rohani remand | Syed Arif Mustafa

معاملہ یوم اقبال کا نہیں ، چھٹی کا ہے

تحریر: سید عارف مصطفی

گزشتہ برس نومبر میں فیض آباد دھرنے کے بعد ہونے والے معاہدے میں ( جس پہ فوج کے نمائندے و مصالحت کار کے دستخط بھی ثبت ہیں ) یوم اقبال کی تعطیل کا مطالبہ مان لیئے جانے کے باوجود وفاقی حکومت اس کی تعمیل سے صاف مکر گئی ۔۔ حیرت تو اس بات پہ ہے کہ میڈیا بھی اس بدعہدی پہ مہر بہ لب ہے حالانکہ وہ تو ذرا کی ذرا میں ماضی و حال کے موازنے کی ویڈیو کلپس بغل میں دابے پھرتا ہے اور موقع آتے ہی جھٹ پٹ زیب اسکرین کرنا شروع کردیتا ہے ۔۔۔ چونکہ یہ معاہدہ نون لیگ نہیں حکومت پاکستان سے ہوا تھا اور فوج اسکی ضامن بنی تھی چنانچہ اب یہ ذمہ فوج کا ہے کہ وہ اس پہ عملدرآمد کرواکے اپنی آبرو بچائے اس ایک روز کی تعطیل کی بابت میں نے سرنامے میں پہلے ہی عرض کردیا ہے کہ دراصل ” معاملہ یوم اقبال کی چھٹی کا نہیں ، علامہ اقبال کی چھٹی کا ہے” کیونکہ لگتا یہ ہے کہ ہماری بے لگام اشرافیہ نے بالآخر اپنے اصلی ویلن کو پہچان ہی لیا ہے ۔۔۔ انقلابی اقبال نے تو ‘ جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقان کو روٹی ، اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو ‘ والےسرکش شعر کے بعد سے جاگیرداروں کی دشمنی مول لی ہی تھی ، لیکن باقی ارکان اشرافیہ کو ان کے باقی اشعار کی سمجھ آتے آتے زمانے لگے جن میں‌چند بطور نمونہ ذیل میں درج ہیں ۔۔۔

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں،کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے۔۔۔جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر۔۔۔ کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشاد شرق و غرب،تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر۔ ۔ تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا،ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔۔۔تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں، ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔۔۔

اور اب جبکہ ان اشعار کی تفہیم اس طبقے پہ ہو ہی گئی  تو وہ مختلف جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم ہوئے ہونے کے باوجود یکجان ہوکے علامہ اقبال کے مقابل آن کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ انکے نظریات میں جابجا موجود خودی ، فقر اور صفات شاہین جیسے حوالے و استعارے تو عام عوام کو انکے خلاف صف آراء ہونے پہ اکساتے ہیں ۔۔ یہی اقبال ہے کہ جسکے نظریات کی کھاد سے قیام پاکستان کی فصل تیار ہوئی اور عظمت اسلام کی کشت ویراں شاداب ہونے کی راہ کھلی ۔۔۔ اور اس طبقے ( جس میں میڈیا کا کچھ حصہ بھی شامل ہے ) کی تو ہرطرح سے یہی کوشش ہے کہ قیام پاکستان کو نظریاتی تقسیم کے بجائے ایک جذباتی حادثہ یا معاشی ضرورت کا شاخسانہ قرار دلوادیا جائے ۔۔۔ ایسے میں انکی دانست میں ایڑی چوٹی کا زور لگاکے اور ہرممکن کوشش کرکے اقبال کو فراموش کروا دینے ہی میں انکا بھلا اور عافیت ہے اور یوم اقبال ہی وہ موقع ہےکہ جب بھولے بسرے کہیں ایک سال میں جاکے اقبال یاد آتے ہیں لیکن یہ ایک اڑچن بھی نہ رہی تو پھر وہ اقبال جو کسی نہ کسی صورت زندہ چلا آتا تھا اپنے مزار اقبال تک ہی محدود کیا جاسکے گا ۔۔۔

باقی جو آجکل کچھ ارباب حکومت بڑھ چڑھ کر اس تعطیل کی مذمت کررہے اور کام کی عظمت کے ترانے گارہے ہیں تو بھلا کون نہیں جانتا اور نہیں معلوم کہ میڈیا اس کا ذکر کیوں نہیں کررہا کہ گزشتہ 4 برس قبل انہی لوگوں نے 126 روزہ دھرنے سے معیشت کو مفلوج کرکے ملک کو کھربوں روپے کا نقصآن پہنچایا تھا ۔۔۔ ان کا بھی اصل مسئلہ دراصل وہی ہے جو طبقہء اشرافیہ کا ہے کہ اقبال انکی ذہنی غلامی اور مغرب پرستی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور جسکو ہٹانے کی سازش میں نون لیگ اور جماعت اسلامی و جمیعت علمائے اسلام جیسی جماعتیں خاموش حمایتی کا کردار کررہی ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اور میڈیا کے کچھ حصے تو یہ سمجھتے ہیں کہ دانشور و فلسفی اقبال نے اپنا سارا کلام انہیں کے خلاف لکھا ہے۔۔(سید عارف مصطفی)۔۔

(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں