shartiya meetha | Imran Junior

مسائل زدہ قوم

علی عمران جونیئر

دوستو،پورا ملک ہی طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ پچھتر سال سے مسلسل ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس دوران صرف کراچی میں یوپی موڑ، ناگن موڑ، کریلا موڑ، انڈا موڑ سمیت نجانے کتنے نئے ”موڑ” سامنے آچکے۔۔ہمیں بھی سیاحت کا بہت شوق ہے، تین صوبے یعنی سندھ ،پنجاب اور خیبرپختونخوا پورا گھوم چکے ہیں، بلوچستان میں صرف گوادر کو ہی ٹھیک سے دیکھا ہے، لیکن ہم حلفیہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہیں بھی ” نازک موڑ” نہیں دیکھا۔۔ جس طرح ملک طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے، اسی طرح اس قوم کو بھی ہزارہا مسائل کا سامنا ہے۔ کچھ مسائل کی نشاندہی ہمارے پیارے دوست نے ہم سے کی ہے اور ہمیں واٹس ایپ پر ایک چھوٹی سی تحریر بھیجی ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں بلکہ احساس کراتے ہیں کہ آپ بھی مسائل کے ڈسے ہوئے ہیں۔۔

جوائنٹ فیملی میں آپ اکیلے یا تنہا نہیں رہ سکتے، جب کبھی آپ کہیں اکیلے بیٹھے ہوں گے سب اٹھ کے وہاں آ جائیں گے، یہ دیکھنے کے لیے آپ اکیلے کیا کر رہے ہیں؟کوئی بندہ اکیلے کچھ کھاپی نہیں سکتا، آپ جب کچھ بنانے لگیں گے سب کی آواز آئے گی میرے لئے بھی بنا دینا، چائے بنانے لگے تو ایک کپ میرا کی آواز ضرور آئے گی۔جوائنٹ فیملی والوں کی اکثریت نوکری پیشہ ہوتی ہے، ان کے دماغ بزنس والے نہیں ہوتے، اگر غلطی سے کوئی آئیڈیا دے بھی دو تو اس کا وہ بیڑا غرق کرتے ہیں جیسے ہماری ہاکی ٹیم کاہوچکا ہے۔ان کے گھر بھی کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں۔۔ ایک بڑا کمرہ، ایک چھوٹا کمرہ، برآمدہ، ایک بڑا صحن، باہر کے دروازے ساتھ باتھ روم والے گھر ۔۔اگر شہر میں ہوں تو سارا زور سیٹنگ بدلنے پر ہوتا ہے۔سردیاں آ گئی سیٹنگ بدلو ۔۔گرمیاں آ گئی سیٹنگ بدلو۔۔اب کولر چلانا سیٹنگ بدلو۔۔اب اے سی چلانا سیٹنگ بدلو۔۔نیا گھر بنانے کے بعد کوئی بھی چیز کھینچنے نہیں دی جاتی، کیوں کہ فرش پہ خراشیں لگ جاتی ہیں۔دیوار میں کیل نہیں ٹھونک سکتے، خراب ہو جائے گی۔۔ایسے گھروں میں مائیں ہر وقت کسی نہ کسی کو ڈانٹ رہی ہوتی ہیں، کسی نہ کسی کے کام میں نقص نکل رہا ہوتا ہے۔یہ لوگ اے سی لگواتے ہیں، شوق شوق میں مہینہ چلاتے ہیں، پھر بل دیکھ کے دوبارہ سے چھت پر سونے لگ جاتے ہیں۔۔۔مائیں صبح اٹھتے ہی پہلا کام یہ کرتی ہیں کہ پنکھا بند کردیتی ہیں ۔۔کیوں کہ بے چارے کو سانس بھی لینے کا موقع دیا جاتا ہے۔بندہ اکیلے پنکھا نہیں چلا کے بیٹھ سکتا، بل زیادہ آئے گا، پنکھا زیادہ دیر چل جائے تو اسکو سانس دلوانا لازمی ہے۔۔آپ فارغ ہیں تو گھر میں سب کو مسئلہ۔۔ آپ کام کر رہے ہیں تو سب کو مسئلہ۔۔ آپ سو رہے تب مسئلہ۔۔ جاگ رہے تب مسئلہ۔۔ آپ فون چلا رہے تب مسئلہ۔۔خوش ہونا انکو نہیں آتا۔۔ انہوں نے کہیں جانا ہو تو گھر سے روٹی کھلا کے لے جاتے، بھئی پھر فائدہ جانے کا؟؟

