تحریر: سید عارف مصطفیٰ
پاکستانی صحافت میں ہر سمت مسلسل برطرفیوں کا طوفان اٹھا ہوا ہے لیکن انکی نمائندہ صحافتی تنظیمیں یا تو دم لپیٹے بیٹھی ہیں یا پھر اپنی خاموشی یا مصنوعی احتجاج کی قیمت وصولنے میں مصروف ہیں اور اندر سے اٹھتے احتجاج کو روند ڈالنے یا خاموش رکھنے کے لیئے پکنکیں کرنے ، حلیم کھلانے اور پلاٹ بانٹنے میں مصروف ہیں ۔۔۔ کچھ عہدیداران اور رہنما نظر آنے والے مہان گروؤں نے زبردست ہوشیاری کی راہ اپنائی ہے ۔۔ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کے اور مکے لہرا لہرا کے ، ان نکالے جانے والوں کے لیئے دہاڑتے بھی سنے جاتے ہیں اور میڈیا مالکان کے سامنے دم دباکے بیٹھے ان کارکنوں سے نپٹنے کے گر بھی بتاتے ہیں اور بطور بخشش اپنی ملازمت اور مراعات کو مستحکم تر کیئے جاتے ہیں ۔ اور ایسی ہی ہوشیاریوں و مکاریوں کے نتیجے میں ایسے حضرات مختلف میڈیا اداروں میں اہم عہدوں کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی اصلیت کو سمجھنے کے لیئے انکی محض گزشتہ دس برس کی ذاتی ترقیوں اور مالی حیثیت کی چھلانگوں کی بابت جان لینا ہی کافی ہے اور ممکن ہوا تو ان سابق و موجودہ عہدیداران کے بارے میں ایک چشم کشا تجزیہ تکمیل کے بعد پیش کردیا جائے گا-
وقت آگیا ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ کہ اگر اہل صحافت واقعی کوئی برادری ہیں تو انکے دکھ درد بھی سانجھے ہیں اور انکے مسئلوں کے حل کے لیئے تدابیر بھی سانجھی ہی ہونی چاہیئیں ۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ان کارکنوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ۔۔ یقینناً ہیں اور کئی ہیں جن میں سے ایک تو یہ ہے کہ حکومت اپنے وفاقی و صوبائی پریس انفارمیشن محکموں اور دیگر محکموں میں انہیں ترجیحی بنیادوں پہ ملازمتیں دے اور اس ضمن میں عمر کی مد میں متعلقہ قوانین کو خصوصی طور پہ نرم کردیا جائے اور اس سلسلے میں صحافی برادری عمال حکومت کا گھیراؤ کرے اور اس وقت تک انکی پریس کؤریج کا بائیکاٹ کردے جب تک کہ وہ مسئلے کو حل نہ کریں تاہم یہ حل ابھی بہت دور ازکار کا ہے اور خاصا محنت طلب بھی ہے فی الوقت ان کارکنوں کی اشک شوئی کے لیئے جو کیا جاسکتا ہے وہ ضرور کرلیا جائے اور اس سے ہرگز صرف نظر نہ کیا جائے – میری دانست میں اس مسئلے کو فوری اور تاخیری دونوں اعتبار سے حل کیا جانا چاہیئے اور ملک کے تمام پریس کلب اپنے ارکان کو حکومت سے پلاٹ لینے کی لالچی مشینری بناڈالنے کے بجائے انہیں اس جانب راغب کریں کہ وہ ان پلاٹوں کو اپنی برادری کے بہبود فنڈ کی اساس کے طور پہ برتیں تاکہ انکا اور تمام اہل صحافت کا مستقبل انفرادی نمو پزیری و ترقی کے بجائے اجتماعی استحکام اور فلاح کے رستے پہ گامزن ہوجائے ۔
اس ضمن میں ایک بڑا قدم یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ ملک کے تمام پریس کلب اور صحافتی تنظیمیں ، حکومتوں سے ملنے والے پلاٹوں کو اپنی تحویل میں لے کر انہیں فروخت کردیں اوراسکے مساوی مزید رقم حکومت سے لے کر اس فنڈ کا حصہ بنائیں اور اس رقم سے بیروزگار ہوجانے والے صحافیوں کی ماہانہ امداد کا باضابطہ فنڈ قائم کردیں اور میڈیا مالکان سے بھی اس مد میں تعاون کے لیئے رابطہ کریں – اس طرح کے وسیع تر فنڈ سے آئندہ بھی ایسے بحرانوں کا سامنا کیا جاسکے گا اور یقینناً اسی اقدام سےاہل صحافت کی کچھ حقیقی اشک شوئی ممکن ہے ورنہ تو صرف خالی خولی کی باتیں ہیں جنکی حیثیت منہ سے فائر مارنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور واقعی کسی برادری کے ہونے کا اور اس کی دعویداری کا یہی تقاضا بھی ہے کہ باتیں بگھارنے کے بجائے پریس ورکر کی دال بگھارنے کے لیئے عملی طور پہ کچھ کیا جائے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن ۔۔ کیا یہ رہنماء حضرات ایسا کچھ کربھی سکیں گے یا ایسا کرنا بھی چاہیں گے ۔۔۔ اس توقع پہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ۔۔ اور کچھ ناقدین کے خیال میں وہ یہ سب نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ انکی دانست میں یہ اہم کام تو اب تک پہلے ہی ہوجانا چاہیئے تھا۔۔۔(سید عارف مصطفیٰ)