goongay danishwar or maria b

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں۔۔

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدرلاہور پریس کلب۔۔

سوشل میڈیا کی”کثافت”کا صحافت سے کیا تعلق اور “اچھل کودیے” کہاں کے صحافی؟؟حکومت کوئی بھی ہو،اسے پہلی غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ صحافت بھی وزرات اطلاعات طرز کی کوئی”سرگرمی ” ہے۔۔جسے چاہا “دان” کر دی۔۔جو چاہے کسی کا حسن کرشمہ ساز کرے۔۔سیاست کا کرشمہ دیکھیے کہ وہ “وزیر مشیر”سرکاری ٹی وی۔۔ریڈیو اور نیوز ایجنسی کے “پردھان”ٹھہرتے ہیں جو ذرائع ابلاغ کی ابجد کی پہچان بھی نہیں رکھتے۔۔یہی حال باقی وزارتوں کا ہے۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ پھر یہاں  وزیر ٹرانسپورٹ ہسپتالوں کا “معائنہ”کرتے اور “مذاق” بنتے ہیں۔۔”اقتداریہ” کو خبر ہو کہ مین سٹریم میڈیا کبھی بھی “شتر بے مہار”نہیں رہا۔۔صحافتی انحطاط کے باوجود پرنٹ میڈیا میں آج بھی ایک نظم ہے۔۔سوچ سمجھ کر سرخی جمائی جاتی۔۔اداریے اور کالم لکھے جاتے ہیں۔۔اگرچہ الیکٹرانک میڈیا میں کہیں کہیں پیراشوٹرز کنٹرولرنیوز، ڈائریکٹر نیوز ٹھہرے اور کرائم رپورٹرز سیاسی تجزیہ کار بن بیٹھے لیکن پھر بھی ادھر بھی ایک ادارتی نظم ہے۔۔پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا،آج بھی رپورٹنگ سے نیوز روم اور پروگرامنگ تک خود احتسابی ہے۔۔ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر کی جواب دہی ہوتی ہے۔۔خبر سے تجزیے تک پس منظر اور پیش منظر دیکھا جاتا۔۔کسی پروگرام کے لیے ایک دو صفحے کا سکرپٹ کئی کئی گھٹنے کھا جاتا ہے۔۔کالم کے “تمہیدی بھاشن’ کا مطلب یہ ہے کسی ہتک عزت بل سے کارکن صحافیوں کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کہ ان کے لکھے اور بولے الفاظ روازنہ ایک چھلنی سے گزر کرقرطاس ابیض کی زینت بنتے اور ہوا کے دوش اڑان بھرتے ہیں۔۔ہاں سیاسی جماعتوں کے “کارکن صحافی” اور”عفونت” برساتے میڈیا سیل کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔سوال یہ ہے کہ پھر لاہور پریس کلب اور صحافتی تنظیموں کو ہتک عزت قانون سے کیا خوف ہے؟جواب یہ ہے کہ صحافتی تنظیموں کو کسی قانون سے نہیں بلکہ قانون میں قانونی پیچیدگیوں پر تحفظات ہیں۔۔۔بی بی سی کے جناب عمر دراز ننگیانہ نے اپنی ایک رپورٹ میں ہتک عزت قانون کے کچھ چیدہ چیدہ نکات کو انتہائی عام فہم انداز میں پیش کیا ہے جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ”دال میں کچھ کالا ہے”۔۔.رپورٹ کے مطابق حکومت ہتک عزت قانون2024 کے تحت ایسے خصوصی ٹریبونل بنا پائے گی جو چھ ماہ کے اندر اندر سزا دینے کے پابند ہونگے۔۔یہ سزا 30 لاکھ روپے تک ہرجانے کی صورت میں ہو سکتی ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹریبونل یہ سزا ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکم نامے میں سنا سکتا ہے۔ہرجانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹریبونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کوئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتکِ عزت کی گئی ہو، اس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے۔۔ہتکِ عزت قانون کے تحت ان ٹریبونلز کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جن کی کارروائی کو روکنے کے لیے کوئی عدالت حکمِ امتناع جاری نہیں کر پائے گی۔۔ہتکِ عزت قانون کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔۔مضحکہ خیز طور پر اس سے پہلے اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے۔۔ اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔۔ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز میں فیس بک، ایکس یا ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔۔نئے قانون کے مطابق ہتک عزت سے مراد غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت، نشریات اور پھیلاؤ ہے جس سے کسی شخص کو لگے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی ہے یا اسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت کا نشانہ بننا پڑا ہے۔۔قانون کے مطابق ہر ایسا بیان ہتکِ عزت کے زمرے میں آتا ہے چاہے اس کا اظہار زبانی کلامی کیا گیا ہو یا پھر تحریری اور تصویری شکل میں کیا گیا ہو۔۔