تحریر: خرم علی عمران
میں تو پہلے ہی کہتا تھا مگر لوگ نہیں مانتے تھے کہ دنیا کی،ہمارے کرہ ارض کی بلکہ ہمارے نظامِ شمسی کی، بلکہ نہیں یار ابھی بھی تسلی نہیں ہوئی ہمارے ملکی وے یعنی کہکشاں کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب ہندوستان کی تہذیب ہے،مانو یا نہ مانو،میں تو یہ راز انکے دھارمک ڈرامے ،ارے میرا مطلب ہے دھارمک ٹی وی ڈرامے دیکھ کر پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ تہذیب ،یہ ہزاروں سال پرانی تہذیب ہزاروں سال پہلے ہی اتنی ترقی کر چکی تھی جو ہم آئندہ پانچ سو سال میں بھی نہیں کر پائیں گے،، نہیں نہیں، مجھ پر شک نہ کیجئے، مجھے مودی یا انڈین حکومت نے کوئی لفافہ نہیں بھیجا ہے بھائی! بلکہ یہ ساری باتیں تو خود انڈین سیاسی اشرافیہ اور انکے سربراہ عالی جناب نریندر مودی اور انکے بغل بچوں نے حالیہ 106 ویں سالانہ انڈین سائنس گانگریس میں کی ہیں جو رواں ماہ کی تین تاریخ کو جناب مودی کی افتتاحی تقریر سے شروع ہوئی اور سات تاریخ کو اختتام پذیر ہوئی۔
اپنی افتتاحی تقریر میں جناب مودی نے وقت کی کمی کی وجہ سے” ارے بھئی وقت اب کم ہی ہے نا انکے پاس” بس چند اجمالی اشارے ہی کئے اور ابتدائی قوالی پیش کر کے چلتے بنے اور باقی کام ہمنواؤں نے کیا اور صاحب کیا خوب کیا،دنیا کی بہت سی سائنسی غلط فہمیاں دور ہوئیں اور بہت کچھ ایسا پتہ چلا جوابتک ضیغہ راز میں تھا،آئیے اس عظیم الشان ہفوات سے بھری سائنسی کانفرنس پر ایک نظر ڈالتے ہیں، گو روداد کو بہت طویل ہے بس میں صرف جھلکیاں پیش کروں گا،اس علمیت میں ڈوبی بلکہ پوری طرح غرق کانفرنس میں شریک مہان بدھی مانوں نے آگاہی دی کہ اسٹیم سیل پر تو قدیم ہندوں ہزاروں سال پہلے ہی تحقیق کر کے کتاب بھی بند کر چکے تھے، اور ہاں یہ بات کسی ایرے غیرے نتھو خیرے نے نہیں کی جناب بلکہ جنوبی ہند کی ایک یونیورسٹی کے چانسلر نے کی اور قدیم ہندوں تحریروں کا حوالہ دیا، دیکھا اپ نے، ابھی تو ابتدائے عشق ہے،،،
مزید دیکھئے”آندھرا یونیورسٹی کے وائس چانسلر نگیشور راؤ نے کہا کہ ہندو مقدس کتاب رامائن میں ایک بادشاہ کا ذکر ملتا ہے جن کے پاس 24 قسموں کے ہوائی جہاز تھے اور وہ انھیں سری لنکا کے ہوائی اڈوں پر اتارا کرتے تھے۔” کیسا! پتہ چلا کہ یہ مغربی دنیا کسی دیدہ دلیری سے رائٹ برادران کو ہوائی جہاز کا موجد بتاتی ہے،حد ہوگئی بھئی جھوٹ کی، میں مغربی دنیا کی بات کر رہا ہوں کہیں آپ! خوامخواہ۔۔مزید سنیں!سنہ 2017 میں انڈیا کے جونیئر وزیر تعلیم ستیپال سنگھ نے کہا تھا کہ پہلی بار طیاروں کا ذکر رامائن میں کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلا پرواز کرنے والا طیارہ ایک انڈین شخص شواکر بابوجی تلپڈے نے ایجاد کیا تھا اور ایسا طیاروں کے موجد رائٹ برادرز کی ایجاد سے آٹھ سال پہلے کیا گیا تھا۔
تامل ناڈو کی ایک یونیورسٹی کے ایک سائنس دان ڈاکٹر کے جے کرشنن نے کہا کہ آئزک نیوٹن اور آئن سٹائن دونوں غلط تھے اور دریافت ہونے والی کششِ ثقل کی لہروں کا نام ‘نریندر مودی لہریں’ رکھنا چاہیے۔ دیکھا آپ نے یہ نیوٹن وغیرہ کی چیزیں میٹرک اور انٹر میں کتنا ہمارے طلبا کو رلاتی ہیں،چلو اچھا ہوا ،آج بات کھل ہی گئی۔ اور جناب مودی کے کیا کہنے، جناب ٹرمپ اور جناب مودی ،بس یہ دو ہی تو دیوانے رہ گئے ہیں رونقیں لگانے کو،اور جناب مودی نے بھی تو ایک اور فکر انگیز انکشاف 2014 میں ممبئی ہسپتال کے سٹاف سے علمی گفتگو کرتے ہوئےکیا تھا کہ ہندوؤں کے بھگوان گنیش کا ہاتھی کا سر ایک انسانی جسم سے جڑا ہونے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قدیم انڈیا میں ہزاروں سال پہلے کاسمیٹک سرجری ہوا کرتی تھی۔ کیا کہنے جناب! آج سمجھ میں آیا کہ عقل کے ہیضے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
جناب مودی تو مودی، بغل بچے بھی کم نہیں ہیں جناب،مجھے تو اپنی سیاسی اشرافیہ پر شرم آتی ہے کہ وہ کیوں ایسی علمی باتیں نہیں کر پاتے،خیر انہیں کرپشن وغیرہ سے فرصت ملے تو کہیں اور دھیان بھی دیں نا، تو ہاں بات ہورہی تھی بغل بچوں کی تو سنیئے اور سر دھنیئے”2018 میں ٹیکنالوجی کی جنگ میں نیا تیر شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیو نے چلایا تھا اور کہا تھا کہ انٹرنیٹ قدیم ہندوستان کی ایجاد ہے اور ہزاروں سال پہلے براہ راست نشریات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ”
دیکھا آپ نے، ہم خوامخواہ ہی جنوبی ایشا کو پسماندہ اور تیسری دنیا کہتے ہین، جناب جہاں اتنی ترقی یافتہ تہذیب کا وجود ہو وہ کیسے پسماندہ ہوسکتا ہے،مجھے یقین ہے کہ چند ہی دنوں میں اہرام مصر کس ہندو سائنسدان نے بنائے تھے، جلد پتہ چل ہی جائے گا۔یہ بھی مجھ جاہل کو امید ہے کہ سو دوسو سال بعد اگر ہم کسی سیارے پر پہنچے تو وہاں پہلے ہی سے اسی ہزاروں سالہ پرانی ہندو تہذیب کے لوگ براجمان ملیں گے۔ اب حاسد تو ہر جگہ اور ہر قوم میں ہی ہوتے ہیں نا، تو ایسے ہی کچھ نوبل انعام نامزد شدہ انڈین سائنسدانوں اور انڈین سائنٹفک گانگریس کے اراکین نے جانے کیوں خوامخواہ ہی اوپر پیش کی گئی باتوں کو ماایوس کن اور مضحکہ خیز قرار دیا ہے،،ارے بھیا ! جل گئے ہوں گے ، اور کیا۔۔(خرم علی عمران)۔۔