kuch sawal mushkil kuch jawab mushkil

کچھ سوال مشکل کچھ جواب مشکل۔۔

تحریر: عاجز جمالی۔۔

مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میرا سوال اتنا طوفان برپا کرے گا کہ محترمہ ڈانٹنا شروع کردے گی۔ سوال بس اتنا تھا کہ سندھ میں جو بد امنی ہے جو ڈاکو راج ہے اس پر آپ کیا کہیں گی۔ بلاول ہائوس میں یہ پریس کانفرنس محترمہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف کی بننے والی حکومت کے چند ماہ کے بعد ہو رہی تھی۔ مجھے تو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ بے نظیر بھٹو اخباری مالکان کا غصہ مجھ پر اتارے گی۔ میرے سوال کے جواب میں کہنے لگی کہ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو جائو علی قاضی سے پوچھو جو ہمارے دور میں لکھتا تھا کہ سندھ میں ڈاکو راج ہے وہ اب کیوں نہیں لکھ رہے۔ اپنی تیس سالہ صحافتی زندگی میں شروع کے دو سال چھوڑ کر اٹھائیس سال سے زیادہ عرصہ رپورٹنگ کی ہے اور 1993 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی بننے والی حکومت میں رپورٹنگ شروع کی۔ کچھ معروف شخصیات ہر سوال کو جواب خندہ پیشانی سے دیتے ہیں تو کچھ لوگ سوال کا جواب دیتے ہوئے بہت ہی سخت اور توہین آمیز رویہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب میں اور فرنٹیئر پوسٹ کے دوست منظور شیخ نواب اکبر بگٹی سے انٹرویو کرنے ان کے گھر ڈیفینس گئے۔ نواب صاحب نے زبردست آئو بھگت کی اور ڈرائے فروٹ سے تواضح کیا۔ دو چار سوالوں کے بعد جب میں نے سوال کیا کہ آپ بلوچ سیاست دان سندھ حقوق پر بات کیوں نہیں کرتے ؟ نواب اکبر بگٹی کہنے لگے کہ تم کاوش کے نمائندے ہو نا۔ تمہارا تو اخبار ہی جھوٹا ہے۔ اپنے اندر میں آگ لگتے ہوئے محسوس کیا۔ دو تین سوال منظور نے کیئے۔ پھر میں نے ایک سوال کیا۔ کہنے لگے تم تو سوال ہی مت کرو تمہارا اخبار جھوٹ لکھتا ہے میرے نام سے منسوب ایک غلط خبر شایع کی۔ تو میں نے کہا کہ نواب صاحب آپ تردید کرتے۔ کہنے لگے میں تردید نہیں کرتا۔ پھر دو چار سوال منظور نے کیئے اور میں نے ہمت باندھ لی تھی کہ اگر نواب صاحب نے اب کوئی ٹیڑا جواب دیا تو ٹیڑی بات کروں گا۔ میں بولنے ہی لگا کہ کہنے لگے کہ تمہارا اخبار جھوٹ لکھتا ہے۔ میں نے کہا کہ  نواب  صاحب اخبار جھوٹ اس لیئے لکھتے ہیں کہ سیاست دان جھوٹ بولتے ہیں سیاست دان جھوٹ بولنا بند کردیں تو اخبار بھی جھوٹ لکھنا بند کریں گے۔ شروع کے زمانے میں پیر پگارا شاہ مردان شاہ  بھی ٹیڑے سوالوں پر توہین آمیز جواب دیا کرتے تھے۔ ایک بار لانڈھی میں ایم کیو ایم حقیقی کے ہیڈ کوارٹر بیت الحمزہ پر افطار پارٹی تھی۔ پیر پگارا سے سوال کرنے والے تین چار سینئر صحافی فکس ہوا کرتے تھے۔ صفدر بھائی۔ یوسف خان۔ مجید عباسی۔ منیر بھائی۔ شکیل حسنین۔ یہ لوگ تھے جو پیر پگارا کے مزاج کے مطابق سوال کرتے تھے۔ دو چار سوال کے بعد میں نے الطاف حسین کے بارے میں سوال پوچھا تو کہنے لگے کہ بھائی یہ کون سے نئے نئے صحافی مارکیٹ میں آگئے ہیں کیسے کیسے سوال پوچھ رہے۔ میں نے کہا پیر صاحب سوال پوچھا ہے آپ جواب دیں لیکن پیر صاحب نے بات ہی تیسری کردی۔ پیر پگارا کے پاس میں سینکڑوں بار گیا الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد پیر صاحب کا رویہ کافی بہتر ہو چکا تھا اور میں ان کی زندگی کی اس آخری پریس کانفرنس میں بھی تھا جو ان کی سالگرہ کے دن پر ہوئی تھی۔ سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم بھی نا پسندیدہ سوالوں پر توہین آمیز جواب دیتا تھا۔ سندھ اسمبلی کے سی ایم چیمبر میں وہ امتیاز شیخ کے خلاف پریس کانفرنس کر رہا تھا کہہ رہا تھا کہ امتیاز شیخ پنجاب کے گورنر ہائوس میں چُھپے ہوئے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ کیا جب امتیاز شیخ سندھ میں آئے گا تو آپ اسے گرفتار کریں گے؟ کہنے لگا تم تو سوال نہ پوچھو کیونکہ تم تو امتیاز شیخ کے آدمی ہو۔ میں اس زمانے میں انڈس ٹی وی میں ہوا کرتا تھا اور وزیر اعلی کے خلاف ایک تو رپورٹیں چلا چکا تھا۔ میں نے پھر سوال کرتے ہوئے کہا کہ ارباب صاحب سوال کرنا میرا حق ہے آپ مجھے سوال کرنے سے روک نہیں سکتے۔ کہنے لگا مجھے سب معلوم ہے کون صحافی کس سے ملا ہوا ہے۔ اس پر گرمجوشی ہوگئی سارے صحافی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ڈاکٹر بدر چنہ مدد علی سندھی اور دیگر منتیں کرنے لگے لیکن ہم نکل کر چلے آئے۔ اس سے قبل مجھے 2005 جا واقعہ یاد آرہا ہے جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف سب سے پہلے گوادر گیا تھا۔ کراچی سے چار پانچ صحافیوں کو آئی ایس پی آر والے لے گئے تھے۔انڈس نیوز کے مالک غضنفر علی سے نام مانگا گیا تو انہوں نے میرا اور کیمرہ مین کا نام دیدیا۔ ہم پی آئی کے جہاز میں گوادر پہنچے تھے۔ جنرل مشرف کے وزٹ کے دوران ہمیں کہا گیا کہ آپ چیف صاحب سے بات چیت کرلیں۔ میرے علاوہ جتنے بھی رہورٹر تھے سب سرکاری میڈیا کے تھے۔ پی ٹی وی۔ اے پی پی۔ ریڈیو پاکستان۔ ہم نے مائیک پکڑے بات شروع کی۔ دو تین سوال گوادر کے بارے میں پوچھے۔ سارے سوال میں ہی کرتا جا رہا تھا اور کوئی سوال نہیں پوچھ رہا تھا۔ بلا آخر میرے ذہن میں سخت سوال آگیا۔ مین نے پوچھا سر مقامی لوگ تحفظات کا اظہار کر رہے تو جنرل مجھ سے ہی پوچھنے لگا کہ کون مقامی لوگ ؟ میں نے کہا کہ جنرل صاحب بلوچستان کے سیاسی لوگ قبائلی سردار سب گوادر پورٹ پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کہنے لگا یہ آپ کس طرح کا سوال پوچھ رہے ہو۔ اس دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے آگے بڑھ کر بات چیت ختم کروائی اور مجھ پر خفگی کا اظہار کیا۔ اسی رات کراچی پہنچے دوسرے دن دفتر پہنچا تو اس سے بھی زیادہ خفگی چینل کے مالک نے کی میں سمجھ گیا تھا کہ شکایت مل گئی۔