چاہے اس کے لیے عمومی ذرائع استعمال کیے گئے ہوں یا پھر اس کے اظہار کے لیے الیکٹرانک اور دیگر جدید میڈیم، ذرائع یا آلات یا پھر سوشل میڈیا، کوئی آن لائن یا سوشل میڈیا ویب سائٹ، ایپلیکیشن یا پلیٹ فارم استعمال کے گئے ہوں۔۔۔قانون کے مطابق اس میں وہ بیان یا اظہار بھِی شامل ہو گا جو کسی مخصوص جنس سے تعلق رکھنے والے افراد یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کیا گیا ہو۔۔۔ہتک عزت قانون کے مطابق حکومت اس قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے جتنے ٹریبونل ضروری سمجھے قائم کر سکتی ہے اور اس کے ممبران مقرر کر سکتی ہے۔۔ٹریبیونل کا ممبر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے مقرر کیا جائے گا۔۔ جہاں ممبر عدلیہ سے ہو گا وہاں چیف جسٹس تین نام حکومت کو بھجوائیں گے جن میں سے وہ ایک کو ممبر مقرر کرے گی اور جہاں ممکنہ ممبر کا تعلق وکلا برادری سے ہو گا وہاں حکومت چیف جسٹس کو تین نام تجویز کرے گی۔۔اگر وہ کسی بھی نام پر اتفاق نہیں کرتے تو چیف جسٹس وہ نام حکومت کو واپس بھجوائیں گے جو ایک نئی لسٹ بھیجے گی۔۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک ایک نام پر اتفاق نہیں ہو جاتا۔۔حکومت ٹریبونل کے دائرہ کار کا تعین کرے گی۔۔کوئی بھی شخص مبینہ ہتک عزت کے واقعے کے 60 دن کے اندر ٹریبونل میں شکایت جمع کروا سکتا ہے۔۔درخواست گزار کو ہتکِ عزت کے دعوے کو حقائق کے ساتھ بیان کرنا ہو گا اور ساتھ ہی دو گواہوں کا بیانِ حلفی بھی جمع کروانا ہو گا۔۔ درخواست میں اس بیان کو واضح طور پر بتانا ہو گا جس کی وجہ سے اس کو لگتا ہے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور وہ کتنا ہرجانہ لینا چاہتا ہے۔۔ٹریبونل سمن کے ذریعے اس شخص کو طلب کرے گا جس کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے۔۔ اپنا دفاع کرنے کے لیے وہ شخص پہلی پیشی کے 30 دن کے اندر ٹریبونل سے اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کی اجازت لے گا۔۔ٹریبیونل 60 دن کے اندر اندر درخواست پر فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا۔۔ہتکِ عزت کے قانون کے مطابق اگر ہتک عزت کی درخواست کسی ایسے شخص کے خلاف ہے جو کسی آئینی عہدے پر فائز ہے تو اس کے خلاف کارروائی ٹریبونل نہیں کرے گا بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سنگل ممبر خصوصی بنچ کرے گا۔۔۔آئینی عہدے کے حامل افراد میں صدر، وزیراعظم، وزرائے اعلی، گورنر، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اور چیف جسٹسز، پاکستانی افواج کے سربراہان شامل ہیں۔۔۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان  نے ہتکِ عزت 2024 کے قانون پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں کہ اس قانون میں ہتکِ عزت کے دعوؤں کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک متوازی ڈھانچہ تجویز کیا گیا ہے۔۔۔قانون میں ٹریبیونل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر بغیر ٹرائل کے 30 لاکھ روپے ہرجانے کا عبوری حکم سنا سکتا ہے۔۔یہ بل عجلت میں پیش کیا گیا ہے اور اس سے قبل سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل اور مرکزی میڈیا سے مشاورت کے لیے مناسب وقت نہیں رکھا گیا۔۔کچھ اس طرح کے ہی تحفظات صحافتی تنظیموں کے بھی ہیں۔۔صحافتی تنظیموں ہی نہیں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے بھی کہہ دیا ہے کہ ہتک عزت قانون حرف آخر نہیں۔۔بل کی منظور ی میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔انہوں نے بل واپس بھجوانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ حکومت اس کو دوبارہ دیکھے اور قابل اعتراضات نکات نکالے۔۔بہر کیف پنجاب حکومت کے ہتک عزت قانون کی کچھ شقیں وہ “فولادی گانٹھیں” ہیں جو آج دی تو ہاتھوں سے جارہی ہیں لیکن کل کھولنا دانتوں سے پڑیں گی۔۔ہتک عزت بل پر صحافتی تنظیموں کے ایک مشاورتی اجلاس میں کسی نے “پھبتی” کسی کہ اگر قانون واقعی نافذ ہو گیا تو ن لیگ “رضی دادا”کو کیسے “ریسکیو”کرے گی۔۔؟؟؟میں نے کہا کہ صرف رضی دادا صاحب نہیں پھر سب جماعتوں کے” دادے” لپیٹ میں آئینگے کہ راحت اندوری نے کہا تھا۔۔

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے(امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں