حریر: خرم علی عمران
اقتدار کے طلسمی ایوانوں کی فرحت انگیزگداذ و کمخواب کے لمس سے بھرپور اور ریشمی سی فضاؤں میں ضرور بالضرورکچھ ایسا سحر ہے کہ وہاں جاتے ہی گویا کایا پلٹ ہوجاتی ہے یعنی ہر کہ در کانِ نمک نمک رفت شد والی بات ہوجاتی ہے یعنی جو نمک کی کان میں جاتا ہے نمک بن جاتا ہے،مشہور روایت کا مفہوم ہے کہ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت لوگ اقتدار میں آنے کے بعد بدل کیوں جاتے ہیں فرمایا بدلتے نہیں بس بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ حق سچ ہے بلکل۔ یہ اس لئے کہ انسانی اور عوامی ہمدردی ، قومی خدمت اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے جان لڑادینے والے اور اسی قسم کے دوسرے اخلاقی فضائل کے جوجو خوش رنگ نقاب انہوں نے خود پر لیلیء اقتدار کے حصول کے لئے بڑی احتیاط سے چڑھائے ہوئے ہوتے ہیں وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد یعنی اختیار اور اختیار مل جانے کے بعد انکے خیال میں اتنی احتیاط کے متقضی اس لئے نہیں رہتے کہ انہیں بھی اپنے سے پہلے فرعون کی طرح اپنے خدا ہونے اور لیلائے اقتدار کو خود پر ہمیشہ مہربان رہنے کا ویسا ہی گمان اور مرض لاحق ہوجاتا ہے اور وہ اپنے سابقین کی طرح یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب تو منزل یعنی تخت و تاج حاصل تو ہو ہی گیا اور اب ہمیشہ سب ایسے ہی ہرا ہرا رہے گا۔مگر ایسا ہوتا نہیں ہے اور جب پیروں تلے زمین سرکنا شروع ہوتی ہے اور وقت کے تیور بدلنا شروع ہوتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں کے طلسم کدے سے کوچ کرنے کا بگل بجنا شروع ہوتا ہے تو ان کی حسرت و مایوسی دیدنی ہوتی ہے۔
اس لمبی تمہید پر معذرت کے ساتھ آمدم برسر مطلب کہ وہی شہرِ دلپذیر وہی کراچی جسکا نوحہ ہر فورم چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ یا پھر الیکٹرانک پر پڑھا جارہا ہے اور کراچی سے محبت کرنے والے اہل قلم و ادب اور میڈیا کے درد مند حضرات بے تاب ہوکر اس کے لئے اپنے اپنے دائرے میں آوازیں بلند کررہے ہیں کہ کراچی ڈوپ رہا ہے،کراچی مر رہا ہے،کراچی رو رہا ہے لیکن ارباب اختیار و اقتدار ہیں کہ ٹس سے مس ہونے کا نام بھی نہیں لیتے بلکہ اب ملی بھگت سے ان سب نے ایک نئ نویلی فلم آرٹیکل اور کمیٹی149 کے نام سے ریلیزکردی ہے جس پر بیانات کی جنگ عظیم شروع کرکے دھیان بٹانے کی بڑی خوبصورت کوشش خوب رونق لگا رہی اور فلم خوب رش لے رہی ہے اور تیز و تند بیانات کا ایک سیل رواں ہے جو رواں دواں ہے۔ بڑے بڑے گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں اور بڑی قانونی موشگافیاں بگھاری جارہی ہیں اورحب الصوبائی کے عظیم الشان مظاہرے کئے جارہے اور بڑی بڑی بڑکیں مرحوم مظہر شاہ کے اسٹائل اور باریک آوازوں میں لگائی جارہی ہیں اور عوام ہیں کہ کوڑے کے ڈھیروں پر چلتے پھرتۓ اور گٹر کے پانی سے لبریز گلیوں کے تھڑوں اور چوکوں پر بیٹھ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر کراچی کا نام تبدیل کرکے کوڑاچی رکھ دیا جائے تو زیادہ با معنی ہوجائے گا۔ کیا خیال ہے؟
