تحریر: منصور مانی
مجھے اپنی دادی کی ایک کہی بات یاد آئی، انہوں نے کہا تھا جو جانور اپنے گھر والوں کا خیال نہیں رکھتے ان کا ساتھ نہیں دیتے ان کی دم کٹ جاتی ہے ہو سکتا ہے یہ بات انہوں نے مذاق میں کہی ہو ۔۔۔میں نے سوچا اچھا ہوا انسان کی دم نہیں ہوتی ورنہ تو کئی انسان دم کٹے ہوتے۔۔۔اور صحافی، لکھنے والے تو اس حوالے سے سر فہرست ہوتے، ہم لوگ کیا لوگ ہیں ہم ؟
ہم لکھتے ہیں، گالیاں کھاتے ہیں الزامات سہتے ہیں ، خبر کی کھوج میں یہاں سے وہاں خوار ہوتے ہیں، اپنے گھر والوں کا قیمتی وقت جانے کیسے کیسے لوگوں میں دیتے ہیں ! ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ہمارے بچے بڑے ہو جاتے ہیں کیسے ان کے حسین پل ہم سے کھو جاتے ہیں، ہم رات بھر پریس کلب یا ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں، گھر جاتے ہیں تو بچے سو چُکے ہوتے ہیں ،بیوی ہمارے لکھے ہوئے کا عذاب سہتے سہتے میگرین کی مریضہ بن چُکی ہوتی ہے!ہم سماج کے ٹھیکےدار بنے سدھار میں اپنے گھر کی سدھ بدھ بھلائے بیٹھے ہوتے ہیں، بچے کس کلاس میں ہیں کیا پڑھ رہے ہیں ہمیں تفصیل معلوم ہی نہیں ہوتی بس سال کے سال ایک رپورٹ کارڈ ملتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ پوزیشن ہولڈر ہے! چھٹی والے دن بھی کوئی نہ کوئی تقریب کوئی سیمنار کوئی ڈنر سر پر ہوتا ہے جسے کبھی کبھی ہم نظر انداز کر کے آخر بیوی بچوں کو وقت دے ہی دیتے ہیں۔۔۔شکر ہے ہماری دُم نہیں۔۔لیکن ہماری قسمت بھی تو نہیں۔۔(منصور مانی)۔۔۔