تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
شدید حیرت بھی ہے اور افسوس بھی ۔۔۔۔پاکستانی میڈیا بھی فراموشی و بے حسی کے سناٹوں کا اسیر بنا نظر آتا ہے کیونکہ شاید اس نے بھی خود کو سیاسی اغراض اور مصلحتوں کے تابع کردیا ہے۔۔۔ لیکن کیا مظلومین میں بھی اپنوں اور پرایوں کی تقسیم کی جاسکتی ہے ۔۔؟؟
اگر ایسا نہیں ہے تو پھربھلا یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ 28 برس قبل 27 مئی 1990 کے دن پکا قلعہ حیدرآباد میں پولیس آپریشن کے نام پہ برپا کی گئی ریاستی خونریزی کو یکسر بھلادیا جائے کے جس میں ایک عوامی جلوس پہ وحشیانہ فائرنگ کرکے سو سے زائد افراد کو خاک اور خون میں نہلا دیا گیا تھا اورصرف 4 برس قبل لاہور کے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہی یاد رہے کہ جس میں 14 افراد مبینہ طور پہ پولیس کے ذریعے ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بناڈالے گئے تھے ۔۔۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کے یہ مقتولین اپنے علاقوں کا دو روز سے جاری وہ محاصرہ توڑ کے باہر نکل آنے پہ مجبور ہوگئے تھےاور اس جلوس میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں جو ہاتھوں اور سروں پہ قرآن اٹھاکے فریاد کناں ہوکے سڑک پہ آگئی تھیں کیونکہ انکے گھروں کی بجلی اور پانی اور گیس تک کو بند کردیا گیا تھا اور ایگل اسکواڈ پولیس کی کئی درجن موبائلوں نے اس بستی کو نرغے میں لے کر وہاں غذائی اشیاء کی فراہمی تک ناممکن بنادی تھی اور پھر انکے ساتھ خونریزی کی وہ داستان رقم ہوئی کہ چشم فلک بھی تھرا اٹھی ۔۔۔ بلاشبہ ایسے ظلم کی مثال کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی ۔۔۔ لیکن یہ خون شہیداں تھا سو رزق خاک ہوا اور اب ہر برس 27 مئی کی تاریخ آتی ہے لیکن میڈیا کو یا کسی ادارے اور جماعت کو اتنی توفیق ہی نہیں ہوتی کہ اس سانحے کو یاد کرلے اور یہ حقیقت بھی فراموش نہ کرے کہ 6 اگست 1990 کو جب بنیظیر حکومت کو صدر غلام اسحاق نے برطرف کیا تھا تو اسکی جو وجوہات بیان کی تھیں ان میں انسانی قتل عام کے اس خونچکاں واقعے کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔۔
یہاں یہ بتانا بھی ہرگز بیجا نہیں کہ جب پیپلز پارٹی کی جانب سے اس برطرفی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا تو عدالت عظمیٰ نے بھی ان وجوہات کو بینظیر حکومت کی برطرفی کی جائز وجہ تسلیم کیا تھا ۔۔۔۔ اور یوں یہ اس وقت سے ہی اس وقت کی حکومت کے کارپردازوں کے خلاف ایک بہت مضبوط قانونی کیس بھی ٹہرایا جاچکا ہے لیکن ہماری بار کونسلیں و دیگر قانونی برادری بھی اس معاملے میں نہایت غفلت کا مظاہرہ کرتی چلی آرہی ہے ۔۔۔ لیکن یہاں پہ خصوصی طور پہ میں میڈیا کی غفلت کو زیر بحث لارہا ہوں اور بارے میں میڈیا کی فراموشی کو فلیش بیک کی تکنیک سے سمجھانا چاہوں گا جو کہ بنیادی طور پہ فلم میڈیا یعنی سلور اسکرین کی ایک اہم تکنیک سمجھی جاتی ہے جس کے ذریعے کسی فلم میں کہانی کو معنی خیز موڑ تک لانے کے لیئے ماضی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں خاص طور پہ کسی کردار کے گزرے وقت کی جھلکیاں ۔۔۔ لیکن یہ تکنیک اب فلم سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا خصوصاً ٹی وی پہ استعمال کی جارہی ہے اور نیوز چینل تو لگتا ہے کہ اسکے بغیراب رہ ہی نہیں سکتے کیونکہ اکثر ٹاک شوز اور رپورٹوں میں کسی پارٹی یا اسکے رہنماء کا کچا چٹھا اسی طرح بخوبی کھولا جاتا ہے کیونکہ اس کے ماضی میں کیئے دعوے یا کسی کے بارے میں کہے گئے الفاظ کا موازنہ اسکے حالیہ طرزعمل یا برعکس کہے الفاظ سے کیا جاتا ہے یوں اسی تکنیک کے آلۃ جراحت سے منافقت کے جسد پہ یاددہانی کے چرکے لگائے جاتے ہیں اور اسی لیئے ناظرین میں خصوصاً ناقدین میں بھی اس طرح کی یاد دہانی والے مناظر کو خصوصی طور پہ پسند کیا جاتا ہے۔ پکا قلعہ آپریشن کے مقتولین کی یاد کو تازہ رکھنے اور انکے ساتھ انصاف کیئے جانے کے لیئے انصاف و قانون کی پاسداری کے داعی کسی چینل اور اخبار کو کبھی یہ یاد کیوں نہیں آتا کہ وہ ذرا فلیش بیک کا سہارا لے لے اور عدلیہ و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یاد دلائے کہ 27 مئی 1990 کو حیدرآباد میں اس وقت کی حکومت نے کس طرح احتجاجی عوامی جلوس کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی تھی
واضح رہے کہ پکا قلعہ کا یہ سانحہ سارے قومی اخبارات میں رپورٹ ہوا تھا ( ان دنوں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کام کرنا شروع نہیں ہوئے تھے ) ۔۔۔ اور قومی میڈیا اس واقعے کی بنیاد پہ حکومت اور عدلیہ کو یہ یاد دلائے کہ صرف سانحہء اڈل ٹاؤن لاہور کے شہداء ہی نہیں بلکہ اس سے کئی گنا بڑے قتل عام کے شہداء کو انصاف دلانا بھی اسکی ذمہ داری ہے اور 12 مئی یا 17 جون ہی نہیں 27 مئی بھی قصاص کے مقامات عدل میں سے ایک اہم مقام ہے ۔۔! سانحہء پکا قلعہ آپریشن کے مقتولین وہ بدنصیب ہیں کہ جنکا والی وارث کل بھی کوئی نہ بنا تھا اور اب بھی کوئی نہیں ہے حالانکہ ایم کیو ایم سے پہلے دیگر سیاسی جماعتوں خصوصآً جماعت اسلامی ، جے یوپی و مسلم لیگ کا بھی یہاں ووٹ بینک رہا ہے اور اب بھی کسی نہ کسی حد تک ہے ۔۔۔ لیکن ان جماعتوں کو انکے بارے میں بات کرنے کی بابت خوف یہ ہے کہ اندرون سندھ انکا ووٹ بینک متاثر ہوجائے گا حالانکہ وہاں انکا ووٹ بینک نہ پہلے کبھی تھا اور نہ ہی شاید آئندہ مستقبل قریب میں ہوسکے گا کیونکہ وہاں صرف پی پی کا راج ہے جو دیہی آبادی کو یہ مغالطہ دیتی ہے کہ دراصل شہری طبقہ ہی اسکے حقوق کا غاصب ہے اور پھر اس شہری طبقے کو دیوار سے لگانے کے ایسے وحشیانہ اقدامات سے ہی وہ دیہی آبادی کو یہ باور کرانے میں کامیاب چلی آتی ہے کہ صرف وہ ہی ہے کہ جو انکے حقوق کی راہ میں آنے والی ہر مبینہ دیوار کو گرانے سے بھی گریز نہیں کرتی اور اس سلسلے میں کسی قانون اور آئین کی پرواہ نہیں کرتی اور یوں خوش ہوکے وہ دیہی سندھ کے ووٹوں کا انبار سمیٹ لیتی ہے ۔۔۔
