masjid or mazaraat par film drama ki aks bandi par pabandi aaid

مساجد میں شوٹنگ، تصویر کا ایک اور رخ۔۔

تحریر: راجہ ایم اکرام خان۔۔

صبا قمر اور بلال سعید کی ایک ویڈیو گزشتہ دو روز سے وائرل ہے۔ اس ویڈیو میں انہیں مسجد وزیر خان کے اندر ایک گانے کی شوٹنگ کرتے دیکھا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ صبا اور بلال پر تنقید کر رہے ہیں۔ بالخصوص مذہبی طبقہ غصے کا اظہار کر رہا ہے۔

مساجد یا کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ میں فلم، ڈرامے، گانے یا کسی بھی کمرشل شوٹنگ کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ مقدسات کیساتھ لوگوں کا روحانی و جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔

مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخی مساجد میں فوٹو گرافی اور دیگر شوٹنگ ایک نارمل بات ہے۔ بادشاہی مسجد اور وزیر خان مسجد میں آئے روز نو بیاہتا جوڑے اپنی شادی / نکاح کی فوٹوگرافی کرواتے ہیں۔ کئی جوڑے اس شوٹنگ کیلئے نکاح ہی انہی مساجد میں کرواتے ہیں تاکہ ایک سنت کی ادائیگی کیساتھ ہی وہ اپنا شوق بھی پورا کرلیں۔ اسکے علاوہ کمرشل شوٹنگ کیلئے مخلتف پروڈکشن ہاؤسز بھی ان مساجد کا انتخاب کرتے ہیں۔

اس شوٹنگ میں سہولت کاری کیلئے محکمہ اوقاف نے باقاعدہ ایک طریقہ کار کے تحت اس عمل کو جائز بنا رکھا ہے۔ آپ محکمہ سے تحریری طور پر پیشگی اجازت لیں گے اور اپنی شوٹنگ کا دورانیہ اور شیڈول بتائیں گے جس کے بعد محکمہ آپ سے چارجز لیتا ہے اور آپ کو اجازت مل جاتی ہے۔ بادشاہی مسجد میں چند منٹ کی شوٹنگ کیلئے 20 سے 30 ہزار روپے چارج کئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کے پاس کوئی ریفرنس ہو تو یہ کام سستا یا بالکل مفت بھی ہو جاتا ہے۔ میں نے کئی میڈیا کے دوستوں کو یہ سروس مفت لیتے دیکھا ہے۔ محکمے کے طویل طریقہ کار سے بچنے کیلئے مسجد کے امام صاحب بھی شارٹ کٹ کا اچھا ذریعہ ہیں۔ انہیں اس سے دو فائدے ہوتے ہیں نکاح کی فیس بھی مل جاتی ہے اور شوٹنگ کے اضافی پیسے بھی۔ آپ کسی بھی تاریخی مسجد جائیں، یہ نارمل ہے۔ یوں امام مسجد نے الگ دوکانداری کھول رکھی ہوتی ہے جبکہ محکمہ یہی کام سرکاری سرپرستی میں کرتا ہے۔ یہاں ایک ذاتی تجربہ شئیر کرتا ہوں۔ 2018 کے رمضان سے قبل ہمارے چینل کو رمضان کے سلسلے میں ایک پرومو شوٹ کرنا تھا، پروڈیوسر بادشاہی مسجد گئے، انہیں قانونی طریقہ واردات بتایا گیا، وہ واپس آئے اور چینل انتظامیہ سے 20 ہزار مانگے تا کہ پرومو شوٹ ہو سکے، چینل انتظامیہ نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں چارجز میں کمی کروا دوں۔ میں نے متعلقہ آفیسر کو فون لگایا، وہ سمجھ گئے۔ بولے کہ آپ کے چینل کا آدمی آیا تھا مگر اس نے آپ کے ذریعے اپروچ نہیں کیا لہذا ہم نے قانونی طریقہ ہی بتایا۔ خیر فیس معاف ہوئی اور چینل نے شوٹنگ کرلی۔ یہ باتیں بیان کرنے کا مقصد ان احباب کو مسئلے کی اصل بتانا ہے۔ ہمارے کئی دوست صبا قمر اور بلال سعید کو ہی قصوروار سمجھتے ہیں۔ بعض نے تو اس ایشو کو سیاسی بنانے کی کوشش بھی کی۔ مگر مجھے یہاں بتانا تھا کہ اس عمل میں سہولت کار مسجد کا امام اور محکمہ بھی ہوتا ہے۔ وگرنہ تو آپ مسجد میں داخل ہی کیسے ہو سکتے ہیں؟

میں سمجھتا ہوں کہ مساجد میں شوٹنگ نہیں ہونی چاہیے مگر اس عمل میں خود امام مسجد اور محکمے کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ امام مسجد کا کردار اس لئے بھی کلیدی ہے کہ آخر مسجد کے تقدس کی تبلیغ بھی تو وہی کرتے ہیں۔(راجہ ایم اکرام خان)۔۔

(راجہ ایم اکرام خان لاہور کے ایک چینل سے وابستہ اور سینئر رپورٹر ہیں،  یہ تحریر ان کی ٹائم لائن سے لی گئی ہے جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں