تحریر: خورشید ندیم
قلم سنبھالے تین عشرے ہو گئے، کچھ کم یا کچھ زیادہ۔ ایک سوال مسلسل تعاقب میں ہے: میں کیوں لکھتا ہوں؟
بچپن ہی سے لکھنے کا شوق تھا۔ مجھے اوائل عمری کی ایک بات آج بھی یاد ہے۔ جب میں پانچویں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو میری شدید خواہش تھی کہ میں کسی رسالے کا مدیر بن جاؤں۔ انہی دنوں میں نے اپنے طور پر ایک رسالہ مرتب کیا۔ اس کا نام ”سورج‘‘ رکھا۔اس کا پہلا صفحہ ترتیب دیا۔ فہرست مضامین میں کچھ حقیقی، کچھ فرضی مصنفین کے نام لکھے۔ ان کے نام سے مضامین جمع کیے اور یوں ایک پرچہ تیار ہو گیا۔۔عمر کے ساتھ یہ شوق بھی پروان چڑھتا گیا۔ اس دوران میں عام ادب کے ساتھ مذہبی اور سیاسی لٹریچر زیادہ زیرِ مطالعہ رہا۔ شعور کی منزلیں طے کیں تو ان شخصیات نے دل میں زیادہ گھر کیا جو مذہب اور سیاست پر لکھتی تھیں۔
مجھے شعر و افسانے کی دنیا سے کسی نے اتنا متاثر نہیں کیا کہ ان کی طرح لکھنے کو دل چاہا ہو۔ مولانا شبلی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی کی تحریروں کے سا تھ ان کے خیالات بھی اچھے لگتے تھے اور دل چاہتا تھا کہ میں بھی ان کی طرح لکھوں۔ یا پھر ”اردو ڈائجسٹ‘‘ تھا اور ”زندگی‘‘۔ اس سے پہلے ”چٹان ‘‘ بھی۔خالص ادب کے بارے میں ابتدائی رائے یہ بنی کہ یہ محض حظ اٹھانے کے لیے ہوتا ہے۔ زندگی کو کسی مقصدیت سے عبارت ہونا چاہیے اور اس کی جھلک انہی لوگوں کے ہاں دکھائی دیتی جن کا میں نے ابھی ذکر کیا۔ اس لیے اگر لکھنا ہے تو شبلی و آزاد کے نقوشِ قدم ہی راہنما ہو سکتے ہیں۔ابتدا میں اُسی طرح کے موضوعات پر لکھنے کی کوشش کی جو میری ان ممدوح شخصیات کو پسند تھے۔ طویل عرصہ ان لوگوں میں شامل رہا (اور شاید اب بھی) جن کے لیے مولانا امین احسن اصلاحی نے ایک تعبیر اختیار کی کہ: پڑھے کم لکھے زیادہ‘‘۔
ابتدا میں لکھنے کے دو محرکات تھے۔ ایک دین کی خدمت اور کارِ تجدید و احیائے دین۔ اس کا شعور گھر کے ماحول اور ابتدائی مطالعے ہی سے مل گیا تھا۔ دوسرا شہرت۔ دل چاہتا تھا کہ میں بھی ایک نامور لکھنے والا بنوں، جیسے مولانا آزاد تھے یا جیسے مولانا مودودی۔ یہ بات کہ لکھنا کوئی ذریعہ معاش بھی ہو سکتا ہے، اس کا گزر حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوا۔دل و دماغ پر یہ کارِ تجدید ہی کا گہرا اثر تھا کہ جب پہلی بار ”اشراق‘‘ کو پڑھا تو لگا کہ منزل ہاتھ آ گئی۔ جاوید احمد صاحب غامدی کی ادارت میں چھپنے والے اس شمارے میں، جاوید صاحب کی ایک تحریر ”دبستانِ شبلی‘‘ شائع ہوئی۔ اس تحریر کا سحر اس طرح طاری ہوا کہ آج تک اس کی گرفت سے نکل نہیں سکا۔جاوید صاحب نے مولانا اصلاحی کے بارے میں لکھا ہے کہ جب پہلی بار انہیں دیکھا تو پھر اس کے بعد کہیں اور نہیں دیکھا۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جاوید صاحب کے بعد ادھر ادھر دیکھا بہت‘ مگر دل کہیں نہیں لگا۔ ۔”اشراق‘‘ پڑھا تو اس سے مستقل رشتہ قائم ہو گیا۔ 1989ء میں اس کی مجلسِ ادارت کا حصہ بن گیا۔ لاہور منتقل ہوا تو خیر کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ جاوید صاحب کے توسط سے پہلی بار مجیب الرحمٰن شامی صاحب اور مصطفیٰ صادق سے ملا اور انہی دنوں ”زندگی‘‘ میں ”آوازِ دوست‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔ شامی صاحب سے تعلقِ خاطر انہی دنوں استوار ہوا۔ یہ وہ دور ہے جب یہ سوال دوسری بار میرے سامنے آ کھڑا ہوا کہ میں کیوں لکھتا ہوں۔ اب زندگی نے رومانویت سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ لاہور سے واپس اپنے شہر راولپنڈی لوٹا تو غمِ روزگار غالب ہونے لگا۔
میں نے سیاسیات میں ایم اے کر لیا تھا مگر محکمہ ڈاک میں ایک معمولی نوکری کرتا تھا۔ شادی کا مرحلہ درپیش تھا اور نئی ذمہ داریوں کا تقاضا تھا کہ معاشی وسائل میں اضافہ ہو۔ مجھے لکھنے کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں آتا تھا۔ اس وقت لکھنے میں ایک تیسری جہت کا اضافہ ہوا: معیشت۔ مجھے خیال ہوا کہ اب مجھے لکھتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ قلم ہی میرا ذریعہ معاش ہے۔اب میں زندگی کے اس مرحلے پر تھا جب میدانِ عمل تبدیل کرنا، عام طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ تجدید و احیائے دین کا کام جس علمی صلاحیت اور یک سوئی کا تقاضا کرنا تھا، خواہش کے باوجود، میں اس کا متحمل نہیں ہو سکاتاہم یہ خواہش زندہ رہی۔ اس خواہش ہی نے جاوید صاحب کے ساتھ میرے تعلق کو زندہ رکھا۔ علم کی دنیا قربانی مانگتی ہے۔ ابھی اس ملک میں کسی عالم کے لیے یہ امکانات پیدا نہیں ہوئے کہ وہ معاشی ضروریات سے بے نیاز ہو کر علم کے لیے یکسو ہو سکے۔بالخصوص اگر آپ کو معاشرے میں موجود کسی علمی یا مذہبی عصبیت کی تائید میسر نہیں ہے تو آپ کو ایک نئی دنیا پیدا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کتنا مشکل کام ہے، اس کا اندازہ مجھے جاوید صاحب کو دیکھ کر ہوا۔ میں اس قربانی کے لیے خود کو تیار نہ کر سکا۔ علم کا متبادل صحافت ہی ہو سکتی تھی۔ یوں با دل نخواستہ مجھے اس دنیا میں قد م رکھنا پڑا۔اس دنیا میں قدم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ صحافت میری پہلی ترجیح بن گئی۔ میں فنی اعتبار سے تو صحافی نہیں بن سکا لیکن کالم نگار کے طور پر اس سے وابستہ ہو گیا۔ ٹی وی چینل عام ہوئے تو معاشی وسائل میں بہتری کے امکانات بڑھ گئے۔ اب لکھنے کا کام تین خواہشات کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا: کارِ تجدید، شہرت اور معاشی بہتری۔ زندگی مگر بطور استاد ساتھ ساتھ کچھ باتیں سمجھا بھی رہی تھی۔
ایک یہ کہ قلم یا صحافت سے معاشرے کو بدلنے کی خواہش محض خا م خیالی ہے۔ معاشرتی تبدیلی چند تاریخی عوامل کے تابع ہے۔ سماج کے لیے ان سے کوئی فرار نہیں۔ ہماری سوچ اگر تاریخی عمل سے ہم آہنگ ہو تو ہم اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اس تبدیلی میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے۔دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ دوسرا یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ شہرت کی خواہش بھی دم توڑ دیتی یا ثانوی ہو جاتی ہے۔ آج جب میں اس سوال کا سامنا کرتا ہوں کہ میں کیوں لکھتا ہوں تو اس کا ایک ہی جواب ہے: معاشی ضرورت۔
اس رائے تک پہنچانے میں خارجی عوامل کے کردار کا میں نے دانستہ ذکر نہیں کیا۔ ورنہ آپ شاید یہ کالم بھی نہ پڑھ سکیں۔ اگر صحافت کا مقصد صرف معاشی ضرورت ہے تو یہاں ایک سوال کا پیدا ہونا فطری ہے: اگر میری معاشی ضرورت صحافت کے علاوہ کہیں اور سے پوری ہو تو کیا میں صحافت چھوڑ دوں گا؟ بلا سوچے میرا جواب اثبات میں ہو گا؛ تاہم جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ مشقت جاری رہے گی۔دو باتیں البتہ واضح ہیں۔ معاشی ضرورت کا مطلب یہ نہیں کہ دیانت کو تج دیا جائے اور جانتے بوجھتے باطل کو حق ثابت کیا جائے۔ اس کا تعلق صحافت سے نہیں، آخرت سے ہے۔ آخرت پر ایمان رکھنے والا صحافت کرے یا کچھ اور، اس احساس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔۔ تجزیے میں صحت کے ساتھ غلطی کا پورا امکان ہے کہ انسانی عجز کا تقاضا ہے۔ اس کے دانستہ ارتکاب سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ معاشی ضرورت کا ایک مطلب یہ ہے کہ مجھے با دلِ نخواستہ سیاست جیسے مسائل پر لکھنا پڑتا ہے جو ہرگز میری ترجیح نہیں ہیں۔
شہرت کی خواہش دم توڑ چکی‘ لیکن لکھنے کی خواہش باقی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اپنے من پسند موضوع کا انتخاب کر کے ایک کتاب اس خیال سے لکھ دینی چاہیے کہ کسی کی نظر میں اگر اس کی افادیت ہو تو پسِ مرگ شائع کر دے؛ تاہم یہ چھپے یا نہ چھپے، مصنف کے لیے یہ بات غیر اہم ہے۔ اُس کے لیے یہی بہت ہو گا کہ وقت من پسند مشغلے میں گزر گیا۔(بشکریہ دنیا)۔۔