پیپلز پارٹی کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ وہ سندھ میں شہری سندھ کے لیئے مختص کردہ 40-60 کے تناسب والے منظورشدہ کوٹے پہ عملدرآمد بھی نہیں ہونے دیتی ورنہ آج سندھ کے 29 اضلاع میں شہری سندھ کے صرف 2 یا 3 افراد ہی ڈپٹی کمشنر کیوں ہوتے اور سندھ بینک کے 17 ہزار ملازمین میں شہری سندھ کے لوگ ساڑھے سات آٹھ ہزار کے بجائے محض ایک ہزار سے بھی کم کیسے ہوتے اور اسکی ایک اور کامیابی یہ بھی ہے کہ اس نے گزشتہ پچاس برسوں میں دیہی آبادیوں سے شہری آبادیوں کی جانب انخلاء کے تیز تر ہوتے رجحان کی وجہ سے آبادی کے بدلے ہوئے حقائق کو سرکاری کاغذات میں ساکت و جامد کررکھا ہے کیونکہ اب عملی طور پہ ان پانچ دہائیوں میں سندھ کی شہری آبادی پیسٹھ سے ستر فیصد ہوچکی ہے ۔۔۔ پکا قلعہ کے ان مظلوموں کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کے انکے خؤن کو خود انکی نمائندہ جماعت ایم کیوایم نے نے محض اپنے سیاسی سیاپے کے لیئے استعمال کیا تھا اور پھر موقع ملتے ہی اپنے ذاتی و سیاسی ادنیٰ مفادات کی غلیظ سودا بازی کے تحت فروخت کرڈالا تھا ۔۔ لیکن اس سے ملک میں قانون کی بالادستی پہ یقین رکھنے والوں اور عدلیہ و ریاستی اداروں کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی بلکہ کئی گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ اب یہ انکی قانونی اور آئینی ذمہ داری ہے کہ انصاف کی فراہمی کی ضمن میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کریں ۔۔۔
لیکن اسکے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ پکا قلعہ حیدرآباد کے ان مظلومین کے ورثاء اور شہری سندھ کے عوام کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک ہی ملک میں ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کا خون واجب القصاص ٹہرا کے سیاسی گرواپنے منہ سے جھاگ نکالتے پھرتے ہیں اور میڈیا اس کے بارے میں بار بار ماضی کے مناظر دکھاتا جارہا ہے اور عدلیہ بڑی چابکدستی سے انصاف کے ترازو کو تھام کے آگے آئی ہوئی ہے تو دوسری طرف حیدرآباد میں پی پی حکومت کے ہاتھوں ہوئے اس سے کئی گنا بڑے قتل عام اور بربریت کے اس واقعے پہ ان سب کو ایک دم سانپ سونگھا ہوا ہے ۔۔ شہری سندھ کے عوام اس عجیب و غریب رویئے پہ انگشت بدنداں ہیں کہ آخر یہ سب کیا ہے اور کیوں ہے ۔۔۔؟ کیا پکا قلعہ میں ریاستی طاقت نے ظلم کے جو پہاڑ توڑے تھے اسکا نشانہ بننے والے مظلومین انسان اور پاکستانی نہیں تھے اور کیا 28 برس گزر جانے کے باوجود انہیں انصاف دلانا انکی ذمہ داری نہیں ہے یا صرف ماڈل ٹاؤن کے مقتولین ہی انسان اور پاکستانی تھے ۔۔؟ ویسے تو اس سوال کا جواب حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں پہ بھی قرض ہے لیکن عدلیہ و میڈیا کے لیئے تو مانند فرض ہے ۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔
(تحریر نگار کے خیالات سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