تحریر: خرم شہزاد۔۔
ایک پرانی کہانی ہے آپ نے سنی ہو گی ، آج دوبارہ لطف اٹھائے کہ ایک نوجوان کی شادی تھی، سسرال والوں نے کہا کہ بارات میں ایک سو جوان ہوں گے اور کوئی بزرگ ساتھ نہیں آئے گا۔ شرط ذرا عجیب تھی بزرگوں نے کسی کو ساتھ لے جانے کو کہا لیکن علاقے کے نوجوان جوش میں آ گئے کہ ہم جوان ہیں، طاقت ور ہیں اور جوشیلے بھی،ہم ہر طرح کے حالات کا سامنا کرسکتے ہیں جو ہو گا دیکھا جائے گا کسی بزرگ کی ضرورت نہیں ۔ بہت بحث و تکرار کے بعد آخر نوجوان ایک بزرگ کو کچھ فاصلے رکھ کر ساتھ لے جانے کے لیے راضی ہو گئے۔ بارات پہنچی تو لڑکی والوں نے گنتی کی، سو جوان پورے تھے اور کوئی بزرگ ساتھ نہیں تھا۔ انہوں نے اگلی شرط یہ رکھی کہ اب سو جوان سو بکرے کھائیں گے یعنی ہر جوان ایک بکرا کھائے گا تبھی نکاح کی تقریب کا آغاز ہو گا ورنہ نہیں۔۔۔ سارے طاقتور اور جوشیلے جوانوں کی آنکھوں کے آگے تارے آ گئے کہ ایک بکرا کیسے کھایا جا سکے گا اور اگر لڑکی ساتھ نہ لے کر گئے تو پورے علاقے میں کبھی منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ تب انہیں یاد آیا کہ ایک بزرگ کچھ فاصلے پر آ رہے تھے ، کوئی جائے اور ان سے مشورہ کرئے۔ ایک نوجوان چھپتا چھپاتا بزرگ کے پاس پہنچا اور مسئلہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگ جواب میں یہ کہوکہ بکرا ایک ایک کر کے لایا جائے اور جب ایک بکرا آئے تو سارے ٹوٹ پڑو۔ نوجوان نے واپس آکر یہی بات سب کو بتائی اور لڑکی والوں کو جوابی شرط پیش کی کر دی گئی۔ خیر ایک ایک بکرا آتا گیا اور سارے نوجوان ٹوٹ پڑتے ، کسی کے ہاتھ کچھ آیا کچھ نہیں اور یوں سو بکرے کھائے گئے اور نکاح کی تقریب کا آغا ہوا۔ لڑکی لے کر جب نوجوان واپس پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے علاقے کے بزرگوں سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ آئیندہ ان کی بات کو مقدم رکھا جائے گا اور اپنی جوانیوں کے جوش کا مظاہرہ نہیں کیا جا ئے گا۔
آ پ سوچتے ہوں گے کہ اس کہانی کا میڈیا اور میڈیا کے سیٹھ صاحبان سے کیا تعلق۔۔۔ ؟؟ چلیں تو پھر آپ کو ایک اور کہانی سناتے ہیں۔ کہانی کیا اپنی آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ ہمارے ایک جاننے والے بڑے میل ملاپ سے ایک بڑے سرکاری عہدے کو پکڑنے میں کامیاب ہوئے۔ قسمت کہ ابھی انہیں کرسی پر جھولتے اور جھومتے تین چار مہینے گزرے تھے کہ محکمہ آڈٹ والے پہنچ گئے اور ایک تگڑا آڈٹ شروع ہوا۔ سال کے ہر مہینے کے حساب سے ایک بے قاعددگی اور بے ضابطگی پکڑتے ہوئے انہوں نے درجن بھر پوائنٹس کی لسٹ بنا دی اور ساتھ چونگے میں تین چار اضافی آڈٹ پوائنٹ بھی لکھ مارے۔ ہر پوائنٹ کے سامنے پانچ سے چھے ہندسی رقم بتا رہی تھی کہ یہاں تو لٹ مچی ہوئی ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ طریقہ کار کے مطابق آڈٹ والوں سے آڈٹ کے بعد ایک ملاقات ہوتی ہے جس میں ہر پوائنٹ پر اپنا موقف اور موجود کاغذات دکھائے جاتے ہیں اور پوائنٹ کٹوانے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ کم سے کم آڈٹ ابجیکشن ہوں۔ اب یہ صاحب کمرے میں چکر لگا رہے تھے اور جو کچھ بول رہے تھے جس کا لب لباب یہ تھا کہ اگر یہ رپورٹ وزارت تک گئی تو کرسی جا سکتی ہے ، میرا کچھ نہیں بچنا، ان لوگوں کی اتنی خدمت کی سب فضول گئی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ وہیں ہمارے ایک بزرگ بھی موجود تھے انہوں نے رپورٹ اٹھائی ، پڑھی اور کہا کہ ملاقات کے لیے آڈٹ والوں کو یہیں بلا لو، بات کر لیتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے انہوں نے آفیسروں کو بلایا تو ہمارے بزرگ نے رپورٹ پکڑتے ہوئے آڈٹ والوں سے پوچھا ، مجھے سچ سچ بتائیں کہ آپ ایسی رعایت ہر ادارے کے آڈٹ میں کرتے ہیں نہیں تو یہاں مہربانی کی کوئی خاص وجہ۔۔۔؟؟ ایک آڈٹ والا مسکرایا اور بولا کہ آپ مجھے سمجھدار لگتے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ یہ صاحب کتنی محنت سے اس کرسی تک پہنچے ہیں اور انہوں نے خدمت بھی خوب کی تھی، بس اسی وجہ سے ہمیں بھی تھوڑی بہت شرم کرنی پڑی۔ بزرگ نے شکریہ ادا کیا اور کہاچلیں اس ملاقات میں آپ صرف دو سے تین آبجیکشن ختم کر دیں اس سے زیادہ کی چاہ نہیں۔ پانچ منٹ سے کم وقت میں ملاقات ختم ہوئی اور انہیں ٹی بریک کے لیے سٹاف کے حوالے کر دیا کہ اچھی سی ٹی بریک کروائیں اور پھر گاڑی پر چھوڑ کر بھی آئیں۔ اب یہ سب وہ بزرگ کہہ رہے تھے اور صاحب جی کر رہے تھے لیکن ان کی حیرت اور بے یقینی بالکل عیاں تھی۔ آڈٹ ٹیم کے نکلتے ہی پھٹ پڑے کہ بزرگو۔۔۔ یہاں میرا موتر خشک ہوا پڑا ہے اور آپ انہیں کہہ رہے تھے کہ بہت اچھی رپورٹ ہے، شکریہ بھی ادا کر رہے تھے اور کٹوائے بھی تو صرف دو تین پوائنٹ۔ بزرگ مسکرائے اور پوچھا کہ کیا تم چاہتے تھے کہ صرف دو تین پوائنٹس رہیں؟ صاحب جی نے سر ہلایا تو برزگ پیار سے بولے ہاں تاکہ وزارت والے سمجھ جاتے کہ آڈٹ میں گھپلا ہوا ہے کہ اتنے تھوڑے پوائنٹس ۔۔۔اور وہ کوئی بڑئی ٹیم سخت ہدایات کے ساتھ بھیج دیتے۔۔۔ نالائق انہوں نے نہ صرف اپنی خانہ پری مکمل کی بلکہ تمہیں بھی صاف بچا رکھا، دو تین کے علاوہ کوئی پوائنٹ تم پر اثر انداز نہیں ہوتا، اب دو تین پوائنٹس یہاں ختم ہو گئے، تین چار اگلے تین چار ماہ میں ان کے دفتر کے چکر لگانے سے ختم ہو جائیں گے اور کچھ وزارت میں چلے جائیں گے کہ ان سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ یوں سب کی ایک اچھی رپورٹ بن جائے گی اور قصہ ختم۔ صاحب جی کو بات کچھ کچھ سمجھ آئی اور کچھ دنوں بعد وہی صاحب آڈٹ والوں کے ساتھ پارٹیاں کرتے نظر آئے۔