ان کے گھر کوئی مہمان آ جائیں تو انکے چھوٹے بچے اوقات سے باہر ہو جاتے۔۔ویسے اب یہ موبائل نے کم کر دیا لیکن انکے ہاں ہر وقت ٹی وی ریموٹ سے لڑائی رہتی ہے، ایک نے کارٹون دیکھنے، ایک نے نیوز، ایک نے ڈرامہ، ایک نے میچ۔۔اور جب کبھی ریموٹ مل جائے، ابھی خوش ہونے لگتے کہ لائٹ چلی جاتی ہے۔ٹی وی ریموٹ کی لڑائی اب موبائل اور نیٹ پہ شفٹ ہو گئی ہے۔ یہ لوگ وائی فائی اس لئے نہیں لگواتے کہ بچے خراب ہوجائیں گے۔ایک موبائل پہ پیکیج لگواتے ہیں، سب اس سے مانگتے رہتے اور وہ دیتے ہوئے ایسے احسان جتاتا جیسے گورنمنٹ آئی ایم ایف کی بھاری شرائط پہ قرضہ لینے کے بعد عوام کو جتاتی کہ ہم پیسہ لائے ہیں ملک میں۔۔انکے ہاں کوئی ایک بندہ کچھ کر رہا ہو تو سب اسکے اردگرد جمع ہو جاتے اور ان میں سے کسی کو کام کہہ دو تو موت پڑ جاتی ہے۔۔انکے ہاں کوئی حفظ کرلے، پانچ نمازیں اور روز قرآن پڑھ لے، ایک آدھ درس سن لے تو وہ خاندان میں مولوی مشہور ہو جاتا ہے۔۔انکے گھر میں سالوں چیزوں کا کوڑا کرکٹ جمع رہتا، کچھ پھینکنے کا کہہ دو تو کام آئیگا کہہ کر روک دیا جاتا ہے۔

شادی شدہ لوگوںکے الگ مسائل ہوتے ہیں تو کنواروں کی ان مسائل سے جان چھوٹی ہوتی ہے۔۔کنوارے کو کبھی تنخواہ کا حساب نہیں دینا پڑتا۔۔اُسے دوستوں میں بیٹھے ہوئے کبھی فون نہیں آتا کہ ”آتے ہوئے چھ انڈے اور ڈبل روٹی لیتے آئیے گا”۔۔اُسے کبھی موٹر سائیکل پر کیرئیر نہیں لگوانا پڑتا۔۔اُسے کبھی دوپٹہ رنگوانے نہیں جانا پڑتا۔۔۔اُس کا کوئی سالا نہیں ہوتا لہذا اُس کی موٹر سائیکل میں پٹرول ہمیشہ پورا رہتا ہے۔۔اُسے کبھی روٹیاں لینے کے لیے تندور کے چکر نہیں لگانے پڑتے۔۔اُسے کبھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی اُس کا چینل تبدیل کرکے ”میرا سلطان” لگا دے گا۔۔اُس کے ٹی وی کا ریموٹ کبھی اِدھر اُدھر نہیں ہوتا۔۔اُسے کبھی ٹی سیٹ خریدنے کی فکر نہیں ہوتی۔۔اسے کبھی پردوں سے میچ کرتی ہوئی بیڈ شیٹ نہیں لینی پڑتی۔۔اسے کبھی کہیں جانے سے پہلے اجازت نہیں لینی پڑتی۔۔اسے کبھی ٹوتھ پیسٹ کا ڈھکن بند نہ کرنے کا طعنہ نہیں سننا پڑتا۔۔اسے کبھی دو جوتیاں نہیں خریدنی پڑتیں۔۔اسے کبھی بیوٹی پارلر کے باہر گھنٹوں انتظار میں نہیں کھڑا ہونا پڑتا۔۔اسے کبھی دیگچی کو ہینڈل نہیں لگوانے جانا پڑتا۔۔اسے کبھی کسی کو منانا نہیں پڑتا۔۔اسے کبھی کسی کی منتیں نہیں کرنی پڑتیں۔۔اسے کبھی آٹے دال کے بھاؤ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔۔اسے کبھی نہیں پتا چلتا کہ اس کا کون سا رشتہ دار کمینہ ہے۔۔اسے کبھی اپنے گھر والوں کی منافقت اور برائیوں کا علم نہیں ہونے پاتا۔۔اسے کبھی اپنے گھرکے ہوتے ہوئے کرائے کا گھر ڈھونڈنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔اسے کبھی بہنوں بھائیوں سے ملنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی۔۔ اسے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں جوڑنے پڑتے۔۔اسے کبھی سردیوں کی سخت بارش میں نہاری لینے نہیں نکلنا پڑتا۔۔اسے کبھی کمرے سے باہر جاکے سگریٹ نہیں پینا پڑتا۔۔اسے کبھی چھت کے پنکھے صاف نہیں کرنے پڑتے۔۔اسے کبھی ”پھول جھاڑو” خریدنے کی اذیت سے نہیں گذرنا پڑتا۔۔اسے کبھی پیمپرز نہیں خریدنے پڑتے ۔۔اسے کبھی اپنی فیس بک کا پاس ورڈ کسی کو بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔اسے کبھی گھر آنے سے پہلے موبائل کے سارے میسجز ڈیلیٹ کرنے کی فکر نہیں ہوتی۔۔اسے کبھی ہیرکلپ نہیں خریدنا پڑتے۔۔اسے کبھی موٹر کا پٹہ بدلوانے کی فکر نہیں ہوتی۔۔اسے کبھی اچھی کوالٹی کے تولیے لانے کی ٹینشن نہیں ہوتی۔۔اسے کبھی کسی کے خراٹے نہیں سننے پڑتے۔۔اسے کبھی نیند کی گولیاں نہیں خریدنی پڑتیں۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی فرماتے ہیں۔۔دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں۔۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں