تحریر: حسن تیمور جکھڑ۔۔
مہنگاروئے ایک بار۔۔سستاروئے باربار ۔۔۔ یہ جملہ اپ نے بارہا سنا ہوگا اور ہوسکتا ہے کبھی اپ کو اس حوالے سے عملی تجربے کا بھی سامنا رہا ہو ۔۔۔ کئی بار یہ چیز عملا ہزیمت کاباعث بھی بن جاتی ہے ۔۔۔ بات ذاتی حد تک رہے تو قابل قبول ،مگر اگراجتماعی سطح پہ اس صورتحال کا سامنا سخت کوفت کاباعث بن سکتا ہے ۔۔میرا تعلق چونکہ شعبہ صحافت سے ہے لہذا اسی شعبہ سے وابستہ سستےپن اور اس کے نقصان کی چند مثالیں پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ۔۔مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بلکہ اصلاح احوال اور جانکاری ہے ۔
ایک معروف میڈیاگروپ جس نے ماضی قریب میں بہت تیزی سےترقی حاصل کی ہے ،اس کی وجہ شہرت میں سے ایک انٹرنیز کی بھرتی اور ان سے کام چلانا بھی ہے ۔۔۔اس میڈیا گروپ کے کچھ مزیدار واقعات شیئرکرناچاہونگا ۔ایک مرتبہ ایک نوآموز رپورٹر کسی تعلیمی ادارے میں نئے آنے والے طلبہ کے اعزاز میں ہونے والی ویلکم پارٹی کی کوریج کرکے آیا اور اسے حوالے سے ٹکرز، نیوز اور پیکج فائل کردیا ۔ اپنے “تجربے” کی بنا پہ رپورٹر صاحب کو خوش آمدید اور خدا حافظ میں کچھ خاص فرق معلوم نہ پڑا اور نئے آنے والے طلبہ کےلیے “فیئرویل پارٹی “کے عنوان سے پیکج فائل کردیا ۔۔۔ قصہ یہیں تک نہ تھما بلکہ کاپی سے لیکرپراڈکشن تک کےتمام “نوآموزوں “نے اس میں بھرپورحصہ ڈالا اور یہ پیکج پورے “طمطراق “سے آن آئیرہوگیا۔۔ آن ایئرہوچکنے کے بعد کسی کی نظر پڑی جہاں موصوف پی ٹی سی میں خوش آمدید کےبینرکےسامنے کھڑے فیئرویل پارٹی کا ذکرکررہے تھے ۔۔موصوف بمشکل ہارٹ اٹیک سے بچ پائے وگرنہ یہ “سستاپن” ایک قیمتی جان لے ہی چلاتھا۔۔ایک دوسرے واقعہ میں پراڈکشن روم سے منسلک ایک دوست نے کسی جلسے پہ موجود اپنے “پیٹی بھائی” سے ڈرون فوٹیج فراہم کرنے کی فرمائش کی ۔۔اس پہ رپورٹرموصوف نے پھرتی کامظاہرہ کرتے ہوئے کیمرہ مین سے رابطہ کیا اور فوری طورپر فضامیں محوپرواز ڈرون کو نیچے اتروالیا ۔۔ اب پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوے اس “ڈرون ” کی ہر اینگل سے مکمل فوٹیج بناکر ہیڈ آفس روانہ کردی گئی ۔(یقینا جلسے کی کوریج بھی اسی “مستعدی ” سے کی جارہی ہوگی)۔۔ ہمارے دوست بتاتے ہیں کہ اس قدر”تابعداری” پہ تو وہ بھی کچھ منٹ سکتے کی سی کیفیت کا شکار رہے۔۔بہرحال بعدمیں دونوں ہی ایک دوسروں کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے ۔۔
