تحریر: سید عارف مصطفی
برسات میری دیرینہ کمزوری ہے ۔۔۔ لیکن یہ بھائی تابش کی ان متعدد کمزوریوں کی مانند نہیں کہ جو اکثرموقع بموقع ایک دوسرے کی جگہ لیتی رہتی ہیں یا جنہیں شرفاء کے سامنے کھلے بندوں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ بلکہ یہ اک اور طرح کا مستقل نوعیت کا آبی روگ ہے،
اک ایسا روگ جس سے میرا انگ انگ اور پور پور سرشار ہوجاتا ہے اور جس سے جان چھڑانے کا میرا کوئی ارادہ ہی نہیں،۔۔
جبکہ یہ ایک اپنے خواجہ صاحب ہیں، کے جنہیں میں کور ذوقوں کا کور کمانڈر کہا کرتا ہوں ۔۔۔ ادھر جہاں دو چار بوندیں کیا گریں اور ادھر موصوف ناک اور شلوار کے پائنچےایک ساتھ چڑھائے نظر آتے ہیں – برسات کی شدت جتنی ہو اسی اعتبار سے خواجہ اپنی چڑھی ناک اور پائینچے اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں – ادھر میرا یہ حال ہے کہ بقول بیگم کے، ” جہاں آسمان پہ بادل کے چند ٹکڑے ایکدوسرے کے قریب آتے نظر آئے اور ادھر مجھے گھر کاٹنے کو دوڑا “ اور انکی یہ بات خاصی حد تک درست بھی ہے کیونکہ باقاعدہ بارش نہ بھی ہو تب بھی میں خاصے ِبللّے پن سے کافی بھاگ دوڑ کرکے خود کو ہر ممکن جگہ سے بھگو کر ہی دم لیتا ہوں اور از خود اقبالی ہوں کے ہلکی پھلکی پھوار جب کبھی باقاعدہ برسات تک جاپہنچے تو یہ بوندیں میرے دماغ پہ گویا اک عجب سرمدی سا جلترنگ بجاتی ہیں اور پھر میری بانچھوں کو ممکنہ حد سے بھی زیادہ پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، حتیٰ کہ خود میں بھی نہیں-اس موقع پہ میں نہایت خشوع و خضوع سے عموماً کوئی پرانا ادھورا کام لے کر صحن میں براجمان ہوجاتا ہوں لیکن اس دن بھی میری اہلیہ کی جھڑپتی مداخلت کے باعث کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ وہ کام مکمل نہیں ہوپاتا۔۔
برسات کیلیئے میری یہ وارفتگی صرف خانگی سطح تک محدود نہیں، کیونکہ جب میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا مینیجر ہوا کرتا تھا تب بھی یہ سرمئی سرمئی بادل ہیرے من کو یونہی گدگداتے تھے اور بوندیں برسنا شروع ہوتے ہی میرے دفتری خیالات بھی ساتھ ساتھ ہی بہنا شروع ہوجاتے تھے اور میرا مزاج شناس چپراسی لپک جھپک ایک کرسی میرے آفس کی گیلری میں سجا دیتا تھا تاکہ میں اس رم جھم کو قریب نہیں بلکہ عنقریب سے ملاحظہ کرسکوں۔۔۔ اور یہ ملاحظہ بھی کیا ہوتا تھا ہر ہر انگ اور ہر ہر پور میں مانو ایک ایک آنکھ سی ابھر آتی تھی – ایسے مواقع پہ مجھ میں جذبہء فرض شناسی بھی خوب خوب لہریں مارتا محسوس کیا جاسکتا تھا ۔۔ ادھر ادھر کھلے آسمان تلے پڑے پیداواری اسٹاک اور دیگر سامان کی پڑتال کیلیئے سوٹ بوٹ ڈاٹے ہونے کے باوجود مجھے میدان عمل میں مسلسل سرگرم دیکھا جاتا تھا اور ایسے میں آسمان میں بھی کیا بجلیاں بھری ہونگی جو میری آنیوں جانیوں میں لپکےمارتی تھیں،،، اس موقع پر بارش تو چاہے تھوڑی دیر میں تھم بھی جائے لیکن دور دور سے ملاحظہ کرنے والوں کے کلمات تحسین تا دیر نہ تھمتے تھے یوں وہ مجھ سے اور ہم نزلے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے
جو لوگ مجھ سے وقف ہیں وہ یہ حقیقت بھی بخوبی جنتے ہیں کہذاتی طور پہ میرے لیئے برسات درحقیقت بڑے کام کی چیز ہے اور میرے اندرون سے یکایک ایک بے حد ذمہ دار آدمی کو ابھارتی ہے اسکے باوجود کہ مردم ناشناسی کی وباء کے زیراثر یا چند بدقسمت واقعات کے سبب کچھ لوگ مجھے مطلق ذمہ دار نہیں سمجھتے (حالانکہ بیگم سے پوچھیں تو وہ نجانے کن کن باتوں اور واقعات کا ذمہ دار صرف مجھے ہی ٹہراتی ہیں۔۔۔) لیکن میں انہیں غلط ثابت کرسکتا ہوں کم ازکم برسات کے پہلے دن تو یقینی طور پہ ۔۔۔ کوئی قدر شناس ہو تو باآسانی یہ جان سکتا ہے کہ اس دن میرا جذبہء ذمہ داری اپے انتہائی عروج پہ ہوتا ہے اور قابل فخر حد تک عیاں ہوکر رہتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ برسات شدت اختیار کرتے مجھے اچانک ہی ایسا کوئی باہری کام یاد آجانا کبھی نہیں بھولتا کہ جسے عین اسی نازک وقت سرانجام دینا ازحد ضروری بلکہ اشد ضروری ہوتا ہے۔۔۔ تاہم ڈھیروں دل شکنی کی بات یہ ہے کہ میرےاس نہایت ذمہ دارانہ عمل کو کبھی بھی نا صرف سراہا نہیں جاتا بلکہ اسے بہت عجیب عجیب نام دیئے جاتے ہیں ، اور اگر ان ناموں میں میں سے کوئی نام کسی معزز آدمی کو بتانےلائق ہوتا تو میں ضرور آپ کو بھی بتادیتا۔۔۔ ویسے بھی یہ موقع میری سننے کا ہے اور جبتک آپ تحمل سے آپ میری باتیں سن رہے ہیں میں آپکو معزز ہی مانوں گا ، اور آپ اس حوالے سے کب تک معزز رہ سکتے ہیں اسکا فیصلہ مطلق آپکے اپنے اختیار میں ہے میری طرف سے کوئی زور زبردستی ہرگز نہیں
ہاں تو بات ہورہی تھی برسات کی ۔۔۔۔ میں ہمیشہ سے ہی برسات کا دلدادہ ہوں ، بچپن میں دوستوں کے ساتھ بارش میں خوب خوب نہاتا تھا ۔۔۔ اتنا کہ پیروں کے تلوے پھول کر کارٹن کے گتے کی مانند لہریئے دار ہوجایا کرتے تھے اور کافی دیر تک چہرہ ببھی غیر کسی جھگڑے اور ‘مدارات’ کے، سوجا سوجا سا دکھنے لگتا تھا اور ہونٹ تو چوٹ لگے بغیر بھی پھول کر رشک مکران ہوجاتے تھے ،،،کیونکہ ہم بارش میں کھیلتے بھی تو بہت تھے،،، بلکہ روایتی کھیل کم پڑجاتے تو ہاتھ کے ہاتھ کئی نئے کھیل بھی ایجاد کرلیتے تھے ۔۔۔ ان میں پھسل کر بار بار گرنا عام بات تھی – بعد میں لڑکپن جاتے جاتے معاملہ جب نظر نیت اور قدم تینوں کے پھسلنے کا ہونے لگا تو چوٹ اگر جسم پہ نا بھی لگے تب بھی دل پہ زیادہ محسوس ہوتی تھی۔۔۔ ہم بچپن میں بارش تھمتے ہی ساتھیوں کے سنگ زمین میں بیربہوٹیاں کھوجا کرتے تھے، بڑے ہوتے ہوتے بیربہوٹیاں شاید آس پاس کے فلیٹوں و بنگلوں کی بالکنیوں میں منتقل ہوگئیں اور یاروں نے اپنی تلاش کو منتخب مقامات کے چھجوں تک ہی محدود کرلیا تو پھر ہم بھی اکیلیے کبتک یہ مہم جاری رکھ سکتے تھے ۔۔۔ ویسے بھی ہم جیسے معصومیت پہ مجبور لوگ قبل از جوانی ہی بزرگی کی سان پہ چڑھادیئے جاتے ہیں اور ذرا بھی خوش شکل خواتین کو بہو بیٹیاں سمجھنے پہ مجبور کردیئے جاتے ہیں اور یوں بیربہوٹیوں کی تلاش جلد ترک کرنی ہی پڑتی ہے
لیکن جو اپنے میاں اچھن ہیں انکے معاملے میں سارا مسئلہ ہی لچھن کا ہے ۔۔۔ ایک مدت سے یہ معمول ہے کہ اک ذرا بارش کے آثار نمودار ہوتے ہی نہایت بوسیدہ و پھونسڑے دار کپڑے پہنے نمودار ہوجاتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ جیسے سیلاب متاثرین کے کیمپ سے ہاتھ لگے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ انکی یہ پوشاک بہت تاریخی ہے کیونکہ اسنے ان سے پہلے 5-6 نسلوں کی خدمت کی ہے اور ایسی جامہ زیبی خاص بارش کےدنوں کا ہی خاصا ہے ۔۔۔ ویسے یہ اچھن خواہ کتنےعرصے سے لاپتا ہوں لیکن ادھر بادل چھائے اور ادھر اچھن یکایک گھر کر آئے، ہرباری آبی تخریب کے شرطیہ نئے پلان کے ساتھ آتے ہیں اور جل تھل برسات میں ہر طرف چھپڑ چھپڑ کرتےپھرتے رہتے ہیں اور یہاں وہاں ہر سمت انکی آوت جاوت لگی رہتی ہے یوں سمجھیئے کہ بارش پہ انکی ترنت حاضری کا مراملہ ویسا ہی ہے جو کہ ہری مکھی کا آم سے ہوتا ہے- ایک خاص بات یہ بھی ہے کے وہ ویسے تو کبھی کوئی کام اپنے سر نہیں لیتے لیکن بارش کی ابتدائی بوندیں زمین پہ گرنے سے پہلے پہلے اپنے سرپہ لے لیا کرتے ہیں ۔۔۔ بالوں سے محروم ، انکے چوڑے سے گنجےسر پہ بارش سے اچھلتی چھینٹوں کا نظارہ ایئرپورٹ کے رن وے پہ برستی بارش جیسا ہی ہوتا ہے لیکن اس موقع پہ اچھن میاں کو حاسدوں کی پھبتیوں کی ایسی کوئی خاص پرواہ نہیں ہوتی ۔۔۔ تاہم انکی اوٹ میں ایک دو سنگی ہمیشہ انکے ہم رکاب ضرور ہوتے ہیں جن میں سے ایک ہم بھی شمارکئیے جاتے ہیں
صاحبو ، بچپن بھی گیا اور پھر جوانی بھی لیکن برسات سے ہماری رغبت ذرا کم نا ہوئی ۔۔ اب اس عالم میں بھی یعنی جوانی کے جاتے جاتے اتنا ضرور ہوا ہے کہ دھواں دار برسات ہو تو ہم لپک جھپک تھوڑی ہی دیر میں ٹھاٹھ دار نہا لیتے ہیں اور نیچی نظریں کئیے کیئے گھوم پھر کر گھر چلے آتے ہیں نظریں نیچی رکھنے کی بابت بھی ہمارے حاسدین کو ذرا چین نہیں ۔۔۔۔ وہ اسے ہماری شرافت سے زیادہ ہماری احتیاط پسندی پہ محمول کرتے ہیں،،، دو برس قبل ہم ایک گٹر میں کیا گرے یار لوگوں نےاسے ہمیشہ کا فضیحتہ ہی بنادیا ، ابتک کوئی نہ کوئی اسکا پرسہ دے ڈالتا ہے ۔۔۔ لیکن اچھن میاں کے لچھن بدستور وہی ہیں ، جلے پیر کے بلے کی طرح ہرحال میں رم جھم میں ہمیں یا کسی عاشِق برسات کو ساتھ ٹانگے ٹانگے خوب خوب گھومتے ہیں – جہانتک سردی کی بارش کا معاملہ ہے تو اس میں نکلنےکا معاملہ جہاد جیسا ہے ۔۔ اور اب ہمارے اور اچھن کے عزائم ایسے جہادی بھی نہیں رہے،، عام طور پہ سرما کی بارش میں انکی باہر نہ نکلنےکی وجہ تقوے کی افراط سے زیادہ لقوے سے بچنے کی احتیاط ہوتی ہے- سرما کی بارش کے جہاد میں تو اب ہم بھی اپنی کھڑکی ہی میں بیٹھےبیٹھے لطف و سواد کی تلوار لہراتے رہتے ہیں ، جس کی داد کئی دن تک اپنی ہی پسلیوں سے ملتی رہتی ہے۔۔۔ تاہم موسم زیادہ سرمئی معلوم ہو تو خود کو ذرا سا بقدر عرق ندامت بھگو بھی لیتے ہیں۔۔۔ مگر لڑکپن میں تو ہم ایسے سمے ادھر ادھر ٹاپیں مارتےدکھتے تھے اور جبتک نیلے نہ پڑجائیں اور یہ نیل کرتے کے نیل سے بڑھ نہ جائے اگلے مورچوں کے دورے ہی پہ نظر آتے رہتے تھے۔۔
یہاں برسات کے حوالے سے ان بدتوفیقوں کا ذکر کرنا بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ جنہیں نہانے کے لیئے کبھی غسلخانے سے باہر نکلنا ہی نصیب نہیں ہوتا۔۔۔ انکی تمام مصفیٰ حیاتی کا مدار ایک مگے اور بالٹی پہ ہوتا ہے، کبھی بے احتیاطی پہ مائل ہوں تو زیادہ سے زیادہ شاور کھول کر دائرہء بوچھار میں سر ڈال لینے کی شرابور عیاشی بھی کرلیتے ہیں۔۔۔ ایسے لوگوں کی ایک قسم فلموں میں کچھا پہنے نہاتےنظرآتی ہے۔۔۔ لیکن انہیں نہاتے دکھانا سراسر برائے عبرت ہوا کرتا ہے ۔۔۔ ایسی متعدد فلموں کے فلاپ ہوجانے کے بعد ایسے روح فرسا غسل اب یاد ماضی ہوتے جارہے ہیں اور اب اسکی جگہ آسان غسل کے مناظر شامل کیئے جاتے ہیں ۔۔۔ صحت و صفائی کی اہمیت اجاگر ہوجانے کے بعد سے فلموں میں یہ مناظر وقفے وقفے سےاتنی بار دکھائے جاتے ہیں کہ فلم کی ہیروئن اور فلم کی کہانی پوری طرح دھل جاتی ہے- ایسے بد زوق لوگ بھی ہیں جیسے کہ خواجہ صاحب ، جو کہ اگر باہر کہیں رستے میں ہوں اور اچانک بارش برس پڑے تو اس سے بچنے کے لیئے دوڑ پڑتے ہیں اور کسی قعیبی عمارت کے قریبی چھجے کے نیچے دبک کر دیوار سے بالکل لگ کر دم سادھے بے آواز و بدحواس یوں کھڑے رہتے ہیں کہ گویا صور اسرافیل سن لیا ہو یا کسی نے انتڑی اوجھڑی نکال کر حنوط کرکے یہاں برائے نمائش چسپاں کردیا ہو۔۔۔ تاہم قدرت اور فطرت کے کچھ اپنے اصول ہیں پوری طرح بارش رک جانے کا یقین ہوجانے کے بعد وہ جونہی قدم باہر نکالتے ہیں ، فٹا فٹ رپٹ جاتے ہیں اور عین کسی طوفانی اولتی کے عین نیچے جاپڑتے ہیں۔۔۔ پھر کمر یا کولہے میں چوٹ لگ جانے سے چت پڑے پڑے انہیں اٹھنے میں اتنی دیر تو لگ ہی جاتی ہے کہ وہ ان افراد سے بھی زیادہ بھیگے بھالو بنے گھر پہنچتے ہیں کہ جو باقاعدہ اپنی خوشی سے برسات کا مزہ لینے کیلیئے دھڑلے سے کھلم کھلا شرابورہوئے تھے
وافر حد تک بدذوق ہمارے خواجہ صاحب کا شمار بھی اس قبیل میں ہوتا ہے کہ جنہیں قدرت برسات میں بھی پینے کو مفرح شربت کے بجائےکڑوا کسیلا سا جوشاندہ اور کھانے کو لذیذ پکوانوں کی جگہ کثیف ہڑ کا مربہ عطا کرتی ہے اور جنہیں بغیر بھیگے بھی قدرت ایک گھنٹے میں بیٹھے بیٹھے کم از کم سو چھینکیں مارنے کا ہنر عطا کرکے، کمرے ہی میں برسات سے زائد نمی فراہم کرتی ہے- ایسے نزلاتی لوگوں کے چپچپاتے خیالات کی وجہ سے اسیران برسات ان سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں یوں یہ حضرات اس موسم میں سوائے کڑھنے سٹپٹانےاور بڑبڑانے کے، اور کوئی کام کرتے نہیں پائے جاتے۔۔۔ پھر ہوا یوں کہ برسات بیزاری کے اسی مشترکہ و ناقبل علاج مرض کا شکار ایک جہاندیدہ بزرگ نے جو ان کے نزلہ شریک بھائی بھی تھے اور امراض کی یکسانیت کے درد مشترک نے انہیں عمر کے فرق کے باوجود ایکدوسرے کے قریب کردیا تھا وہ انکے اور قریب نہایت قریب بلکہ عنقریب ہوگئے اور پھر وہ خواجہ کی جانب سے اپنے نزلے کی روز روز بلا ناغہ کی پرسش و بے تکان غمگساری سے اتنے متاثر ہوئے خواجہ کو داماد بنالینا عین فطری و ضروری ٹہرا ۔۔۔ بلاشبہ فضلی صاحب جیسا جہاندیدہ شخص ہی خواجہ جیسے برسات بیزار کا سسر ہونے کا صحیح سزاوار تھا کہ جسنے اپنی بیٹی کے جہیزکیلیئے سب سامان سے پہلے دو عدد چھتریوں اور دو سالم و مضبوط برساتیوں کو خریدنا یاد رکھا تھا اور پھر خواجہ کا انتخاب تو گویا انکے ذوق کے حق میں ایسی آخری دلیل تھی کہ جسکا توڑ کبھی کسے کے لیئے ممکن ہی نہ رہا ۔۔(سید عارف مصطفیٰ)