تحریر: مظہرعباس۔۔
محترم وزیر اطلاعات فواد چوہدری اِن دنوں بڑے زور و شور سے ’میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ قائم کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ کل تک اپنے آپ کو خود صحافی اور اینکر کہنے والے آج ان لوگوں کو نہیں پہچان پا رہے جنہیں وہ کل تک صحافی مانتے تھے۔
وہ PFUJجیسی تنظیم کو بھی میڈیا مالکان سے جوڑ رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی 1950سے تاریخ کیا رہی ہے اور اس نے صحافتی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال مالکان کے خلاف ہی کی تھی۔ 1970میں ہم کمزور ضرورہوئے ہیں اور آپ جیسے حکمرانوں نے ہمیں توڑا بھی ہے مگر یاد رکھیں آج بھی کچھ دیوانے سڑکوں پر ہیں، آزادی صحافت کے تحفظ کیلئے۔مجھے نہیں پتا کہ آپ اس اتھارٹی کے قیام کے بعد پہلے میڈیا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
الطاف گوہر اور جنرل مجیب کی صف میں ہوں گے یا جمہوریت پسندوں کی فہرست میں رہنا پسند کریں گے۔ میڈیائی مارشل لا کے خلاف لڑائی دلیل سے بھی ہوگی اور احتجاج سے بھی۔رہ گئی بات ’فیک نیوز‘ کی تو اس کے موجد تو خود حکمران ہیں۔ بیانات اٹھالیں اور تجزیہ کرتے چلے جائیں۔ جہاں تک قانون کی بات ہے تو وزیراعظم عمران خان اکثر اس حوالے سے برطانیہ کی مثال دیتے ہیں۔
آپ اس ملک میں صرف ہتکِ عزت کا قانون سخت کردیں۔ 2002 کے قانون میں ترمیم کردیں فرق خود محسوس کریں گے۔ اگر پرنٹ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کو حکمرانی کے زیر اثر لانا ہے تو یہ کوشش تو آپ سے پہلے والوں نے بھی کی تھی آپ بھی کرلیں۔اس میڈیا اتھارٹی کے جو خدو خال آپ نے بیان کئے ہیں، اس سے ایوب خان کے 1960 کے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
وہ صرف پرنٹ میڈیا کے لئے تھا اور اخبارات پر دبائو اور کنٹرول کے لئے PMDA کے ذریعے آپ ہر طرح کے میڈیا کو قابو کرنا چاہتے ہیں جہاں پہلے ہی بہت سے قوانین ہیں۔
میڈیا پر دبائو ڈالنے کے لئے ایک اور قانون سہی مگر یاد رکھیں کہ اطلاعات کی اس دنیا میں ’خبر‘ رکتی نہیں ہے۔ سنسر شپ اور کنٹرول ہی ’فیک نیوز‘ اور افواہوں کو جنم دیتاہے۔جن قوانین کو ختم کیا جا رہا ہے، ان میں اخباری کارکنوں کی طویل جدوجہد سے بنایا جانے والا نیوز پیپر ایمپلائز ایکٹ 1973 بھی شامل ہے جو نہ صرف صحافیوں اور کارکنوں کی تنخواہوں کا تعین کرتا ہے بلکہ تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے مالکان کئی بار سپریم کورٹ گئے مگر ناکام ہوئے، اب یہ کام فواد چوہدری صاحب نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔
اس سے بہتر ہے کہ اس میں ترمیم کر کے الیکٹرونک میڈیا کے ملازمین کو بھی تحفظ دیا جائے۔دوسرا قانون جو ختم کیا جا رہا ہے، وہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمپرا) ہے۔ یہ قانون ٹی وی چینلز کو لائسنس دینے اور ریگولیٹ کرنے کیلئے لایا گیا تھا۔ اس میں حکومتی اور ریاستی مداخلتیں نہ ہوں تو اسے بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔
ویسے جب یہ قانون بن رہا تھا تو PFUJ نے کراس میڈیا اونرشپ کی مخالفت کی تھی کیوں کہ خدشہ تھا کہ اجارہ داریاں قائم ہوں گی مگر شیخ رشید احمد اور فواد صاحب جیسے لوگ اس کے حق میں تھے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ جب 2014 میں مسلم لیگ کی حکومت میں انسدادِ الیکٹرانک کرائمز ایکٹ بنا تو PFUJ نے خبردار کیا کہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ آج اسے FIA کے ذریعے ہراساں کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے مگر اسے ختم نہیں کیا جا رہا۔
اس اتھارٹی کے بعد پریس کونسل آف پاکستان ایکٹ 2002 بھی ختم ہو جائے گا۔ ویسے تو پچھلے تین سال سے اس کا چیئرمین مقرر نہ کر کے حکومت نے اس کا خاتمہ کردیا ہے۔ اب صرف ضابطے کی کارروائی باقی ہے۔ سو بسم ﷲ کیجئے۔
اس اتھارٹی کے قیام کے بعد نیوز ایجنسی اینڈ بک رجسٹریشن آرڈیننس 2002 اور موشن پیکچر آرڈیننس 1979 بھی ختم ہو جائےگا۔ ’’پھر سب اچھی کتابیں اور فلمیں بنیں گی۔‘‘ بس آپ سب کو لائسنس اور رجسٹریشن کیلئے دربار میں حاضری دینی ہوگی۔
اب اگر کسی کو ’جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق‘ کہنے کی بری عادت پڑی ہوئی ہے تو ایسے لوگوں کے لئے صحافت کا خاتمہ سمجھیں۔اس سب کے بعد میڈیا کا حال کیا ہوگا؟ اس کی نشاندہی بہت پہلے محسن بھوپالی مرحوم نے ضیاء کی سنسر شپ کے زمانےمیں کردی تھی۔
ابلاغ کے لئےناتم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا
ایسا نہ ہو کہ حشر میں وجہ سزا بنے
نقشے میں اک شبیہ کا چھ بار دیکھنا
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نا تھے
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نا تھے
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح آزادی صحافت کے علمبردار تھے مگر 11اگست 1947 کو خود ان کی تقریر سنسر کرنے کی سازش ڈان کے مدیر الطاف حسین نے ناکام بنادی۔
آج کے وزیر اطلاعات جناح کے اخبار پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ثبوت ہے تو عدالت جائیں، ’فیک نیوز‘ کیوں پھیلا رہے ہیں۔ملک ٹوٹ رہا تھا اور کہا گیا لکھوں کہ سب ٹھیک ہے۔ اسی مائنڈ سیٹ نے صحافیوں کو گرفتار کرایا۔میڈیا پر پابندیاں لگوائیں۔ صحافی گمشدہ ہوئے، بہت سے مارے گئے اور کچھ کو چینل سے ہٹا دیا گیا اور ان کے کالم رکوا دیئے گئے۔ پھر کہا جاتا ہے ثبوت لائو۔ اب مائنڈ سیٹ یا سوچ کا بھی کوئی ثبوت ہوتا ہے وہ تو عمل سے پتا چل جاتا ہے، بس ایک فون کال کافی ہے۔ہمارے پاس قلم ہے، مائیک ہے اور زبان ہے، آپ کے پاس طاقت ہے اس سب کو بند کرنے کی۔ ہمارے پاس نثار عثمانی اور منہاج برنا کی میراث ہے۔آپ کے پاس ایوب، ضیاء اور مشرف کی میراث ہے۔ تاریخ ایسے ہی آپ کو یاد رکھےگی۔(بشکریہ جنگ)