی لئے اپنے ماحول ، اپنے اطراف سے ہم بھی ”متاثر” ہوجاتے ہیں۔۔آج چونکہ سنڈے یعنی فن ڈے ہے اس لئے آپ کو مزید بور نہیں کریں گے۔۔لیجئے آج متاثرہ کالم پڑھئے۔۔
اگر کبھی آپ نے غور کیا ہوتوآپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے ملک میں سیاست بھی ایک گالی بن گئی ہے، مثال کے طور پر اگر آپ کسی کے ساتھ دھوکاکرتے ہیں تو وہ سامنے سے یہی کہتا ہے، اب ہمارے ساتھ ”سیاست” کروگے؟؟۔۔ سیاست دانوں کے لئے مشہور ہے کہ جھوٹ بڑے دھڑلے سے بولتے ہیں۔اسی طرح کہ ایک سیاست دان کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کا کہا ہر جملہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے، کسی گاؤں میں پہنچے تو ان کی شہرت سن کر ایک نوے سالہ بوڑھی خاتون ان سے ملنے آئی اور بولی، کیا تم وہی ہو جس سے بڑا جھوٹا کوئی اور نہیں۔۔ وہ لیڈر مسکرائے اور کہنے لگے۔۔محترمہ ، چھوڑئیے اس بات کو میں تو آپ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا ہوں کہ کمال ہے یہ عمراور اس پر یہ حسن، یہ جمال، یہ کشش، جواب نہیں آپ کا۔۔وہ بوڑھی خاتون شرمائی اور دوپٹے کو مروڑتے ہوئے کہنے لگی۔۔ ہائے اللہ ،لوگ کتنے جھوٹے ہیں ، جو ایک اچھے خاصے آدمی کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست فرماتے ہیں۔۔بہت سے سیاست دانوں کی اولادوں کو اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا، اسی لیے تو وہ بات بات پر کہتے ہیں۔۔ تْو جانتا ہے میرا باپ کون ہے؟۔۔چودھری نثار سے جب الیکشن میں شکست کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے۔۔یہ بات میں پوری ذمہ ”واری” سے کہہ رہا ہوں کہ میرے حلقے کے لوگوں نے چار وجہ سے مجھے ووٹ نہیں دیے۔۔ ایک وجہ میں بتا نہیں سکتا ،دوسری وجہ بتانے کا فائدہ نہیں ،تیسری وجہ بتا دی تو بڑی خرابی ہوگی اور چوتھی وجہ وقت آنے پر بتاؤں گا۔۔چودھری صاحب اس ”واری” آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کیلئے میدان میں اتر رہے ہیں اور یہ بات ہم بھی پوری ذمہ ”واری” سے کہہ رہے ہیں۔۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ایک جنرل نے اپنی سپاہ کو حکم دیا کہ چھ ماہ تک آپ لوگوں نے اپنی جرابیں تبدیل نہیں کیں، اب وقت آگیا ہے کہ جاکر اپنی جرابوں کو تبدیل کرو، کیونکہ ان کی ”بو” سے دماغ پھٹا جارہا ہے،سپاہ فٹافٹ بیرکوں میں گئی اور پانچ منٹ میں جرابیں بدل کرواپس آگئی، جنرل کو آنے والی ”بُو” کم نہیں لگی، غصے سے پوچھا، پرانی جرابیں کہاں ہیں، سب نے اپنی جیبوں سے نکال کردکھادیں کہ یہ رہیں۔۔بس یہی حال ہمارے ملک میں آنے والی تبدیلی کا لگ رہا ہے۔۔معروف کالم نگارجاوید چودھری کہتے ہیں کہ ایک بچہ بہت شرارتی تھا. ماں اسے ایک ماہر نفسیات کے پاس لے گئی. ماہر نفسیات نے ماں کو مشورہ دیا کہ اس بچے کو ڈھیلا ڈھالا نِکر پہناؤ. ماں نے بچے کو ڈھیلا ڈھالا نِکر پہنا دیا. بچہ سارا دن اس نکر کو ہی پکڑے رکھتا اور شرارتوں سے پرے رہتا۔۔جاوید چوہدری کے بقول عمران خان کی مرکز اور پنجاب میں حکومت ایک ڈھیلا ڈھالا نِکرتھی اور وہ جب تک اقتدار میں رہے اسی نِکر کو پکڑے رکھنے میں مصروف رہے، اور کوئی کام نہیں کر سکے۔ ۔ملا نصیر الدین کے پاس ایک دیہاتی خط لے کر آیا کہ اس کو پڑھ کر سنائے۔۔ملا صاحب بولے کہ میں تو ان پڑھ ہوں ۔دیہاتی نے کہا تو پھر اتنی بڑی پگڑی کیوں باندھی ہوئی ہے۔۔ملا نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے سر پر رکھ دی اور کہا۔۔لے اب تو خود پڑھ لے۔۔اب پگڑی نوازشریف کے سرپر رکھنے کی تیاری ہے۔بقول سہیل وڑائچ جو پہلے لاڈلہ تھا اب سوتیلا ہوگیا ہے اور جو پہلے سوتیلا تھا اب لاڈلہ بن چکا ہے۔ویسے بھی ن لیگی لیڈران تو اپنے ووٹرز کو بار بار یہی یقین دہانی کرارہے ہیں کہ۔۔ ان کی بات ہوچکی ہے۔۔