چلیں اب آپ پوچھیں کہ ان کہانیوں کا میڈیا اور سیٹھ صاحبان سے کیا تعلق ۔۔۔ تو جناب مجھے یہ کہانیاں حکومت کی طرف سے میڈیا کورٹس کے قیام کے سلسلے میں جاری کئے گئے بیانات کے بعد میڈیا سیٹھ صاحبان کے رد عمل پر یاد آئی۔آج میڈیا منڈی میں آپ کو پرانے اور ہر گھاٹ کا پانی پیے ہوئے لوگ کم کم ہی نہیں بلکہ خال خال ملیں گے بالکل جیسے کسی حسینہ کے خوبصورت چہرے پر خال ملنا مشکل ہوتا ہے ویسے ہی آج میڈیا میں بزرگ ملنا مشکل ہوتا ہے اور کوئی اس بزرگ کی سنتا ہے یہ اور بھی مشکل بات ہے۔ آج کی نوجوان نسل نے بزرگوں کو کھڈے لائن لگائے ہوا ہے کہ جی ہم زمانے کے تقاضوں کو بہتر جانتے ہیں اس لیے آپ لوگ خاموش ہی رہیں۔ اگر سیٹھوں نے چند رپوں کی بچت کی خاطر بزرگوں کو دفاتر سے نہ نکالا ہوتا اور ایک بزرگ کی جگہ دو انٹرنیوں سے پر کرتے ہوئے دو کے پیسے جیب میں نہ ڈالے ہوتے، ان بزرگوں کی بات سنی بھی جاتی تو وہ انہیں ضرور کہتے۔۔۔ جلدی سے حکومت کو کہو کہ میڈیا کورٹس لازمی ہونی چاہیے، انہیں جلد از جلد بناو تاکہ میڈیا سے گند صاف کیا جائے۔ یوں تم سارے میڈیا میں مہان بن جاو گے کہ سب یہی سمجھیں گے کہ نجانے تم اندر سے کتنے صاف ہو کہ خود دعوت دے رہے ہو۔۔۔ یوں اس نیک نامی کو دوہرے طریقے سے کیش کروایا جائے گا۔ اگر تمہارا کوئی کیس بنا بھی تو حکومت کا نزلہ تم پر کم ہی گرنے کا امکان ہو گا کہ تم نے ان کے موقف کی تائید کی تھی۔ اس معاملے پرحکومت کی طرف سے رائے عامہ ہموار کرنے اور دوسروں کو قائل کرنے کی ذمہ داری بھی تمہیں مل سکتی ہے ۔ان سب اچھی باتوں کے درپردہ تم جتنی مرضی ٹیکس چوری چاہو کر سکو گے، حکومتی ارکان کے خلاف ثبوت جمع کرتے ہوئے اگلی حکومت کے دور میں ان لوگوں کے پر خچے اڑاتے ہوئے دوسری حکومت کے منظور نظر بن پاو گے۔کیا ہو جائے گا اگر سال بعد ایک آدھ اینکر قربان بھی کرنا پڑا تو بھی اسے کیش کروایا جا سکے گا۔ ابھی تو پنڈ بنا نہیں اور تم لوگ پہلے ہی فکر مند ہو کر اپنی داڑھیوں میں تنکوں کے بجائے شہتیروں کی خبر دے رہے ہو۔۔۔ نالائقو جانے کب تمہیں زمانے کی سمجھ آ ئے گی کہ چینل تو کھول لیے لیکن کام کرنا آتا نہیں۔۔۔ نہ ڈھیل دینی آتی ہے اور ڈیل کرنی آتی ہے ۔۔۔
مگر افسوس کہ سیٹھوں نے ایسے تمام بزرگوں کو دیس نکالا دے دیا ہے ، ورنہ میڈیا کورٹس کے پردے میں جتنی لٹ ان میڈیا والوں نے مچانی ہے اور حکومت پر الٹا کتنا دباو بنانا ہے یہ سب بس ہم سوچ سکتے ہیں، آپ اور سیٹھ صاحبان نہیں سوچ سکتے کیونکہ آپ کو اپنے بزرگوں کے فائدوں کا پتہ ہی نہیں ، آپ لوگ تو آج اپنی جوانیوں کے جوش میں ہیں مگر دنیا دیکھی آنکھیں جہاں تک دیکھتی ہیں وہاں تک ہماری سوچ بھی نہیں پہنچتی۔(خرم شہزاد)۔۔
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)