محرم الحرام کی کوریج کو عموما خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ہرچینل کی کوشش ہوتی ہے کہ اس حوالے سے سینئرز کو ہی استعمال میں لایاجائے کہ کسی قسم کی بدمزگی یا بےحرمتی سے بچاجاسکے۔۔اسی ادارے سے وابستہ ایک نو آموز دوست کی کم علمی ایک بڑے جھگڑے کی بنیاد بنتے بنتے رہ گئی ۔ محرم الحرام کے ایک ماتمی جلوس کی کوریج کےلیے ایک سینئر دوست کو ذمہ داری سونپی گئی جو اپنی کیمرہ ٹیم کےساتھ موقع پہ پہنچ گئے اور کوریج شروع کردی ۔۔ نوآموز دوست کی جانب سے اس رپورٹرکو کال کرکے فوٹیج فراہم کرنے کا حکم جاری کیاگیا ۔رپورٹر نےاستفسار کیا کہ کونسی فوٹیج چاہیے تو موصوف نے پورے اعتماد سے کہا کہ “جس میں سب چیسٹ پہ ہلکی ہلکی کلایپنگ کررہے ہیں “۔سنا ہے کہ اس کےبعد کافی دیرتک دونوں سائیڈ سے کوئی آواز نہیں آئی ۔ خیر جانی نقصان یہاں بھی کوئی نہیں ہوا۔۔ان صاحب کی کوششیں یہیں تک نہ تھمی،بلکہ ایک موقع پہ جناب ماتمی جلوس کےدوران “گھوڑے کے ڈانس “والی فوٹیج بھی مانگتے پائے گئے ۔۔بےشک اللہ بڑا غفوررحیم ہے ۔۔ سنا ہے آجکل موصوف بطور ریسرچرایک معروف پروگرام کےساتھ منسلک ہیں ۔۔ اس پروگرام کی وجہ شہرت اس کےاندر ہونے والی لڑائیاں ہیں ۔۔
اب رخ کرتے ہیں اسی دنیا میں موجود ایک دوسرے ادارے کا ۔۔ ویسے تو اس ادارے میں کچھ اعلی عہدیداروں کے علاوہ “سستےپن” کا رواج مروج نہیں ۔۔۔لیکن الیکشن سیل کے نام پہ ہر دو چار سال میں میلہ ضرور لگایاجاتا ہے ۔سو اسی میلے کےدوران ہونے والے دلچسپ واقعہ کا احوال درج کیے دیتے ہیں ۔ ایک نوآموزصحافی کو حکم دیاگیاکہ امیدواروں کے تمام ترکوائف کو اردو میں درج کرکے پیش کیاجائے ۔ سختی سے ہدایت کی گئی کہ انگلش کاکوئی لفظ نہ آنے پائے ۔سو کچھ ہی دیر بعد وہ جب اپنے حلقے کی رپورٹ لیکر جناب افسر کےپاس پیش ہوئے تو وہ بےچارہ اپنا سرپکڑ کرہی بیٹھ گیا ۔۔ پہلے ہی صفحے پہ امیدوار کے نام پتہ کےبعد انتخابی نشان کےخانے میں “طاقت کا محافظ” درج تھا۔۔ انرجی سیور کا یہ ترجمہ تو شائد خود اسے بنانے والے کوبھی نہ پتہ ہو۔۔ خیر سناہے افسراورملازم دونوں بخیریت وعافیت ہیں۔۔۔
یہ صرف چند دلچسپ واقعات ہیں جن کا اثر بھی محض داخلی طور پہ ہوا ہے ،،تاہم روزمرہ میں ایسی کئی غلطیاں سرزد ہونا معمول بن چکی ہیں جس سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہو ۔۔ معیار میں کمی اور “بھنڈ” ہونا جس طرح تیزی سے معمول اور قابل قبول ہوتےجارہے ہیں اس سے لگتا ہے جلد ہی عوام کی صحافیوں کے بارے پڑھے لکھے یا باشعور ہونے کی رائے تبدیل ہوجائیگی ۔۔۔اور میں اس دن سے ڈرتا ہوں۔۔(حسن تیمورجکھڑ)۔۔