تحریک انصاف کی حکومت میڈیا پر کنٹرول سخت کرنے کے اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھی ہے‘ جمعرات کو وفاقی کابینہ نے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ اس اتھارٹی کے قیام سے اب حکومت ایک ہی پلیٹ فارم سے ملک کے تمام میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوجائے گی۔تحریک انصاف کی حکومت نے یہ فیصلہ میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کی سخت مخالفت کے باوجود کیاہے جو میڈیا کے بارے میں اس کے مخصوص مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)نے پرنٹ میڈیا اور دیگر سے متعلق اداروں کو تحلیل کر کے ’’میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک نئے ادارے کے قیام کی وفاقی کابینہ کی منظوری کو پرنٹ میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کے مترادف قرار دیا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کی ریگولیشن کے نام پر پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے عزائم پر مبنی کسی بھی قانون اور اقدام کو پاکستان میں کبھی پذیرائی، مقبولیت اور حمایت نہیں ملے گی۔ سی پی این ای کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین کو آئینی تقاضوں اور عوامی امنگوں کے مطابق اسے مزید بہتر کرنا اگرچہ وقت کا تقاضا ہے تاہم کسی بھی قسم کے فارمولے، فیصلے یا قوانین بنانے سے قبل متعلقہ فریقوں کی مشاورت انتہائی ضروری اور ناگزیر ہے۔ میڈیا سے متعلق کسی بھی قسم کی قانون سازی اور بنیادی فیصلہ سازی کے لیے ایڈیٹروں، صحافیوں اور ناشرین سمیت متعلقہ فریقوں سے مشاورت انتہائی ضروری ہے۔ سی پی این ای کا واضح مؤقف ہے کہ پرنٹ میڈیا کے لیے خصوصی قوانین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور پرنٹ میڈیا کو عام قوانین کے تحت ہی اپنا کام کرنے دیا جائے۔
انھوں نے یاد دلایا ماضی میں بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کی منسوخی اور پرنٹ میڈیا کی آزادی کے لیے سی پی این ای، پی ایف یو جے، جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کی ایک طویل جدوجہد رہی ہے۔ علاوہ ازیں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل سمیت میڈیا کی ہر کیٹیگری کے اپنے مخصوص مسائل، نوعیت اور طریقہ کار ہوتے ہیں، کسی بھی ایک قانون کے تحت میڈیا کی ہر کیٹیگری کو ہینڈل کرنا زمینی حقائق کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ سی پی این ای کے رہنماؤں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں اگرچہ پرنٹ میڈیا کی آزادی کچھ زیادہ مثالی نہیں ہے تاہم موجودہ محدود آزادیاں بھی پاکستان کے عوام اور خصوصاً جمہوریت پسند سیاسی کارکنوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی قربانیوں اور طویل جدوجہد کے مرہون منت ہیں اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کے آئین میں اظہار، آگہی اور اطلاعات تک رسائی کے حقوق کو پاکستان کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے آئین میں ان کی بجا آوری کی ضمانت دی گئی ہے جس کے تحت ان بنیادی حقوق کی تکمیل اور بجاآوری تمام ریاستی اور حکومتی اداروں اور ان کے اہلکاروں کا بنیادی فریضہ ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا یہ اقدام اس لیے بھی غیردانشمندانہ ہے کیونکہ جب یہ سمجھا جاتا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کی اپنی الگ الگ خصوصیات ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں جہاں24گھنٹے چلنے والے الیکٹرانک میڈیا کے لیے تو شاید کسی قسم کے ضابطہ اخلاق یا ضوابط کی ضرورت محسوس ہوتی ہو لیکن مسلمہ جمہوری معاشرے اخبارات کو اظہار رائے کی آزادی کے اصول کے تحت اپنے Contants کی جانچ پڑتال خود کرنے کے لیے اپنے ضابطہ اخلاق متعین کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے حکومت کا سارے میڈیا کو ایک ہی پلیٹ فارم سے کنٹرول کرنے کا فیصلہ ایک آمرانہ مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے جو جمہوری طور پر منتخب کردہ حکومتی سیٹ اپ کے شایان شان نہیں ہو سکتا۔جمہوریت میں میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ سی پی این ای‘ پریس کونسل آف پاکستان‘ اے پی این ایس اور پی ایف یو جے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی پہلے ہی مخالفت کر چکی ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ صحافیوں کی تمام تنظیموں کو اعتماد میں لے کر یہ فیصلہ کیا گیا ہے‘ درست نہیں ہے۔گزشتہ دنوں سی پی این ای کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والے میڈیا کنونشن میں تمام میڈیا پریکٹیشنرز نے شرکت کی تھی جس میں یہ اتفاق پایا گیا تھا کہ پرنٹ میڈیا کے لیے کسی خاص قانون اور ضابطے کی ضرورت نہیں کیونکہ پرنٹ میڈیا میں سیلف سنسر شپ پہلے ہی خاصا مضبوط ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے حوالے سے کوئی ادارہ بنانے یا کوئی قوانین و ضوابط بنانے سے پہلے میڈیا انڈسٹری کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی مشاورت کرے اور کسی بھی یکطرفہ اقدام سے پرہیز کرے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