تحریر: خرم علی عمران
نائن الیون کے بعد پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کا جنم ہوا۔ اس سے پہلے پی ٹی وی کا راج تھا اور چار و ناچار بس اسے ہی دیکھا جاتا تھا الا ماشا اللہ بس وہ لوگ جو اس زمانے سے بھی پہلے سے ڈش ہولڈر تھے وہ دنیا بھر کے چینلز دیکھ پاتے تھے مگر وہ بہت مہنگا سودا تھا اور ہر کوئی اسے افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ نائن الیون کے بعد فنڈنگ کا ایک سیلاب آیا اور اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کو فروغ دینے اور ترویج کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری اس شعبے یعنی الیکٹرانک میڈیامیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر کی گئی اور پھر چینلز کی بہار آگئی جس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات پاکستانی معاشرے پر مرتب ہوئے ۔ مثبت اثرات میں نئی ملازمتوں کا بڑی تعداد میں تخلیق ہونا، آزادی ء اظہار کے فروغ کے نت نئے انداز سے پاکستانی عوام کا آشنا ہونا، کیبل اور سی ڈی کے ذریعے سے چھائے ہوئے انڈین میڈیا کے ڈراموں کا سحر ٹوٹنا، نئے ٹیلنٹ کا سامنے آنا وغیرہ کے ساتھ اور بھی کئی چھوٹے بڑے مثبت اثرات شامل ہیں اور منفی اثرات میں معاشرے میں بے حیائی کی حد کو چھوتی ہوئی جدیدیت اور مادیت کا فروغ، تشدد آمیز مناظر کی براہ راست کوریج کے اثرات سے خوف کے ماحول کا جنم لینا، سچ اور جھوٹ کو ملا کر پیش کرنے سے الجھاووں اور کنفیوژنز کا جنم لینا، بناسپتی میڈیائی دانشوروں کی ایک نئی کھیپ کا پیدا ہوجان جنہوں نے اپنے فکری مغالطوں سے سیاہ کو سفید کرکے دکھایا اور بہت سے آج بھی اس شغل میں مصروف نظر اتے ہیں وغیرہ شامل ہیں۔
ملازمتوں کے حوالے سے بلاشبہ الیکٹرانک میڈیا نے ابتداء میں ایک سحر انگیز اور بے حد اطمینان بخش ماحول تخلیق کیا، ایک ایسا شعبہ وجود میں آیا جہاں تنخواہیں بڑی دلکش،دیگر سہولیات و مراعات بھی موجود اور اختیارات کا تڑکا بھی ساتھ میں بونس کے طور پر موجود تھا۔ اس کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کے کارکنوں کے معاوضوں میں بھی اضافہ ہوا اور معاملات میں بہتری آئی۔ یہ سب ہوا لیکن اس وقت بھی کچھ ہی عرصے بعد جب نت نئے چینلز برساتی کھمبیوں کی طرح جنم لے رہے تھے کارپوریٹ میڈیا کے دیدہ ور اور تجربہ کار لوگ پریشان تھے اور یہ بیانیہ پیش کرتے نظر آتے تھے کہ ہمارے ایڈورٹائزمنٹ کی دینا کی اتنی وسعت اور گنجائش ہی نہیں ہے کہ اتنے سارے چینلز اشتہارات کے بل بوتے پر چل سکیں اور فی الوقت کیونکہ ریاستی اور بین اللاقوامی فنڈنگ عالمی حالات کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا کووافر مقدار میں میسر ہے اس لئے یہ مصنوعی طور پر کھڑا کیا گیا میڈیائی نظام برقرار ہے جب یہ سہارے ختم ہونگے تو مسائل گھمبیر ہوجائیں گے ۔اور پھر موجودہ صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ وہ درست کہتے تھے۔
ریاست اور اسٹیبلشمنٹ نے پچھلے انیس بیس برسوں میں اپنی حکمت عملیوں اور سیاست کی ترویج کے لئے میڈیا کو خوب استعمال کیا اور میڈیا نے بھی سپردگی کے عالم میں خود کو خوب استعمال ہونے دیا۔لفافوں کی کہانیاں عام ہوئیں اورمختلف فورمز پر ہونے والی سوشل پارٹیوں کے قصے بھی زبان زد عام رہے اور لوگ پیڑ گنے بغیر خوب آم کھاتے رہے اور سب ہرا ہی ہرا ملتا اور چلتا رہا کہ ہر کمال را زوال کے مصداق میں مصنوعی سہارے ختم ہوئے اور مختلف ذرائع سے مخلتف مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی فنڈنگ کم ہوتے ہوتے بند ہونا شروع ہوئی تو پھر چینلز نے بھی رخت سفر باندھا۔کچھ تو بند ہوگئے کچھ بند کرا دیئے گئے اور کچھ بلکہ زیادہ تر نے بقا کی اس جنگ میں ڈاؤن سائزنگ کو اپنا ہتھیار بنا کراپنے ملازمین پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ اب نہ صرف یہ کے پہلے سے کام کررہے کارکنوں کی ملازمتیں ختم کردی گئیں ہیں اور جو کام کررہے ہیں انکی ملازمتیں خطرے میں ہیں بلکہ نئی نسل کے نوجوان جو ملک کے طول و عرض میں بڑی محنت سے جزنلزم اور میڈیا سائنسز کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کی کھپت بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ اور خطرے کی گھنٹی بج بج کر اب گھنٹۓ بلکہ گھنٹہ گھر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
اب اس سلسلے میں ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کو مالکان وآجران سے مل کر بات کرنی اور کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانا ہی پڑے گی کہ بہرحال کچھ بھی ہو میڈیا ریاست کا ایک بہت اہم ٹول ہوا کرتا ہے اور ساری دنیا میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔انٹڑنیشل ڈونرایجنسیز بھی پاکستان میں میڈیا کی حالت زار سے بے خبر نہیں ہیں اور اس سلسلے میں شنید ہے کہ ریاستی بڑوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور حکمت عملی وضع کرنے پر غور وغوض بھی ہورہا ہے کہ کیسے میڈیا کو دوبارہ بہتر حالت و حالات میں لایا جائے اور کیسے میڈیا کے کارکنوں کے معاوضوں،ملازمتوں اور ورکنگ کنڈیشنز میں بہتری لاتے ہوئے انکی ملازمتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ جیسے سنہ50 سے80 کی دہائی تک ہماری فلم انڈسٹری جیسی بھی تھی، بھلےچھوٹٰی سی تھی لیکن ایک مقام کی حامل تھی اور اسکا کام اور اسکے اداکار،کہانی نویس،ڈائریکٹرز،موسیقاراور گلوکار ایک بڑا مقام اور مرتبہ رکھتے تھے اور آج بھی ان کا کام کم تر وسائل میں کیا گیاایک مثالی کام سمجھا جاتا ہے اور بہت سی شخصیات کوآج لیجنڈز کا درجہ حاصل ہے۔اگر اس فلم انڈسٹری کو ریاستی سطح پر باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دے کے منصوبہ بندی کے حساب سے سپورٹ کیا جاتاتو آج دنیا بھر میں انڈیا کی طرح ہماری بھی بہت بڑی مارکیٹ ہوتی اور اس سنہرے دور کی طرح آج بھی ہماری فلمیں انڈیا کا مقابلہ دل ناتواں کی طرح خوب کررہی ہوتیں لیکن عدم توجہی اور ناقدری نے جس طرح اسے برباد کر ڈلا تو بلکل کچھ اسی طرح سے میڈیا کے موجودہ حالات بھی ہوتے نظر آرہے ہیں اگر جلد توجہ نہ دی گئی تو معاملات مزید بگاڑ کی طرف چلے جائیں گے جس سے ریاست کا بھی نقصان ہے کہ وہ قومی اور بین الاقوامی پروپیگنڈہ جنگ کے لئے میڈیائی سیاست کے اپنے اس اہم ہتھیار یعنی میڈیا کو کمزور سے کمزور تر کردے گی جس کا نقصان اسے بھی اٹھانا پڑے گا۔(خرم علی عمران)