یہ ٹنوں کچرا جسے سب ارباب اقتدار و اختیار ایک مصیبت اور زحمت سمجھ رہے ہیں درحقیقت یہ ایک رحمت و نعمت بھی بن سکتا ہے اگر تھوڑا سا دھیان کیا جائے تو،وہ کیسے بھئی؟ وہ ایسے کہ ہمارے سرکاری ،صوبائی ،وفاقی اور بلدیاتی اربابِ اختیار اگر اپنی شبانہ روز گوناگوں سرگرمیوں اور بیان بازیوں سے ذرا فرصت نکالیں اور لپک کر ذرا سنگا پور کی حکومت سے یہ پوچھ لیں کہ انہوں سے کچرے سے بجلی یعنی برقی توانائی حاصل کرنے کا کیا سسٹم بنایا ہوا ہے اور پھر اگر ان ہی کے ماہرین کی مدد سے یہ سسٹم اس روزانہ ہزاروں ٹن کچرا پیدا کرنے والے شہرِ دلبراں میں اطلاق کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ ٹین ڈبے کی طرح کچرا بھی بکنا شروع ہوجائے گا اور مزید یہ کہ بہت سے ممالک میں کچرے سے کھادیں بھی تیار کی جارہی ہیں جو اچھا خاصہ مہنگا فروخت ہوتی ہیں تو بھائی کچھ اور نہیں تو اسی لئے کہ کچرے سے سونا بنانے کے اس سیٹ اپ میں لمبے مال کا آسرا ہے اس تجویز پر اگر کچھ عملی کام کرلیا جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ کچرے کا ایک حصہ یعنی اس میں موجود پروٹین‘ فرٹیلائزر (کھاد) بنانے کیلئے استعمال کیاجاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ کئی طریقوں سےتوانائی کی پیداوار کیلئے استعمال ہوتا ہے اور وہ توانائی باآسانی برقی توانائی میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔ کچرے کا تیسرا حصہ جو قابل استعمال نہیں اسے خاص طرح کی بھٹیوں کے ذریعے تلف کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کیمیکلز اورجراثیم پر مشتمل یہ بچا ہوا کچرا انتہائی خطرناک اور آلودگی کا باعث ہوتاہے۔ دنیا بھر میں 100 میں سے 65فیصد کچرا کارآمد ہوتا ہے جبکہ 35فیصد ضائع کردیا جاتا ہے۔ تو یقین کیجئے کہ پروجیکٹ بڑا اچھا ہے عوام میں بھی سکون کی لہر دوڑے گی اورامید ہے کہ آپ یعنی اشرافیہ والے بھی مزید نعمتوں سے اور آسودگیء مال و زر سے مزید با مشرف ہوجائیں۔
کوڑاچی اوہ سوری کراچی میں سب سے برا ایڈوانٹیج سمندر کا ہے اورکچرے سے کھاد و توانائی پیدا کرنے میں سمندر یا دریا کا بھی اہم کردار ہوتا ہے جو اس شعبے کے ماہرین جانتے ہیں۔ تو پھر کراچی میں اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کے بعد ملک کے دوسرے شہروں میں بھی اسکا اطلاق کیا جاسکتا ہے اور ایک پتھر سے تین تین چڑیاں ماری جاسکتی ہیں یعنی کچرے کی تلفی،توانائی اور کھاد کا حصول اور داد و تحسین ، واہ واہ اور بہت خوب زبردست کی آوازیں اور ہاں معاشی استحکام بھی تو۔ اب کراچی کے فرزندان جنمیں ہمارے پیارے صدرمحترم،شیر نر جناب گورنر، جناب والا وزیرِ اعلی، اورمئیر بلند اختر محترم وسیم اختر اور سب سے مستغنی جناب سعید غنی اور نئی نویلی کمیٹی کے اراکین وغیرہ جن تک یقینا یہ بلاگ نہیں پہنچ پائے گا کہ کہاں یہ تحریرِحقیر اور کہاں انکے ایوانِ عالی شان و دلپذیر لیکن اگر کہیں سے گھومتا پھرتا ان سب تک یا کسی اور صاحب اختیار تک پہنچ جائے تو شاید ہمارے شہروں کا اور خصوصا کراچی کا کچھ بھلاہوجائے۔ بس اسی نیت سے قلم برداشتہ چند لفظ گھسیٹ دئے ہیں اگر کچھ اثرکر جائیں تو۔(خرم علی عمران۔۔)