سوال تو میں نے الطاف حسین سے بھی ٹیڑھا کیا تھا لیکن الطاف حسین نے میری تعریف کرتے ہوئے سندھی دانشوروں کو ایم کیو ایم میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ کراچی پریس کلب میں  شاید 2001 کے آخر میں الطاف حسین کی پریس کانفرنس کے دوران میں نے سوال کیا تھا کہ آپ جب سندھیوں کو قریب لانا چاہتے ہیں تو سندھیوں کی اکثریت تو پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے اور آپ پی پی کو گالی دیتے ہو پھر سندھی آپ کی حمایت کیوں کریں؟ الطاف حسین کہنے لگے جناب عاجز جمالی صاحب آپ کاوش اخبار کے نمائندے ہیں کاوش سندھی کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے میں آپ سمیت تمام سندھی ادیبوں اور دانشوروں سے اپیل کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم میں شامل ہوجائیں میں آنے والے الیکشن میں ٹکٹ دوں گا۔ اور پھر واقعی 2002 کے الیکشن میں مرحوم قمر شہباز اور مرحوم آغا سلیم کو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے نامزد بھی کیا گیا تھا۔ الطاف حسین سے تو ایک بار نائن زیرو پر افطار پارٹی کے دوران بھی ایک سخت سوال پوچھا تھا  آپ جب تیس ستمبر کی بات کرتے ہیں تو یکم اکتوبر کی بات کیوں نہیں کرتے۔ جس پر الطاف حسین نے بڑا نرم جواب دیا۔ سندھ کے سابق وزیر اعلی ذوالفقار مرزا کے جوابات اکثر ڈھنگ کے نہیں ہوتے تھے ایک بار شرجیل میمن کی دعوت میں سوال پوچھنے پر سینئر صحافی رفیق بھٹو کو توہین آمیز جواب دیا تو دیگر تمام صحافی اٹھ کھڑے ہوئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ 2011 میں کراچی پریس کلب میں ذوالفقار مرزا نے جس دن قرآن شریف اٹھا کر پریس کانفرنس تھی اس دن بھی الطاف حسین کے بارے میں میرے ہی سوال پر ذوالفقار مرزا آدھے گھنٹے تک الطاف حسین کے بارے میں بولتے رہے۔ سوال تو ڈیرہ بگٹی آپریشن کے دوران آپریشن انچارج کرنل نعمان سے بھی بڑا سخت کیا تھا جس پر کراچی کے تمام صحافی اڑ گئے تھے جواب دینے کے بجائے ہمیں زبردستی ہیلی کاپٹر میں سوار کرکے روانہ کیا۔ یہ 2006 کی بات ہے جب آئی ایس پی آر والے کراچی سے صحافیوں کا جہاز بھر کر لے گئے تھے سکھر ایئرپورٹ پر ایک آرمی افسر نے بریفنگ دیتے ہوئے ڈاکٹر شازیہ خالد کی وہ گلائیں کی تھیں کہ جیسے سارا گناہ ڈاکٹر شازیہ خالد کا تھا جس سے سوئی میں جنسی آبرو ریزی کا واقعہ ہوا تھا جس کی وجہ سے نواب اکبر بگٹی اور اسٹبلشمنٹ کا جھگڑا تیز ہو چکا تھا کئی لوگ مارے گئے نواب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جا چکے تو اور فوج نے ڈیرہ بگٹی کا قلعہ فتح کردیا تھا تب پنجاب سے پناہ گزین بگٹیوں کا قافلہ حمدان بگٹی کی قیادت میں مفتوح ڈیرہ بگٹی جا رہا تھا۔ اس قافلے میں ایک بس کراچی اور سکھر کے صحافیوں کا تھا۔ قافلے کو درمیاں میں ایک گھنٹے کے لیئے روکا گیا اور بتایا گیا کہ آگے دہشت گردوں نے حملہ کر ڈالا آپریشن جاری ہے۔ خیرہ ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی کے قلعے پر لے گئے اور ہتھیاروں کے انبار دکھائے گئے کرنل نعمان ہمیں بریفنگ دے تھا۔ قصہ طویل ہے اختصار سے کام لیتے ہوئے میں اپنے سوال پر آتا ہوں۔ میں نے سوال کیا کہ  کرنل صاحب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے آنے سے قبل آپ نے ایک بہت بڑا آپریشن کیئے دہشت گرد مارے ہیں ذرا ہمیں ان دہشت گردوں کی لاشیں دکھا دیں تو ہم وڈیو بنا لیں۔ جذبات میں کرنل بولے بالکل بریفنگ کے بعد دکھاتا ہوں۔ بریفنگ ختم ہوگئی۔بعد میں کھانا کھلایا گیا کراچی کے بہت سارے صحافی کرنل نعمان سے کہتے رہے کہ سر لاشیں دکھائیں۔ ہاں ہاں کہتے خود کھسک گئے اور ہمیں کہا گیا آپ کا جہاز لیٹ ہوجائے گا۔ جلدی جلدی پہلے بس میں بعد ازاں ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر سکھر روانہ کیا گیا۔ ڈیرہ بگٹی میں ایک بار ہم چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریب میں بھی آئی ایس پی آر کے ساتھ گئے تھے۔ تقریب کے بعد ایک بڑے شامیانے میں کھانے پینے کا انتظام تھا۔ ہمارے ساتھ کافی سینئر اینکرز بھی تھے۔ اس تقریب کے لیئے ہمیں پی این ایس مہران سے ایک چھوٹے طیارے میں لے گئے تھے جب پی این ایس مہران پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ خیر جب شامیانے میں پہنچے تو مجاہد بریلوی صاحب کہنے لگے کہ جنرل صاحب سے گپ شپ کرتے ہیں۔ میں اور مجاہد صاحب شامیانے کے اس کونے میں گئے جہاں پر چیف آف آرمی اور دیگر افسران تھے۔ قریب جا کر میں نے چیف کو آواز لگائی۔ چیف صاحب ہم صحافی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ باوردی سپاہی دوڑتے ہوئے ہماری جانب بڑھے لیکن بعد میں دیکھا کہ چیف صاحب خود ہماری جانب بڑھے تو پیچھے ہٹ گئے۔ چیف صاحب نے کہا  میڈیا ویڈیا چھوڑ دو ایسے گپ شپ کرتے ہیں۔ لیکن اس پروگرام کے بعد شاید آئی ایس پی آر نے مجھے غیر اعلانیہ طور پر بین کردیا وہ میرا آخری پروگرام تھا۔ صحافی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے سوال کا رد عمل کیا ہوگا۔ ابھی تین روز قبل بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس  کے دوران میں نے وہ سوال کیا جو میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلی مالک بلوچ سے بھی کر چکا تھا مالک بلوچ کراچی پریس کلب کے باہر بے بسی کا اظہار کرکے تسلیم کر چکے تھے کہ بلوچستان سے لوگوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ میں نے بلاول سے سندھ سے نوجوانوں کی گمشدگی کے بارے سوال پوچھا تو بلاول نے بھی اس مسئلے پر سات منٹ کا جواب دیا  جس کا جواب انہیں احسان اللہ احسان کی دھمکی کي صورت میں مل چکا ہے۔ صحافتی زندگی میں ایسے ہزاروں نا پسندیدہ سوال مختلف شخصیات سے کر چکا ہوں۔ میں اکثر اپنے لیئے نا پسندیدہ سوالات کا انتخاب کرتا ہوں جو مشکل سوال ہوتے ہیں اور اکثر صحافی کوشش کرتے ہیں کہ وہ نا پسندیدہ سوال نہ کریں۔ لیکن میری پوری زندگی ایسے مشکل سوال پوچھتے گذر گئی جن کے کبھی جواب ملتے ہیں تو کبھی نہیں ملتے۔(عاجزجمالی)

(عاجز جمالی سینئر صحافی ، باخبر رپورٹر اور کے یوجے کے سیکرٹری ہیں، یہ تحریر ان کی وال سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں