تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
یوں تو دنیا تیزی سے بدل رہی ہے لیکن کچھ چیزوں کا کبھی نہ بدلنا ہی بہتر ہے ورنہ معاشرہ اپنا توازن ہی کھو دے گا – میری مراد معیارات سے ہے خصوصاً صحیح و غلط سے وابستہ پیمانے ۔۔۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اب یہ بھی انقلاب زمانہ کی زد میں ہیں اور انکی بھی خیر نہیں ، ورنہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بول ٹی وی کی جانب سے متفرق درخواست پر یہ حیرت انگیز ریمارکس کبھی نہ دیتے کہ ” بول کی تمام سرمایہ کاری کالےدھن سے ہے،مشینری بھی ٹیکس دیے بغیر لگائی گئی۔ فرانزک آڈٹ کرایا تو بول بند ہوجائے گا۔۔ ” ملنے والی تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ٹی وی چینلزریٹنگ دینے والی کمپنی میڈیالاجک کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے تھے ۔
جناب چیف جسٹس کے ان ریمارکس پہ یقینناً اکثر کو شدید حیرت ہوئی ہوگی اور خود مجھے بھی بہت ہوئی کیونکہ کل کو تو کسی ڈاکو سے بھی کہا جاسکے گا کہ شکر کرو ہم تمہاری جیبوں کی تلاشی ہی لے رہے ہیں کہیں تمہارے تھیلوں و بوریوں کی تلاشی لے ڈالی تو پھر ہمیں پتا ہے کہ اس میں حرام کا مال ہی بھرا پڑا ہے جس سے تم محروم ہوجاؤ گے۔۔ یعنی ان ریمارکس سے تو واضح طور پہ قانونی رویئے سے متعلق صدیوں سے چلے آرہے اس مقولے میں کہ ‘ قانون اندھا ہوتا ہے ‘ کی نفی ہوتی معلوم ہوتی ہے اورچیف جسٹس صاحب کے فرمودات سے تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ قانون اندھا نہیں بلکہ دو بھی نہیں چار چار آنکھیں رکھتا ہے دو انکھیں یہ دیکھنے کے لیئے کہ کیا ہورہا ہے اور دو بند رکھنے کے لیئے کہ ہمیں کیا ، ہونے دو جو بھی ہورہا ہے ۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بول کے معاملے میں کوئی واجب احتسابی قدم نہیں اٹھارہے جبکہ خود اپنے بقول انہیں فرانزک آڈٹ کے نتیجے کا پہلے ہی سے اندازہ بھی ہے ۔ اور یہ کہ انہیں پوری طرح علم ہے کہ بول چینل کی بنیاد میں دراصل کس مشکوک نوعیت کا سرمایہ لگا ہوا ہے لیکن کیا کیجیئے کہ بار کونسلیں تو اب چپ نہ رہ سکیں گی اور یقینناً یہ سوال ضرور اٹھائیں گی کہ محترم چیف جسٹس یہ حقائق جاننے کے باوجود اس جانب توجہ کیوں نہیں دے رہے جو کہ قانونی اعتبار سے شدید درجہ میں ناقابل قبول بات ہے۔۔۔
اس ضمن میں تو شاید کسی تردد یا بحث و تمحیص کی بھی ضرورت نہیں کہ انکے فرائض منصبی کا دوٹوک تقاضا ہے کہ وہ اپنے احاطہ اختیار میں ہر جگہ کالے دھن کی مکمل بیخ کنی کریں خواہ وہ کسی شکل میں بھی ہو اور اگر وہ خود بھی ایسے معاملات میں قرار واقعی قانونی ایکشن نہیں لیں گےتو پھر بلاشبہ ملک میں کالے دھن کی نمو و افزائش کیوں نہ جاری رہے گی اور خصوصاً ایسی ناجائز دولت کے بل پہ ایسے سیاہ کار سرمایہ کار ملک کے چوتھے ستون یعنی میڈیا پہ قابض ہوکے اور اطلاعاتی و ابلاغی اعتبار کو اپنے پنجوں میں جکڑ کے اسے کھوکھلا کرکے کیوں نہ رکھ دینگے – اور عین اسی لحاظ سے درحقیقت یہ معاملہ قانونی کے ساتھ ساتھ اخلاقی نوعیت کا بھی ہے ۔۔۔ کوئی بھی مہذب ملک جانتے بوجھتے کسی بھی طرح کے کالے سرمائے کی حوصلہ افزائی کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ورنہ کسی بھی طرح کے کالے کاروبار کو قبول کرنا پڑے گا اور یوں قانون ہی نہیں اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل جائے گا اور اسکے ذیلی اثرات کے تحت رشوت اور اسمگلنگ کو بھی گردش زر کی ایک شکل قرار دینا اور تسلیم کرنا پڑسکتا ہے۔۔
بات صاف ہے کہ اگر وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ خود انکے اپنے ریمارکس کے مطابق ” بول کی تمام سرمایہ کاری کالےدھن سے ہے” تو پھر انہیں تو ضمن میں سخت ترین تادیبی قدم اٹھانا چاہیئے اور وہ بھی عدالتی طرز فکر کی اس اساس کے عین مطابق ‘ خواہ آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے’ کیونکہ یہ تو قوم کی تربیت و تدریس کا معاملہ ہے اور اسکا تعلق بالواسطہ و بلا واسطہ ، ہر اعتبار سے قومی مفاد سے جڑا ہوا ہے ۔ تاہم ایکزیکٹ کے کالے دھن سے بنے بول یا پاک چینل کے وہ ملازمین جو سنہرے مستقبل کےسہانے سپنوں کے فریب میں آکے وہاں پھنس کے رہ گئے انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ قومی میڈیا کے اداروں یا دیگر سرکاری ملازمتوں میں کھپانے کا بندوبست بھی ضرور کیا جانا چاہیئے اور اس معاملے میں یقینناً عدلیہ اہم ترین کردار ادا کرسکتی ہے۔۔(سیدعارف مصطفی)۔۔
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