کہتے ہیں کہ ۔۔مداری کے پاس کئی بندر ہوتے ہیں لیکن اس کا فیوریٹ وہی بندر ہوتا ہے جو ڈگڈگی پر اچھا ناچے، (یہ قطعی غیرسیاسی جملہ ہے اسے حالات حاضرہ سے قطعی نہ جوڑا جائے)۔۔خاوند جب بیرون ملک سے لوٹا توبیگم سے کہا، تمہارے لئے افریقہ سے بندرلایا تھا مگر وہ راستے میں ہی چھوٹ کر بھاگ گیا، بیوی نے بڑی معصومیت سے کہا، کوئی بات نہیں سرتاج، وہ نہ سہی آپ تو آگئے ناں۔۔کسی زمانے میں ایک بار جنگل میں الیکشن ہوئے،بندروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بندر بادشاہ بن گیا۔۔ شیر کو اپنی ہار پر بہت افسوس ہوا، ایک دن اس نے راہ چلتے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا، ہرنی دوڑی دوڑی بادشاہ (بندر) کے دربار میں پہنچی اور فریاد کی کہ شیر نے میرا بچہ پکڑ لیا ہے، بادشاہ سلامت انصاف کیجئے اور اسے چھڑائیے۔ بندر نے کہا ،تم فکر ہی نہ کرو ابھی چھڑا دیتا ہوں، یوں بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں، شیر کے پاس جانے یا کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرنے کی بجائے، بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا پھر تھک ہار کر ہرنی کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، دیکھو میں نے تو بہت بھاگ دوڑ کی،اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں، شیر یقیناً دہشت گرد ہے۔ پھر بادشاہ بندر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام دہشت گرد شیر کا کیا دھرا ہے، جو میری حکومت گرانا چاہتا ہے۔ میں نے بہت دوڑ لگائی جو آپ کے سامنے ہے۔ اب ہم نے بندروں کی کمیٹی بنا دی ہے اور مجرموں کو جلد ہی کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔۔۔ اسی کہانی کو حالات حاضرہ پر فٹ کریں تو ہمارا حال بھی بندروں سے کم نہیں، جس سمت میں دوڑ لگانی چاہئے اس طرف ذرہ برابر بھی نہیں جاتے بلکہ بندر کی طرح فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری پر پابندی اور انٹرنیٹ، موبائل نیٹ ورک بند کر دیتے ہیں۔۔ایک بار سیاستدانوں کی بھری بس کہیںجا رہی تھی۔ حادثہ ہوا اور بس الٹ گئی۔ ایک کسان پاس ہی تھا۔ وہ فوراً ٹریکٹر لے آیا اور گڑھا کھود کر سارے بندے بمع بس کے دفن کر دیئے۔۔اگلے دن پولیس تحقیقات کرتی آئی تو کسان نے انہیں ساری تفصیل بتائی۔ پولیس نے پوچھا کہ کیا تم نے جائزہ لیا تھا کہ وہ سارے مر چکے تھے یا ان میں سے کوئی زندہ بھی تھا۔۔کسان بولا کہ آدھی سے زیادہ بس والے کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔ پر سر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سیاست دان کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔۔؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ میں لڑکیاں نہیں چھیڑتا، کیوں کہ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ جو لڑکی برتن دھوسکتی ہے وہ مجھے بھی دھوسکتی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